تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     17-01-2019

بھارت کے پیچیدہ عام انتخابات

بھارتی پارلیمانی انتخابات میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔ بھارت کے پارلیمانی انتخابات مرحلہ وارہوتے ہیں۔ ساری اہم سیاسی پارٹیاں 2019ء کے لئے حکمت عملی بنانے میںمصروف ہیں۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مرکز اور اتر پردیش میں بر سر اقتدار بی جے پی کو جس طرح شرم ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے میزورم کو چھوڑ کر باقی چار ریاستوں راجستھان‘ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑ ھ اور تلنگانہ کی انتخابی ریلیوں میں جس انداز سے بلند بانگ دعوے کئے تھے‘ لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ بھارت کے موجودہ سیاسی حالات میں مودی کا جادو اب چلنے والا نہیں ہے۔ دوسری جانب بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی نے انتخابی مہم کے دوران‘ جس طرح کے لب و لہجہ اپنا کر ہوا کا رخ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب موڑنے کی کوشش کی‘ وہ نا صرف مکمل طور پر ناکام ہو گئی‘ بلکہ بھارت کی پانچ ریاستوں کے رائے دہندگان نے اس نظریہ کو مسترد کر دیا‘ جس کی نمائندگی مودی اور یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی جیسے لیڈر کرتے ہیں۔
مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ دو ایسی ریاستیں ہیں‘ جہاں گزشتہ پندرہ برسوں سے بی جے پی اقتدار میں تھی۔ رمن سنگھ کی قیادت میں چھتیس گڑھ نے ملک کے نقشے پر اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے‘ تو شیو راج سنگھ کی قیادت میں مدھیہ پردیش نے غیر معمولی ترقی کی ۔ اس کے برعکس راجستھان میں گزشتہ پانچ سال سے وسندھرا راجے کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں تھی‘ جبکہ راجستھان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہاں ہر پانچ سال میں حکومت تبدیل ہو جاتی ہے‘ اس لئے راجستھان میں بی جے پی کی شکست اور کانگرس کا اقتدار میںدوبارہ اقتدار میں آنا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی‘ مگر مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے نتائج یقینی طور پر حیران کن تھے۔اسی طرح تلنگانہ کے نتائج بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مودی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے بی جے پی کے دن‘ اب ماضی کا قصہ ہوگئے۔تلنگانہ میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی ‘لیکن انتخابی مہم کے دوران اس نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی‘اسی بنا پرنتائج کو عوام یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ وہاں ٹی آر ایس کی واپسی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تلنگانہ میں بھی بی جے پی کو شرم ناک شکست ہوئی اور2019ء میں تلنگانہ میں بی جے پی کے لئے کچھ باقی نہیں رہ گیا۔
پانچ ریاستوں کے مرحلہ واراسمبلی انتخابات کو عام انتخابات2019ء کا سیمی فائنل کہا جا رہا ہے؛ اگر دیکھا جائے ‘تو2019ء بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہو گا‘ جبکہ اپوزیشن کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر غیر بی جے پی ‘ غیر کانگرس کی آوازیں سیاسی حلقوں میں بلند ہونے لگی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اتر پردیش سے اس مہم کا آغاز ہو چکا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ یو پی میں کانگرس کی زمین تقریباً کھسک چکی ہے اور امیٹھی ورائے بریلی کے علاوہ ریاست میں کوئی بھی ایسی پارلیمنٹ کی سیٹ نہیں ہے ‘جہاں کانگرس کی فتح کے دعوے کئے جائیں۔ یو پی کی دو اہم ترین سیاسی جماعتیں سماج وادی اور بہو جن سماجی پارٹی کے گور کھپور‘ پھولپور اور کیرانہ کے ضمنی الیکشن میں قریب آنے اور تینوں جگہ بی جے پی کی شکست کے بعد ایس پی اور بی ایس پی میں اتحاد کے نظریے کو زبردست تقویت ملی تھی اور حالیہ دونوں پارٹیوں نے مل کر ریاست کی37,37سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے‘ بی جے پی کے لئے نا صرف خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ‘بلکہ اس کی آنکھوں کی نیند بھی بڑھا دی ہے‘ کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دلی کا راستہ لکھنوسے ہو کر ہی جاتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے2014ء کے عام انتخابات میں یو پی کی80سیٹوں میں سے 73پر کامیابی حاصل کر کے جو تاریخ رقم کی تھی‘ اسے بی جے پی نے ''مودی میجک‘‘ کانام دیاتھا اور عوام بھی اسے مودی کا جادو قرار دے رہے تھے۔خود وزیراعظم مودی بھی کئی موقعوں پر اس کا عندیہ دے چکے ہیں کہ2024ء تک وزارت عظمیٰ کی کرسی خالی نہیں‘ لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ 
طوائف اور کرسی کبھی ایک کی ہو کر نہیں رہتی۔یہ کب دھوکہ دے جائیں؟ کوئی نہیں جانتا؟ اب بی جے پی کو یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ 2019ء میں کیا ہو گا؟ یو پی کے دو سابق وزرائے اعلیٰ ‘ایس پی کے اکھلیش یادو اور بی ایس پی کی سربراہ مایا وتی نے اتحاد کا اعلان کر کے سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔2014ء کے عام انتخاب میں بی جے پی نے80 سیٹوں میں 73 پر فتح کا پرچم بلند کیا تھا‘ لیکن اگر2014ء میں اپوزیشن کو ملنے والے ووٹوں پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اگر ایس پی اور بی ایس نے 2014ء کا الیکشن مل کر لڑا ہوتا تو شاید اتر پردیش میں بی جے پی40 نشستوںتک محدود ہو کر رہ جاتی ‘کیونکہ ایس پی ‘ بی ایس پی اور کانگرس امیدواروں نے بیشتر سیٹوں پر بی جے پی امیدوار سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے ؛چونکہ وہ منتشر تھے‘ اس لئے فتح بی جے پی کوملی۔مثال کے طور پر چند پارلیمانی حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کا موازنہ‘ اپوزیشن امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں سے کر کے‘ اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے‘ جیسے سنبھل میں بی جے پی کے ستیہ پال سنگھ سینی کو تین لاکھ ساٹھ ہزار ووٹ ملے‘ جبکہ ایس پی کے شفیق الرحمن برق کو تین لاکھ پچپن ہزار اور بی ایس پی کے عتیق الرحمن کو دو لاکھ باون ہزار سے زائد ووٹ ملے‘ اسی طرح امروہہ میں بی جے پی کے کنور سنگھ تنور کو پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار ووٹ ملے‘ جبکہ ایس پی کی امیدوار حمیرہ اختر کو تین لاکھ ستر ہزار اور بی ایس پی کے فرحت حسن کو ایک لاکھ باسٹھ ہزار سے زائد ووٹ ملے‘ جبکہ ایس پی کے ڈاکٹر ایس ٹی حسن کو چالیس ہزار اور بی ایس پی کے امیدوار کو قریباً سترہ ہزار ووٹ ملے؛ اگر2014ء کا الیکشن ایس پی اور بی ایس پی اکٹھے لڑتے تو منظر نامہ کچھ مختلف ہوتا۔ اب 2019ء میں بی جے پی کے لئے اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو بچانا بڑا چیلنج ہو گا تو ایس پی اور بی ایس پی کو2014ء میں حاصل کئے گئے ووٹوں کو نا صرف برقرار رکھنا ہو گا‘ بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کرنا ہو گا۔2019ء کا الیکشن یقینی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ایک چیلنج ہو گا ۔ یاد رہے بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں عام انتخابات ایک ہی روز نہیں کرائے جا سکتے۔ ابھی تک جتنے نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان میں پانچ ریاستوں کے انتخابات منعقد ہوئے جبکہ باقی ریاستوں میں انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved