آج سے ایک سال قبل ۱۳جنوری۲۰۱۸ء کو عزیزم مدثر ابن صفدر کا فون آیا۔ اس نے اطلاع دی ''چچا جان! ابوجی کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں نے انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون پڑھ کر پوچھا: ''کس وقت؟‘‘ اس نے بتایا کہ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ہم منصورہ ہسپتال لے کر آئے‘ مگر پہنچتے ہی ابوجی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب ہم میت لے کر واپس محافظ ٹاؤن جارہے ہیں۔ اللہ کی قدرت ہے کہ زندگی کا بیش تر وقت منصورہ میں گزرا اور آخری سانس بھی منصورہ میں مقدر ہوا۔ وَّمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (لقمان۳۱:۳۴)
چند لمحات میں یہ خبر منصورہ میں ہر شخص تک پہنچ گئی۔ مرحوم کے لیے سب بڑے چھوٹوں کے لبوں پر تحسین وتعریف کے الفاظ کے ساتھ دعائیہ کلمات آگئے۔ صفدر بھائی کے جاننے والے اور چاہنے والے بے شمار لوگ ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی‘ مگر اس سانحۂ ارتحال کے موقع پر جب میں ان کے گھر حاضر ہوا تو پرسکون چہرہ دیکھ کر بے ساختہ فیض یاد آگئے:
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
مرحوم بھائی صفدر علی کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ مرحوم دوست ہی نہیں سگے بھائیوں کی طرح محبت کرنے والے عظیم انسان تھے۔ صفدر صاحب کے آباواجداد ضلع جالندھر میں کاشتکاری کے پیشے سے منسلک تھے۔ چودھری صاحب کے والد جناب دین محمد کو اللہ نے چھ بیٹوں اور پانچ صاحبزادیوں سے نوازا۔ بھائیوں میں چودھری فتح محمد سب سے بڑے تھے۔ان کے بعدحاکم علی‘ قاسم علی‘ جعفرعلی اور پھر صفدر علی۔ صفدر بھائی تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور پورے خاندان کے لاڈلے شہزادے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اوکاڑہ شہر میں مقیم ہوئے۔ قریبی گاؤں چھ ایل آر میں ان کو کچھ زمین الاٹ ہوئی تھی۔ بعد میں ان کے خاندان کو لیّہ میں زمین الاٹ ہوئی تو اس کی آبادکاری کے لیے خاندان کے بیش تر لوگ وہاں نقل مکانی کرگئے۔ صفدر صاحب کی پیدایش ۱۹۴۱ء کی ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز اوکاڑہ میں سرکاری سکول سے کیا‘ پھر گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد جامعہ پنجاب میں شعبہ سیاسیات سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایس وی ٹیچر تھے۔
چودھری صاحب کے اپنے بقول؛میں نے ۱۹۵۷ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۶۰ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ٹیچنگ کورس ''ایس وی‘‘ پاس کیا پھر ۱۴اکتوبر ۱۹۶۲ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ ۱۹۶۳ء میں میری شادی ہوئی۔ میرا رشتہ طے ہونے اور شادی ہونے میں مولانا مودودی کی مشاورت کا بڑا عمل دخل تھا۔ میری شادی ۱۴اپریل ۱۹۶۳ء کو ہوئی۔ شادی کے بعد میں نے گریجوایشن کی۔ ۱۹۶۸ء میں ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا اور اسی سال جماعت اسلامی کا رکن بنا۔
دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور مقامی سے لے کر صوبائی سطح تک نظامت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ مرکزی شوریٰ کے بھی رکن رہے۔ وہ انتہائی ان تھک‘ ازحد مخلص اور بے پناہ محبت کرنے والے کارکن اور رہنما تھے۔ جس شخص سے ایک بار ان کی ملاقات ہوئی‘ ان کا ایسا گرویدہ ہوا کہ زندگی بھر ان کو نہ بھول سکا۔ مجھے پہلی مرتبہ ۱۹۶۴ء میں ٹولنٹن مارکیٹ انارکلی میں نصراللہ شیخ مرحوم کی دکان پر ملاقات کا موقع ملا۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ جناب شیخ محبوب علی مرحوم‘ چودھری عطاء اللہ‘ جاوید نواز‘ سلیم بن امیر‘ صادق عارف‘ عبدالحئی احمد مرحوم‘ ذوالقرنین مرحوم ‘ محمود حسین اور غالباً محمدرمضان عادل مرحوم بھی تھے۔ ان احباب کی کوئی تنظیمی نشست ناظم اعلیٰ شیخ محبوب علی کے ساتھ ٹولنٹن مارکیٹ میں واقع چھوٹی سی مسجد میں تھی۔ وہاں سے وہ بھی نصراللہ شیخ کی دکان پر تشریف لائے۔ (شیخ محبوب علی مرحوم کے حالات ہماری کتاب چاند اور تارے صفحہ ۷۵تا۸۶ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔)
چودھری عطاء اللہ سے میرا رابطہ اس سے قبل ہوچکا تھا۔ میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں سیکنڈ ایئر میں پڑھتا تھا اور جناح ہاسٹل میں مقیم تھا۔ جب میں فرسٹ ائیر میں تھا تو عطاء اللہ صاحب (ناظم لاہور) مجھے وہیں ہاسٹل میں آکر ملے تھے اور میں جمعیت کا رفیق بن گیا تھا۔ پروفیسرعطاء اللہ چودھری میرے پہلے ناظم تھے۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ ان کی بیٹی طیبہ عطاء اللہ‘ جو اسلامی جمعیت طالبات کی سرگرم رکن تھیں‘ ۱۹۹۱ء میں ایک حادثے میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ عزیزہ طیبہ کے حالات ہم نے اپنی کتاب چاند اور تارے صفحہ ۷۰تا۷۴میں لکھے ہیں۔ ناظم لاہور کی طرف سے مجھے اسلامیہ کالج میں نظامت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ الحمدللہ چند ہفتوں ہی میں بیس پچیس ساتھی جمعیت کے کارکن اور رفقا بن گئے۔ اسی سلسلے میں جمعیت کے سابقین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔
صفدر صاحب اور شیخ محبوب الٰہی کے علاوہ باقی دوستوں سے پہلے سے شناسائی تھی۔ نصراللہ شیخ ہمارے مالی معاون تھے اور ان سے اسی سلسلے میں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ صفدر صاحب سے؛ اگرچہ یہ پہلی ملاقات تھی‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھ سے یوں ملے جیسے برسوں کا تعلق ہو۔ ان کی اس صفت کا ہر وہ شخص گواہ ہے جس سے ان کی کبھی ملاقات رہی ہو۔ بے تکلفی میں انہوں نے کئی مزاحیہ فقرے بھی بولے جن سے بڑا لطف آیا۔ وہ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ صفدر صاحب اس وقت تک لاہور شفٹ نہیں ہوئے تھے۔ ناظم اعلیٰ کی آمد پر ان سے ملاقات کی غرض سے لاہور آئے تھے۔ کچھ عرصے بعد صفدر صاحب لاہور منتقل ہوگئے اور جامعہ پنجاب میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس عرصے میں میں نے اسلامیہ کالج سے ایف اے کرکے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ صفدر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ہر ملاقات میں ان سے محبت اور اپنائیت بڑھتی چلی گئی۔
اسی زمانے میں صفدر صاحب علاقہ وسط مغربی پاکستان کے ناظم مقرر ہوئے ‘جسے چاروں صوبوں کے مجموعے کے طور پر ون یونٹ کہا جاتا تھا۔ علاقہ وسط مغربی پنجاب پر مشتمل جمعیت کا تنظیمی علاقہ تھا۔ کچھ عرصے بعد مجھے صفدر صاحب کے ساتھ معتمد علاقہ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دور میں مرحوم کی مزید خوبیوں کا پتا چلا۔ وہ اپنے آرام سے زیادہ اپنے ساتھیوں کے آرام وراحت کا خیال رکھتے تھے۔ تعارف کرواتے ہوئے اپنے جونیئرساتھیوں کا اتنا ادب واحترام سے ذکر کرتے کہ ان کے ساتھی شرم سار ہورہے ہوتے اور سامعین کے دل میں ان کی قدرومنزلت بڑھ رہی ہوتی۔ جمعیت میں صفدر صاحب کی خدمات کی اس دور میں بڑی اہمیت تھی‘ کیونکہ مارشل لا کے دور میں جمعیت کو جو دھچکا لگا تھا‘ اب آہستہ آہستہ اس کے اثرات زائل ہورہے تھے اور جمعیت کی دعوت کافی وسعت پذیر تھی۔ ایسے میں صفدر بھائی جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ قائدین کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے باوجود جمعیت نے ہمیشہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کے ہر حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کیا۔ اسی کی یہ مثال تھی کہ صفدر صاحب جمعیت سے جماعت میں چلے گئے۔
صفدر صاحب کو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہدایت پر ایم اے کا امتحان دینے کے فوراً بعد مرکز جماعت میں طلب کرلیا گیا۔ ان کی جماعت کی رکنیت بھی منظور ہوگئی۔ نتیجتاً جمعیت سے ان کی اچانک فراغت کی وجہ سے ذمہ داران جمعیت نے کچھ عرصے کے لیے مجھ پر بطور قائم مقام ناظم علاقہ وسط مغربی پاکستان کی ذمہ داریاں ڈال دیں‘ جو مجھے ناتجربہ کاری کے باوجود نبھانا پڑیں۔ میرے اندر نہ صلاحیت تھی‘ نہ تجربہ تھا‘ مگر نظم کے حکم پر سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ اس سارے عرصے میں پہلے تو مختلف مقامات کے دورے صفدر صاحب کی رفاقت میں ہوئے اور بعد میں اپنے طور پر یہ کام کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس ذمہ داری سے جلد فراغت مل گئی‘ مگر ابھی سانس بھی نہ لیا تھا کہ لاہور مقام کی ذمہ داری آن پڑی۔ پورا لاہور اور تمام تعلیمی ادارے ورہائشی علاقہ جات ایک اکائی تھی۔ اس دور میں بھی صفدر صاحب سے رہنمائی کے لیے رجوع کرتا رہا۔
صفدر بھائی زندگی کے آخری لمحے تک تحریک اسلامی کا ساتھ مثالی انداز میں نبھایا۔ انھیں جماعت اور پاکستان کی پوری تاریخ ازبر تھی۔ ایسے ایسے واقعات ان کے علم میں تھے کہ اگر وہ ان کو قلم بند کر جاتے تو ایک خوب صورت مرقع تیار ہوجاتا۔ جب بھی ان سے کہا جاتا کہ کچھ لکھو تو اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے فرماتے: ابھی آپ لکھیں‘ ہم بعد میں دیکھیں گے کہ کیا رہ گیا ہے‘ اسے لکھ لیں گے۔ یہ ان کا محبت بھرا نداز تھا‘ مگر سچی بات یہی ہے کہ وہ خدمت خلق کے کاموں میں یوں مشغول رہتے کہ اپنی معمول کی خبریں تیار کرنے اور انھیں اخبارات تک پہنچانے کے سوا کچھ لکھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ حق مغفرت کرے ‘ ایک سال بعد ان کی قبر پر دعا کے لیے حاضر ہوا تو محسوس ہوا کہ صاحبِ قبرگہری ‘ میٹھی نیند کے مزے لے رہا ہے۔؎
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا