مشکل کے بعد اچھا دور شروع ہوگا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مشکل کے بعد اچھا دور شروع ہوگا‘‘ تاہم یہ مشکل دور پر منحصر ہے کہ وہ کب ختم ہوتا ہے یا ختم ہوتا بھی ہے یا نہیں‘ کیونکہ جس کا نام ہی مشکل دور ہے‘ وہ آسانی سے کیسے ختم ہوسکتا ہے‘ اس لئے عوام سے درخواست ہے کہ وہ مشکل دور کے ہی عادی ہونے کی کوشش کریں‘ جس کے بعد انہیں اچھے دور کی ضرورت ہی نہیں رہے گی‘ جبکہ اچھا دور خود بھی بہت نخریلہ ہوتا ہے اور اپنی مرضی ہی سے آتا ہے اور جس طرح عوام ہمارے وفاقی اور صوبائی وزیروں کی خوش کلامی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ امید ہے کہ اسی طرح وہ اس مشکل دور کا بھی مزہ چکھ کر دلی مسرت سے ہمکنار ہوں گے‘ اول تو ہماری کارکردگی سے اچھے اور برے کی تمیز ہی ختم ہو جائے گی اور با تمیز عوام اور بدتمیز عوام ایک ہی رنگ میں رنگے جائیں گے‘ جیسے ہمارے وزراء ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتے اور جنہیں ایسا نظر نہیں آتا‘ وہ اپنی عینک کا نمبر تبدیل کرائیں اور اگر ایسا نہ کرسکیں تو ہماری لائی ہوئی تبدیلی پر گزارہ کرنے کی کوشش کریں‘ آپ اگلے روز انفارمیشن منسٹری کے ورکرز سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف آج بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں: رانا ثناء
ن لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف آج بھی ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم ہیں‘‘ حالانکہ گزشتہ انتخابات میں اس بیانیے کا جو حشر عوام نے کیا ہے‘ اس کے بعد انہیں اس کا نام بھی نہیں لینا چاہئے‘ لیکن وہ ایک مستقل مزاج آدمی ہیں اور ہر کام مستقل مزاجی ہی کے ساتھ کرتے ہیں؛ حتیٰ کہ عوام کی خدمت پر آئے تو یہ کام اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک عدالت سے نااہل نہیں ہوگئے اور اب بار بار جیل جانے میں بھی پوری مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ جبکہ احتساب والے اپنی روایتی سستی سے کام لے رہے ہیں؛ حالانکہ یہ کار چیز انہیں جلد از جلد انجام دینا چاہئے‘ کیونکہ ملک کو اس وقت تیز رفتاری کی ضرورت ہے‘ جس تیز رفتاری سے ہمارے دور میں ترقی ہوئی تھی‘ جسے لوگ آج ہی یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر شامل ِگفتگو تھے۔
ناکام ریاست کی طرف گئے تو کوئی دوسرا ملک نہیں بچا سکے گا: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''اگر ناکام ریاست کی طرف گئے تو کوئی دوسرا ملک نہیں بچا سکے گا‘‘کیونکہ دوسرے ممالک ہمارے معاملات سے آج کل ذرا کم ہی دلچسپی رکھتے ہیں ‘ورنہ کوشش کے باوجود کوئی دوست ملک بھی این آر او دلانے کے سلسلے میں تعاون پر تیار نہیں ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ دوست ملکوں کا خون ہی سفید ہوگیا ہے‘ جبکہ برادرم میاں نواز شریف کا بھی یہی خیال ہے کہ اتنی ٹکریں مارنے کے بعد بھی کسی نے کان نہیں دھرا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کانوں سے ایک ہی کام لیتے ہیں کہ ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی؛اگرچہ میں نے بہت سے مقدمے دیکھے ہوئے ہیں‘ لیکن یہ کمبخت ذرا مختلف قسم کا مقدمہ ہے ۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال اور میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
عمران پھر کنٹینر پر چڑھیں گے ‘قوم سے معافی مانگیں گے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے اہم رہنما حمزہ شہباز نے کہا کہ ''عمران پھر کنٹینر پر چڑھیں گے اور قوم سے معافی مانگیں گے‘‘ جبکہ ہم نے اتنا کچھ کرنے کے باوجود کسی سے معافی نہیں مانگی‘ کیونکہ ہم اپنی دھن کے پکے ہیں‘ بلکہ دُھن کے بھی پکے ہیں اور دَھن کے بھی پکے ہیں‘ وہ کالا ہو یا سفید‘ کیونکہ ہم رنگوں میں زیادہ امتیاز روا نہیں رکھتے کہ سارے رنگ اللہ میاں ہی کے بنائے ہوئے ہیں؛ البتہ رنگ بازیوں کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے ‘کیونکہ آدمی کو اپنی توفیق کے مطابق؛ اپنے فن کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہئے‘ تاہم اس میں بھی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس کے بارے ہماری ایک والدہ صاحبہ نے زور دے کر کہا تھا کہ دونوں بھائی احتیاط سے کام لیں‘ لیکن چونکہ تایا جان کافی بد احتیاط واقع ہوئے ہیں‘ اس لئے بڑا ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی ان کے طریق کار کا احترام کرنا پڑا کہ آخر بزرگوں کا احترام بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ضمیر طالب کے تازہ اشعار:
کیسی منزل کو جانا پڑا گیا ہے
خود کو رہ سے ہٹانا پڑ گیا ہے
جس طرف کوئی آتا جاتا نہیں
اس طرف آنا جانا پڑ گیا ہے
جانے کب اس پہ چلنا پڑ جائے
راستہ ساتھ اٹھانا پڑ گیا ہے
جسے دیکھا ہوا نہیں میں نے
اس کا حلیہ بتانا پڑ گیا ہے
اور جس پر سوار ہونا تھا
اس کو سر پر اٹھانا پڑ گیا ہے
وہ جو روٹھا ہوا نہیں ہے ضمیرؔ
مجھے اس کو منانا پڑ گیا ہے
خدا کرے کہ ہمیشہ میں تیرے کام آئوں
خدا کرے مجھے تجھ سے نہ کوئی کام پڑے
یہ ہوتا ہے ترے جانے کے بعد اکثر
مجھے اپنی کمی محسوس ہوتی ہے
پیار کرنے کی سزا ملتی ہے
اور نہ کرنے کی سوا ملتی ہے
جہاں طلب نہیں وہاں بھرے پڑے ہیں ہم ضمیرؔ
جہاں تلاش تھی وہاں ملے نہیں کسی کو بھی
عمر بھر رونا پڑا ہے مجھ کو
محض اک آنسو بہانے کے لئے
آج کا مطلع
یکطرفہ ہے محبت اور نرالی بھی ہے
ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی بھی ہے