تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     15-01-2019

انسانی دکھوں کا استحصال

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی قیمتوں میں پندرہ فیصد اضافہ کی منظوری دے کر نہایت بیباکی کے ساتھ انسانی دکھوں کے استحصال کا دائرہ وسیع کر دیا۔ستّر سال میں سرمایہ دارانہ ذہنیت نے غیر محسوس انداز میں سماج کو سادہ زندگی سے ہٹا کے مصنوعی اور پیچیدہ طرزِ تمدن اپنانے کی طرف مائل کیا‘جس کے نتیجہ میں لوگ میسّر وسائل پہ قناعت کرنے کی بجائے مصنوعی و پُرتعیش زندگی کے خُوگر بن کر بیماری زدہ معاشرے میں ڈھلتے گئے۔ہماری زندگی کا انحصار جنک فوڈ‘ادویات اورجدید ٹیکنالوجی پہ بڑھتا گیا‘اسی کلچر کی بدولت کچن میں استعمال ہونے والے خوردنی مواد کی اقسام‘برتنوں اورالیکٹرانکس آلات کی تعداد شمار سے باہر ہوتی گئی‘موٹر کاروں‘وی سی آر اور موبائل فون نے ہمیں پیدل چلنے پھرنے‘ ملنے ملانے اور سماجی رسومات سے الگ کر کے فرد کو پرہجوم تنہائی میں غائب کر دیا‘ یوں ہماری زندگیوں سے سادگی‘کم خوراکی‘زندہ دلی‘قناعت اورکھیلوں جیسی صحتمند سرگرمیاں معدوم ہوگئیں۔جسمانی مشقت سے اجتناب نے سماج کی قوتِ مدافعت کو کمزور کر کے ہمیں ذہنی تساہل اور جسمانی امراض کا شکار بنا دیا۔ستّر کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صحت مند معاشرے کے دوام کی خاطر روس کے ساتھ معاہدہ کر کے کیوریٹیو سروسز ہیلتھ سکیم کی بجائے پریونٹیو سروسز ہیلتھ سکیم متعارف کرنے کی منصوبہ بندی کی‘جسے سرمایہ دار طبقہ نے ناکام بنا دیا۔مسٹر بھٹو چاہتے تھے قومی وسائل کو بیماروں کے علاج پہ صرف کرنے کی بجائے ایسے صحتمند معاشرے کی تشکیل پہ خرچ کیا جائے جس میں لوگ بیمار ہی نہ ہوں۔پریونٹیو سروسز میں حکومت شہریوں کو معیاری غذا‘پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘آلودگی سے پاک ماحول اورکھیل کے میدانوں کو وسعت دینے کے علاوہ لوگوں کوسادہ اور پرسکون زندگی گزارنے کی ترغیب دلاتی ہے۔اس کے برعکس کیوریٹیو سروسزمیں حکومتیں اپنے وسائل کو علاج معالجہ کے نظام بڑھانے کے ذریعے ادویہ ساز کمپنیوں کی مصنوعات کی کھپت کی مارکیٹ بنا دیتی ہیں۔
سنہ ستّر تک حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور پبلک ہیلتھ انجینئر نگ جیسے دفاترفعال تھے‘ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کا عملہ بازار میں فروخت ہونے والی میڈیسن اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں اور معیار کی چیکنگ کے علاوہ دیہاتیوں کو بیماریوںسے بچاؤ کے طریقے سیکھانے؛حتیٰ کہ مچھروں اورجوؤں کے خاتمہ کی دوائی تک مہیا کرتا تھا۔پبلک ہیلتھ انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ دور دراز علاقوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنا کے شہریوںکو پولیو‘ملیر یا‘خناق‘کالی کھانسی‘ٹیٹنس‘ہیپاٹائٹس اور خسرہ جیسے امراض سے بچانے کا فریضہ نجام دیتا۔ اُس وقت تک معاشرے میں جسمانی مشقت کا رجحان عام‘ہسپتال سنسان‘میلے ٹھیلے اورکھیلوں کے میدان آباد ہوا کرتے تھے‘ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کے باعث رفتہ رفتہ دوا ساز کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ بڑھانے کی خاطر پریونٹیو سروسز سسٹم کو مفلوج بنا کے کیوریٹیو سروسز ہیلتھ سکیم کا دائرہ بڑھانے کی ترغیب دلا کے سماج کو بیماریوں کی آماجگاہ بنا ڈالا۔آج بائیس کروڑ کے ملک میں کوئی فرد ایسا نہیں بچا جو کوئی میڈیسن‘مصنوعی ٹانک‘ٹوتھ پیسٹ‘میک اَپ یا آفٹر شیو لوشن استعمال نہ کرتا ہو۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے دفاتر میں اب بھی ڈاکٹرز اور میڈیکل ٹیکنیشنز سمیت سینکڑوں اہلکاروں کے علاوہ تیس پینتیس گاڑیوں کا بیڑا موجود ہے‘ لیکن وہ کچھ ڈلیور نہیں کر سکتے۔پچھلی بار پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں صحت کے کیوریٹیو نظام کو وسعت دینے کیلئے بڑے پیمانے پہ قانون سازی کر کے پندرہ ایکٹ پا س کئے اور ہیلتھ بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ کر کے اسے 12000 ملین تک بڑھا دیا‘ لیکن ہیلتھ کا اسّی فیصد بجٹ ہسپتالوں کے انتظامات‘پی او ایل‘ٹی اے ڈی اے اور ٹریننگز میں کھپ جاتا ہے۔خیبر پختونخوا کے ہر شہری کو اوسطاً 20 پیسے کی ہیلتھ فیسلیٹی ملتی ہے۔اس وقت خیبر پختونخوا میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے صحت کے سات پراجیکٹس جاری ہیں‘ جن میں ٹی بی کنٹرول‘ ایڈز کنٹرول‘ای پی آئی‘ وزیراعظم ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘ملیر یا کنٹرول پروگرام‘زچہ بچہ صحت پروگرام اور فیملی پلاننگ اینڈ ہیلتھ کیئر پروگرام شامل ہیں۔حفظانِ صحت کے اس دیوہیکل ڈھانچہ کے باوجود پولیو ختم نہیںہوا(دو روز قبل لکی مروت میں پولیو کا کیس رجسٹر ہوا)۔
