چار سال پہلے کی بات ہے ، کراچی میں جناب الطاف حسن قریشی کی ''ملاقاتیں کیاکیا‘‘کی تقریب رونمائی میں ڈاکٹر طاہر مسعود سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ الطاف صاحب پر ایک کتاب مرتب کررہے ہیں اور اس کے ساتھ یہ حکم کہ مجھے بھی اس کیلئے کچھ لکھنا ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن کے سابق سربراہ ڈیڑھ درجن سے زائد کتابوں کے مصنف(یا مؤلف ) ہیں‘ جن میں نصابی کتابیں بھی ہیں۔ ان کے علاوہ افسانے اور کہانیاں ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے ''خاکے‘‘ بھی اصحاب نقد ونظر کی تحسین کے مستحق ٹھہرے۔ شاعروں اور ادیبوں کے ذرا مختلف اور منفرد قسم کے انٹرویوزنے ''صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ کے عنوان سے دھوم مچادی۔ صلاح الدین شہید کے زیر ادارت ''جسارت‘‘ میں نوجوان طاہر مسعود کے کالموں کو بھی قبولیت اور مقبولیت پانے میں دیر نہ لگی۔ ''19ویں صدی کی صحافت‘‘ ان کے پی ایچ ڈی کا موضو ع تھا، جس کے لیے وہ بھارت کے قدیم صحافتی مراکز بھی گئے۔ اسی عنوان سے اس تھیسس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ بھارت میں شائع ہونے والے ایڈیشنوں کی تعداد زیادہ ہے۔
طاہر مسعود نے الطاف صاحب پر کتاب کے لیے جو خاکہ مرتب کیا، اس کا ایک حصہ ''رفقائے کار کے مشاہدات‘‘ پر مبنی تھا۔ رفیق کار ہونا بہت بڑی بات ہے، ہم تو ان کی شاگردی کو ہی اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ طاہر مسعود نے دوتین بار فون پر یاد دہانی کرائی لیکن الطاف صاحب پر لکھنے میں ایک حجاب سا مانع رہا۔
یاد آئے ترے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہیٔ فن یاد آئی
کوئی دوسال قبل وہ لاہور تشریف لائے تھے۔ الوداعی ملاقات میں فرمایا: کتاب تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ تم اس سعادت سے محروم رہنا چاہتے ہو، تو تمہاری مرضی۔ سچی بات یہ ہے کہ ''یہ سعادت‘‘ والی بات دل میں گھر کر گئی۔ کنعان کے بازار میں یوسف کی نیلامی کے وقت ایک بڑھیا بھی سوت کی اٹیّ لے کر چلی آئی تھی کہ ان کے خریداروں میں اس کا نام بھی آجائے گا، سویہی جذبہ بروئے کار آیا اور ''الطافِ صحافت‘‘ کے لیے لکھنے والوں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ جناب الطاف حسن قریشی کی شخصیت اور صحافتی و ادبی خدمات پر اس کتاب کو طاہر مسعود نے مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ آغاز ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے ڈاکٹر وقار ملک کے انٹرویو سے ہوتا ہے۔ پھر ڈاکٹر طاہر مسعود کا اپنا مضمون ''بڑا انسان، بڑا صحافی‘‘، اس کے بعد الطاف صاحب کے اپنے قلم سے ''میری زندگی کے کٹے پھٹے اوراق‘‘، اس کے بعد ''دوستوں اور عزیزوں کے تاثرات‘‘، ''رفقائے کار کے مشاہدات‘‘ ،''ہم سفروں کی حکایات‘‘ ، ''ہم عصردانشوروں اور ادیبوں کی نگارشات‘‘ ، ''کالم نگاروں کے محسوسات‘‘، ''اردو ڈائجسٹ کی تقریب میں پڑھے جانے والے مضامین‘‘ اور آخر میں الطاف صاحب کی شاعری سے کچھ انتخاب۔ یہ ابواب جن شخصیات کے جواہر پاروں سے جگمگا رہے ہیں، ان سب کے نام لکھوں تو کالم میں کچھ اور لکھنے کی جگہ نہیںرہے گی اور کچھ ناموں کا انتخاب بھی بہت مشکل کہ ان میں ہر ایک اپنی جگہ آفتاب ہے۔
بھٹو عہد کے ستم رسید گان میں ہمارے بزرگ دوست سیدسعود ساحر بھی تھے، وہ لکھتے ہیں:
''جناب مجیب الرحمن شامی کی ادارت میں چودہ ہفت روزوں کے ڈیکلریشن کی منسوخی، انار کلی دفتر پر آتش وآہن کا حملہ، پریس پر ایک لاکھ دس ہزارپرچہ پولیس کے ٹرک میں بھر کر راوی کی نذر کرنے کا نامعقول عمل ، سچ کہنے سچ لکھنے سے جناب الطاف حسن قریشی کی بنائی ہوئی ٹیم کے حوصلے پست نہ کرسکا۔ آج بھی جو جہاں ہے،سچی بات کہنے کی ہمت رکھتا ہے اس چمن کا ایک ایک بوٹا الطاف حسن قریشی کی رہ نمائی کو تسلیم کرتا ہے‘‘ اور پھر الطاف صاحب (اور شامی صاحب) کے باوقار طرز عمل کی مثال ''5جولائی کے مارشل لا کے بعد جنرل ضیاء الحق نے غالباً 11جولائی کو پہلی پریس کانفرنس کی۔ جنرل ضیاء الحق نے الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی کی جرأت و بہادری اور حق گوئی کی بڑی تحسین کی‘ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بھٹو کے خلاف نہ ایک لفظ زبان سے نکالا نہ ضیاء الحق کے اس بیان پر اعتراض کیا کہ اگر پیپلز پارٹی مجوزہ انتخاب میں کامیاب ہوگئی تو وہ اسے اقتدار منتقل کردیں گے، مگر محفل میں موجود میر خلیل الرحمن کھڑے ہوگئے اور رقت آمیز لہجے میں فریاد کی کہ ''جنرل صاحب! بھٹو کو مت چھوڑنا یہ بڑا ظالم ہے‘‘۔
جناب نصیر احمد سلیمی کو کئی بار الطاف صاحب کی ہم سفری کا اعزاز حاصل ہوا۔ان کے مضمون میں الطاف صاحب سے جنرل فضل حق (مرحوم)کی آف دی ریکارڈ گفتگو سے کچھ سطور: مجھے (جنرل فضل حق کو) غلام اسحق نے کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے، تم سیاسی لوگوں سے اس کیخلاف شور شرابہ کروا دو تو صوبے کو اس کی رائلٹی میں زیادہ حصہ مل جائے گا اور بہت سی دوسری مراعات بھی حاصل ہو جائیں گی؛ چنانچہ میں نے لوگوں کو اس کے خلاف احتجاج پر لگا دیا۔ میں عبدالولی خان کے پاس بھی خود گیا‘ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ سیاسی مخالفت نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ کھیل ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘پاک نیوی کے وائس ایڈمرل اے رشید اس وفد میں شامل تھے جو 1971ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہونے سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میںچینی قیادت سے مذاکرات کیلئے بھیجا تھا (بھٹو صاحب یحییٰ خان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ تھے۔ وفد میں ایئر مارشل رحیم اور جنرل گل حسن بھی تھے) وائس ایڈمرل اے رشید کے بقول چینی قیادت نے اسی شام صاف لفظوں میں واضح کردیا تھا کہ اسلام آباد کے پاس بنگال کی سیاسی قیادت کے ساتھ مفاہمت اور سیاسی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں اور چین صرف سیاسی حل میں مدد کرسکتا ہے۔ مگر یہ وفد اس کے بعد بھی تین دن تک ہوٹل میں بیٹھ کر پاکستان میں خبریں لگواتا رہا کہ چینی قیادت سے کامیاب مذاکرات ہو رہے ہیں۔(ہمیں یاد ہے، بھٹو صاحب نے چین سے واپسی پر لاہور میں فرمایا تھا، چین سے بات ہو گئی ہے۔ بھارت نے حملہ کیا تو ''دمادم مست قلندر ‘‘ ہوجائے گا)
مسقط والے جاوید نواز کو کارگل مس ایڈونچر کے حوالے سے الطاف صاحب کا مضمون (اگست 1999ئ) یاد ہے جس میں انہوں نے ان چار جرنیلوں کے نام بھی لکھ دیئے تھے جو اس معاملے میں شریک تھے۔ جاوید نواز کے بقول: میں مسقط سے اسلام آباد آیا ہواتھا اور الطاف صاحب بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ ہم استقبالیہ کے باہر ایک دوست کا انتظار کررہے تھے کہ سیاہ رنگ کی ایک کار آکر رکی اور دو اعلیٰ افسر باہر آئے۔ الطاف صاحب کا خیال تھا کہ وہ ان سے ملنے کے لیے آئے ہیں‘ لیکن انہوں نے مصافحے کے بجائے فرمایا،مسٹر الطاف قریشی ! ہم تم کو درست کردیں گے۔ الطاف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، تو آپ نے میرا مضمون پڑھ لیا ہے۔ جواب بہت مختصر اور معنی خیز تھا: پڑھ بھی لیا ہے اور سمجھ بھی لیا ہے۔
حیدر آباد والے ظہیر احمد کو بھٹو دور میں پیر صاحب پگاڑا(مرحوم )کے چھ حروںکے دوران ِحراست قتل کا واقعہ یاد ہے۔ انہی دنوں میں سانگھڑ کے سیشن جج کی (خود اس کی اپنی عدالت میں) گرفتاری کا واقعہ بھی ہوچکا تھا۔ ظہیر احمد ہر طرح کا خطرہ مول لیتے ہوئے جائے واردات پر پہنچے اور'' زندگی ‘‘کے لیے معرکہ آرا رپورٹ لکھی‘ جس پر پیر صاحب نے انہیں کراچی بلا کر شاباش دی ۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا، جس سے بچنے کیلئے وہ کچھ دن اردو ڈائجسٹ کے کراچی آفس جاکر چھپے رہے۔
اگرتلہ سازش کیس الطاف صاحب کی تحقیق کے مطابق ایک حقیقت تھی جس میں بعض سی ایس پی افسروں کے علاوہ نیوی، ایئر فورس اور آرمی کے نچلے رینک سے تعلق رکھنے والے اہل کار شامل تھے، جبکہ (ایوب خان کی) حکومت نے مجیب الرحمن کو سیاسی مقاصد کے لیے اس سازش میں شامل کرلیا تھا۔
اور آخر میں سید ضمیر جعفری کی ڈائری سے چند الفاظ: ''الطاف حسن قریشی میرے ہاں قیام پذیر ہیں، جنرل یحییٰ خان ان کے کسی مضمون پر برہم ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر عبدالرحمن صدیقی نے انہیں طلب کرکے کہا ہے کہ وہ اس پر معذرت کریں۔ الطاف صاحب وضاحت شائع کرنے پر تو آمادہ ہیں، معافی مانگنے سے انکار کرکے آگئے ہیں‘‘۔