اس وقت قومی معیشت ایسی غزل کی مانند ہے‘ جس میں سکتے کے شعر زیادہ ہیں۔ ہر مصرع بے بحر دکھائی دے رہا ہے۔ بعض معاملات میں شعر تو وزن میں ملتا ہے‘ مگر ہر مصرع کی بحر الگ ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ طائرانہ سی نظر ڈالنے پر بیشتر معیشتی امور آزاد نظم محسوس ہوتے تھے۔ اب معیشت کی جو کیفیت ہوتی جارہی ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ نثری نظم معرضِ وجود میں آرہی ہے!
اب ذرا شاعری کے دائرے سے نکلئے اور حمزہ شہباز کی طرف چلئے جنہوں نے قومی معیشت کے حوالے سے بعض دلچسپ باتیں کہی ہیں۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں حمزہ شہباز نے کہا کہ قومی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور قوم سکتے کی حالت میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرنسی کی قدر گرنے پر برآمدات بڑھ جاتی ہیں‘ مگر پاکستان کے معاملے میں بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ روپے کی قدر میں غیر معمولی گراوٹ کے باوجود برآمدات کا گراف بلند کرنا ممکن نہیں ہو پارہا! اور یہ کہ ایک ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے ایٹمی طاقت کو بھکاری بننا پڑ رہا ہے۔
حمزہ شہباز نے دیگر امور کا بھی رونا رویا‘ مثلاً :یہ کہ جب ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تب معیشت کی شرحِ نمو 6 فیصد تھی ‘جو 3 فیصد پر آگئی ہے اور یہ کہ لوڈ شیڈنگ کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آچکا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو گرانے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ یہ اپنے جھوٹ کے بوجھ سے گر جائے گی۔ حمزہ شہباز نے اور بھی کچھ باتیں کہیں جن سے اختلاف کیا جاسکتا ہے‘ مگر ایک بات تو طے ہے کہ معیشت واقعی وینٹی لیٹر پر آگئی ہے اور قوم سکتے ہی کی حالت میں ہے۔ روپے کی قدر میں ایسی گراوٹ آئی ہے کہ لوگوں کی راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے ‘مگر اس گراوٹ کے باوجود برآمدات کا گراف بلند کرنا اب تک ممکن نہیں ہو پایا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی بھرپور کوششیں تاحال جاری ہیں۔اس مد میں حقیقی اضافہ کم اور قرضوں کی شکل میں ملنے والے ڈالرز کا اضافہ زیادہ ہے۔ قرضوں کی شکل میں آنے والے زرِ مبادلہ کو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں حقیقی اضافہ قرار نہیں کیا جاسکا۔ سٹاک مارکیٹ سے کم و بیش 18 ارب ڈالر نکل گئے ہیں۔ دوسری سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ حکومت نے بظاہر ہوم ورک کے بغیر کام شروع کیا ہے۔ وہ اب تک یہی طے نہیں کر پائی کہ معیشت مقدم ہے یا سیاست۔
معیشت‘ معاشرت‘ سیاست اور سفارت ... تمام حوالوں سے جتنی بھی خرابیاں پائی جارہی ہیں وہ راتوں رات پیدا ہوئی ہیں نہ راتوں رات پروان چڑھی ہیں۔ کئی حکومتوں کی ملی جلی کارکردگی نے ملک کو اِس حالت سے دوچار کیا ہے۔ اس اجتماعی خرابی میں کس نے کتنا حصہ ڈالا ہے‘ اس پر بحث پھر کبھی سہی‘ سرِدست مسئلہ یہ ہے کہ خرابی دور کیسے کی جائے۔ آنے والے جانے والوں کو موردِ الزام ٹھہراکر اپنے حصے کے کام سے جان نہیں چُھڑواسکتے‘جو کچھ اُنہیں کرنا ہے ‘وہ تو کرنا ہی ہے۔ اور انہیں بھی اُن کے کِیے ہی کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جائے گا۔
ملک کی یہ درگت راتوں رات نہیں بنی۔ ڈھائی عشرے ہونے کو آئے ہیں کہ قوم تمام معاملات کو تلپٹ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں سب کچھ ٹھکانے پر ہو اور مطلوب نتائج یقینی بنانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا احسن طریقے سے ادا کر رہا ہو۔ صحتِ عامہ‘ تعلیم ِ عامہ‘ مواصلات‘ بنیادی سہولتیں‘ معاش کے ذرائع‘ امن ِ عامہ‘ قومی سلامتی‘ معاشرتی تعلقات‘ داخلہ پالیسی‘ خارجہ پالیسی ... کس کس کو روئیں‘ کس کس کا ماتم کریں۔ کچھ بھی تو ٹھکانے پر دکھائی نہیں دے رہا۔ عام آدمی سوچ سوچ کر اَدھ مُوا ہوا جاتا ہے۔ ذہن اندازہ ہی نہیں لگا پاتا کہ پہلے کس معاملے کو درست کرنے پر توجہ دیجیے‘ ابتداء کہاں سے کیجیے اور ابتداء سے پہلے انتہا کا خیال آتا ہے‘ جس سے روح کانپ کانپ اٹھتی ہے۔
ایک زمانے سے قوم کا یہ حال ہے کہ ع
ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!
بھیڑ یا ہجوم کو قوم کہا بھی نہیں جاسکتا۔ ایک قوم ہوا کرتی تھی‘ جسے یاروں نے مل کر خاصی محنت سے ریوڑ کی سی ذہنیت سے ''آراستہ‘‘ کیا ہے۔ وہ زمانے لد گئے ‘جب سوچنے کے عمل کو زندگی کی بنیادی ترجیحات میں خاص اہتمام کے ساتھ جگہ دی جاتی تھی‘یعنی لوگ سوچنے کے عادی ہی نہیں رہے۔ اور رہ گیا ذوقِ عمل تو صاحب! اُس کا حال یہ ہے کہ ڈھونڈے سے ملتا نہیں اور اگر کہیں اُس کی ایک آدھ جھلک دکھائی دے بھی جائے تو ہاتھ آنے کا نام نہیں لیتا۔ ؎
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دل کو بہلائیں
تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں؟
ایک زمانے سے قوم کو تھپکیاں دے دے کر سُلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پکے راگ گانے والوں کے گلوں میں جو بہلاوے پائے جاتے تھے وہ اب مقام بدل چکے ہیں۔ اہلِ سیاست کی باتوں میں پائے جانے والے بہلاوے ایسے دل کش ہیں کہ لوگ خاندانی گویّوں کو بھول گئے ہیں اور دوسری طرف قوم کا حال یہ ہے‘ جو کچھ اُس پر بیت رہی ہے اُس کا حال بیان کرنے کی تاب بھی نہیں! گویا ع
خموشی گفتگو ہے‘ بے زبانی ہے زباں میری
والی کیفیت ہے کہ تمام معاملات پر محیط ہوئی جاتی ہے۔ قوم کی حالت عجیب ہے۔ جو کچھ ذہنوں میں پنپ اور اُبل رہا ہے وہ اخراج کی موزوں راہ نہیں پارہا۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ اچھا خاصا بول کر بھی بہت کچھ نہیں کہہ پارہا۔یہ وقت سیاست کو ایک طرف ہٹاکر پوری توجہ صرف اور صرف معیشت پر مرکوز کرنے کا ہے۔ ایک بار معیشت سنبھل جائے تو پھر بہت کچھ ہوتا رہے گا۔ تب تک منتخب نمائندوں‘ بیورو کریٹس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو سارے دھندے چھوڑ کر صرف معیشت کی بات کرنی ہے‘ اِسی کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک مدت سے ٹھنی ہوئی ہے۔ اس کشاکش نے اچھا خاصا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ بگاڑ اتنا زیادہ ہے کہ قوم کے حوصلے بلند ہو ہی نہیں پاتے‘ ولولہ جڑ پکڑنے کی منزل سے دور رہتا ہے۔ گزری ہوئی منتخب و غیر منتخب حکومتوں کا چھوڑا ہوا بہت سا کچرا اب تک قومی استحکام کی طرف جانے والی راہ پر پڑا ہوا ہے۔ یہ کچرا ہٹائے بغیر تیز رفتار سفر ممکن نہیں۔
یہ تو ہم نے دیکھا کہ قومی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے‘ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ معالج وہ ہیں‘ جو دوا کے بدلے زہر دیتے ہیں۔ ہم اب تک اپنی دُھن میں گائے جارہے ہیں ؎
مِرے نامُراد جنون کا ہے علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اُسی چارہ گر کی تلاش ہے!
سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جنوں ہے ہی نہیں تو اُس کے نامُراد ہونے کا سوال کہاں اُٹھتا ہے؟قوم سکتے کی حالت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش نہ کی جائے تو اسے قوم پر بہت بڑا احسان تصور کیا جائے گا۔