امریکہ اور چین نے صرف ایک سال میں دو راؤنڈ کے اندر پولیو کا خاتمہ کر لیا‘یہاں 1994ء سے انسدادِ پولیو مہم جاری ہے‘ہم پولیو پر قابو نہیں پا سکے۔انسدادِ پولیو کے غیر ملکی فنڈ کا پچاس فیصد مرکز اور تیس فیصد صوبہ''ٹریننگ‘‘کے نام پہ رکھ لیتا ہے۔پندرہ فیصد سپروائزری سٹاف کی نذر ہو جاتا ہے‘فیلڈ ورکرز کو پانچ سو روپے سے بھی کم اجرت ملتی ہے۔خیبر پختونخوا میں اے کلاس کے14 ہسپتال‘بی کلاس کے13 ‘سی کلاس کے26 ‘ڈی کلاس کے63 ہسپتال اور 111 رورل ہیلتھ سنٹرز کے باوجود یہاں بیماریاں بڑھ گئیں ۔لائف سٹائل کی بدولت شوگر اور دل کی امراض روزافزوں ہیں۔خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی ایڈز کے اعدادو شمار میسر نہیں۔ صوبہ بھر میں ٹی بی کے 186300مریض موجود ہیں‘ ہردسواں فرد ہیپا ٹائٹس اور ہر آٹھواں آدمی ذیابیطس کا مریض ہے۔اس سال ڈپریشن کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں دیگر بدعنوانیوں کے علاوہ ڈیٹا چوری کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ہسپتالوں میں او پی ڈی کی یومیہ ہزاروں پرچیاں بیچ کے ریکارڈ پہ چند سو ظاہر کی جاتی ہیں‘حال ہی میں انٹی کرپشن پولیس نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی او پی ڈی کمپیوٹر آپریٹر خاتون کو پکڑا جس نے چند سال میں اربوں کی جائیداد بنا لی تھی۔ہیلتھ کے پرائیویٹ سیکٹر میںمتوازی سلطنت اُبھری‘ جس نے عام لوگوں کی ذہینی و جسمانی احتیاج اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے لاعلمی کا فائدہ اٹھا کے کروڑوں‘ بلکہ اربوں روپے سالانہ کمانے کی راہ نکال لی(محکمہ صحت کی ویب سائٹ پہ رجسٹرڈ نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریزکا ڈیٹا موجود نہیں)۔ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوے کی دہائی میں دوا ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر 270 سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز نے ایک سال میں پندرہ ارب کی دوائی لکھنے کے عوض غیر محدود مالی مفادات اور فیملیز سمیت غیرملکی سفر انجوائے کئے۔ملک بھر میں کوئی دس بارہ جینرک ادویات ہوں گی‘ لیکن پیسے کمانے کی خاطر ان کے ہزاروں برانڈز متعارف کرائے گئے۔سرکار کے لئے نجی شعبہ کے ہسپتالوں کی فیسوں کو چیک کرنے اور پرائیویٹ لیبارٹریز ریگولیٹ کرنا ممکن نہیں رہا۔حمل ٹیسٹ کی سٹک دس روپے میں ملتی ہے‘ لیکن لیبارٹری والے حمل ٹیسٹ کے سو روپے لیتے ہیں‘ہیپا ٹائٹس بی‘ سی کی سٹک تیس روپے کی ‘ٹیسٹ پانچ سو روپے‘شوگر ٹیسٹ کی ساڑھے چار ہزار روپے کی دوائی سے ایک ہزار ٹیسٹ ہوتا ہے‘لیبارٹریز 80 روپے فی ٹیسٹ وصول کر کے ساڑھے چار ہزار سے 80 ہزار روپے کما لیتی ہیں۔لیبارٹریز میں صفائی کا مناسب نظام ہے‘ نہ استقبالیہ؛ حتیٰ کہ مریضوں کے بیٹھنے کی گنجائش اورباتھ روم کی سہولت تک موجود نہیں‘ لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں‘لیبارٹریز اور دواساز کمپنیوں نے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملہ اور ڈاکٹرز کی کاروباری ذہنیت کو پہچان کے بھاری نذرانوں کے بدلے انہیں نجی کمپنیوں کا وفادار بنا کر سرکاری نظامِ صحت کو مفلوج کر دیا۔اسی گٹھ جوڑ کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے پرائیویٹ سیکٹر میں ہسپتالوں‘کلینکس‘تشخیصی لیبارٹریز‘ایکسریز اور سٹی سکین سمیت صحت سہولیات کی ایک پوری سلطنت کھڑی ہو گئی ۔اب پرائیویٹ سیکٹر اس قدر طاقتور بن گیا ہے کہ گورنمنٹ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ہماری حکومتیں میڈیکل سٹورز کو دوائی کی رسید دینے کا پابند نہیں بنا سکتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved