بڑی پارٹیوں کے بڑے بڑے دعوئوں پر مشتمل منشور تو آپ نے پڑھ لئے ہوں گے۔ مجھے دو چھوٹی پارٹیوں کے منشور پڑھنے کا موقع ملا۔ بیشک وفاق میں ان دونوں کی حکومتیں بننا کافی وقت کا متقاضی ہے۔ مگر ان کے منشور میں کچھ ایسی باتیں پڑھنے کو ملیں‘جنہیں دیکھ کر ایک خواہش مچلی کہ کاش بڑی پارٹیوں نے بھی ان ترجیحات کا احساس کیا ہوتا‘ جو دو چھوٹی پارٹیوں کا منشور تیار کرنے والوں نے سوچا۔یہ پارٹیاں ہیںجمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ف)۔ جے یو آئی نے اپنی ترجیحات میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کے شعبے کو دی ہے۔ اگر یہ جماعت حکومت میں آ گئی‘ تو منشور کے مطابق بجٹ کا 15فیصد صرف تعلیم پر خرچ کرے گی۔ آج تک کسی حکومت نے یہ احساس نہیں کیا کہ خوشحالی کی دوڑ میں‘ ترقی کے راستے پر تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ملکوں کے شانہ بشانہ ہم اسی وقت کھڑے ہو سکتے ہیں‘ جب اپنے عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالیں گے۔جن ملکوں نے تعلیم پر توجہ دی ہے‘ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی رفتار میں تیزی آتی گئی اور وہ پسماندگی سے نکل کر خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو گئے۔ جرمنی اور جاپان دوسری جنگ عظیم میں بری طرح سے تباہ و برباد ہوئے تھے۔ لیکن جنگ ختم ہوتے ہی‘ ان دونوں تباہ حال ملکوں نے تعمیرنو کا کام اتنی تیزرفتاری سے کیا کہ صرف چار عشروں کے قلیل عرصے میں دوبارہ انتہائی ترقی یافتہ‘ مالدار اور خوشحال ملکوں میں شمار ہونے لگے۔ اس کا واحد سبب شہریوں کا تعلیم اور ہنرمندیوں سے آراستہ ہونا تھا۔ سری لنکا جیسے ملک نے اپنی معیشت کو تعلیم کی طاقت سے مضبوط کیا۔ پاکستان میںبظاہر لبرل اور روشن خیال جماعتوں نے‘ ہمارے ملک میں تعلیم کی اہمیت اس طرح محسوس نہیں کی‘ جیسے ایک مذہبی سیاسی جماعت کی قیادت نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔ دوسری کسی پارٹی کے منشور میں تعلیم کے لئے 6فیصد سے زیادہ رقم مختص نہیں کی گئی۔ جے یو آئی ایک مذہبی جماعت کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے مگر اس کے منشور میں حیرت انگیز طور پر اقلیتوں کو ان کے پورے حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس جماعت کے اپنے بے شمار مدرسے قائم ہیں اور عموماً مذہبی حلقے کسی دوسرے مذہب کے تعلیمی اداروں کو برداشت نہیں کرتے۔جو یقینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ لیکن جے یو آئی نے اپنے منشور میں اقلیتوں کو تمام شہریوں کے برابر حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے اور واضح طور سے لکھا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق بھی حاصل ہو گا۔ کسی لبرل پارٹی نے اقلیتوں کو اتنے زیادہ حقوق دینے کا وعدہ نہیں کیا‘ جتنا جے یو آئی نے اپنے منشور میں کیا ہے۔ اسی طرح صحت کے لئے بجٹ کا 7فیصد مختص کیا گیا ہے۔ یہ بھی پاکستان میں صحت پر ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں زیادہ بہتر تجویز ہے۔ خارجہ پالیسی میں تمام ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کئے جائیں گے۔ جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن کو خود بھی خارجہ امورکا خاصا تجربہ ہے اور بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی ‘ اس مسئلے پر وہ دنیا کے تمام قابل ذکر ملکوں کے ساتھ مکالمہ کر چکے ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قومی اہمیت کے ہمارے اس مسئلے پر کون کیا سوچتا ہے؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مسئلہ‘ کشمیر ہے اور اسی حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کے خدوخال ابھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مذہبی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمن ایک ایسے سیاستدان ہیں‘ جو امور خارجہ کی باریکیوں اور نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جے یو آئی نے توانائی کا مسئلہ حل کرنے پر بھی خاص توجہ دی ہے اور توانائی کی پیداوار کے لئے مقامی قدرتی ذرائع کو بروئے کار لانے کی تجویز رکھی ہے۔ پاکستان میں توانائی کا مسئلہ درآمدی ایندھن سے کبھی حل نہیں کیا جا سکے گا۔ اس مسئلے کا واحد اور قابل عمل حل یہ ہے کہ آبی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے وسائل کو انقلابی جذبے کے ساتھ زیراستعمال لایا جائے۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں قدرتی آبشاروں‘ ندی نالوں کے ڈھلوانی راستوں اور پانی ذخیرہ کرنے کے قدرتی مقامات کو خصوصی طور پر تیزرفتاری سے اس قابل بنانا ہو گا کہ وہاں سے بجلی پیدا کی جا سکے۔ پانی کو مختلف طریقوں سے بلندی سے نیچے گرا کر ٹربائن چلانے اور بجلی پیدا کرنے کا عمل‘ ہم اپنے وسائل سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ صرف بجلی ذخیرہ کرنے اور پھر تقسیم کرنے کے نظام پرتوجہ دینا پڑے گی۔ کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس پر عمل کر کے‘ ہم دنیا کی سستی ترین بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور بجلی گھروں اور آبی ذخیروں کی تعمیر کے لئے حکومت جس قدر جلدی اور تیزرفتاری سے چاہے کام کر سکتی ہے۔ چینیوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب ان کے پاس جدید مشینری اور ٹیکنالوجی نہیں تھی‘ تو انہوں نے سارا کام انسانی وسائل سے لیا۔ چین کے گریٹ پیپل ہال کی عمارتیںجو دو دو واپڈا ہائوس کے برابر ہیں اور جن کی تعداد 10 ہے ‘ وہ صرف 10مہینوں میں مکمل کرلی گئی تھیں اور یہ سارا کام انسانوں نے انجام دیا تھا۔ ہمارے ہاں افرادی قوت کی کمی نہیں۔ ہم چاہیں تو لاکھوں افراد کو ڈیمز اور ڈھلوانیں تیار کرنے پر لگا سکتے ہیں۔ہم بھی ضرورت کی بجلی پیدا کرنے کی تمام سہولتیں 10مہینوں میں مہیا بھی کر سکتے ہیں۔ ضرورت صرف عزم و ارادے اور خلوص نیت کی ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اپنی افرادی قوت پر اعتماد ہی نہیں اور نہ ہی وہ خودانحصاری پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے بیشتر لیڈر‘ مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے‘ ان کی مہنگی ٹیکنالوجی‘ مہنگے داموں استعمال کر کے کرپشن کی راہیں نکالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جے یو آئی وفاق میں حکومت بنانے کی دوڑ جیت نہیں سکتی۔ لیکن اس کی قیادت نے ترجیحات کی نشاندہی قومی ضروریات کے عین مطابق کی ہے۔ مسلم لیگ (ف) کا منشور مزید ترقی پسندانہ اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے اور ہماری قومی ترجیحات کی نشاندہی میں بھی دوسروں سے بہتر لگتا ہے۔ اس جماعت نے دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے لئے ایک واضح خیال پیش کیا ہے کہ ہوم لینڈ سکیورٹی کا ایک نیا نظام تشکیل دیا جائے گا۔ عوام کے ہر کام کے لئے وقت کی حد مقرر کی جائے گی اور سرکاری ملازمین اس مقررہ وقت کے اندر کام مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ مثلاً پٹواری پر لازم ہو گا کہ وہ 48 گھنٹے کے اندر فرد مہیا کر دے۔ بہاولپور کے معاملے میں آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے واضح طور سے لکھ دیا گیا ہے کہ سابقہ ریاست کی آئینی حیثیت بحال کی جائے گی۔ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو علاج معالجے کی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ ریسکیو 1122 کی خدمات تمام اضلاع میں مہیا کی جائیں گی۔ کراچی میں دبئی کی طرز پر مونوریل چلائی جائے گی اور سرکلر ریلوے کو بلٹ ٹرین کے ساتھ فوری بحال کیا جائے گا۔ اس جماعت نے تعلیمی بجٹ‘ جے یو آئی کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رکھا ہے۔ اس جماعت نے ٹیکس دہندگان کی تعداد 10لاکھ سے بڑھا کر 30لاکھ تک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ توانائی کے مقامی قدرتی وسائل پر انحصار کرنے کی بجائے‘ ترقی یافتہ ملکوں کی اندھی تقلید کو ترجیح دی ہے۔ جیسے متبادل ذرائع کا استعمال۔ جس میں کوئلے‘ ہوا اور سورج سے توانائی حاصل کی جائے گی۔ متبادل ذرائع یقینی طور پر بہت فائدہ مند ہیں۔ امریکہ نے خصوصاً اسے ترقی کی اعلیٰ سطح پر پہنچا دیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ امریکہ توانائی کی ضروریات کے لئے تیل پر اپنے انحصار کو معمولی حد تک لے آئے گا۔بہتر گورننس کے لئے مسلم لیگ (ف) کی تجاویز میں تجربے کا فقدان نظر آتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ جماعت اپنے اندر موجود حکومتی امور کا تجربہ رکھنے والے ساتھیوں سے استفادہ کرتی۔ اقلیتوں کے معاملے میں اس جماعت نے بھی فراخدلانہ پالیسی اختیار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جیسے ’’ہم دیگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے برابر کا سمجھتے ہیں۔‘‘ ہندو خواتین کی جبری تبدیلی مذہب کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ اقلیتوں کو تمام سرکاری اداروں میں نوکری اور داخلوں میں 5فیصد کوٹے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا اور متروکہ وقف املاک کے بورڈ کا چیئرمین اقلیتوں میں سے ہی لیا جائے گا۔ اس تجویز سے اقلیتوں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ حال میں متروکہ وقف املاک سے رخصت ہونے والے چیئرمین نے اقلیتوں کے اثاثوں کے ساتھ جو بے رحمانہ سلوک کیا‘ اس کی روشنی میں تو دوبارہ اس تجربے کو دہرانا بھی بے رحمی ہو گا۔ اقلیتوں کے اثاثوں کا بندوبست‘ انہی کے نمائندوں کے سپرد کرنا مناسب رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved