کیا عجب ماجرا ہے؟ یہاں قوموں اور ملکوں میں دشمنیاں پیدا کرنے والے حکمران طبقات اور ان کے ذرائع ابلاغ اس دشمنی کے حوالے سے معمولی سے معمولی گڑ بڑ اور ملک میں کسی سانحہ کو تو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں لیکن دشمن ممالک کے حکمران طبقات کے خلاف وہاں کے عام باسیوں اور خصوصاً مزدوروں‘ دہقانوں کی بغاوتوں کی خبریں دبا دی جاتی ہیں یا ان کو اخبار میں اندر کے صفحات پر ایک یا دو کالمی ''غیر اہم‘‘ خبر کے طور پر لگا دیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسی خبریں ابھاری جاتی ہیں‘ جن سے حکمرانوں کی جانب سے معاشرے کی مظلوم پرتوں اور عام انسانوں کی سماجی نفسیات پر مسلط کردہ دشمنی کی جعلی اور رجعتی بنیادوں کو ہوا دی جا سکے اور اس بیرونی دشمنی کے ذریعے داخلی طور پر منافرتیں پیدا کر کے ان کے اپنے ممالک میں جاری اس طرز کے جبر و استحصال کو تقویت دی جا سکے۔ برصغیر میں پاک بھارت دشمنی جہاں اس خطے میں ترقی سے زیادہ تباہی کے آلات پر عوام کی خون پسینے کی کمائی لوٹ رہی ہے وہاں ایک غیر محسوس طریقے سے طبقاتی بنیادوں پر دشمنوں کے خلاف ابھرنے والے چیلنجوں کو متحارب حاکمیتوں کے ذریعے دبانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 8 اور 9 جنوری کو بھارت میں (پرولتاریہ) مزدور طبقے کے وارد ہونے کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال ہوئی۔ مودی سرکار کے آنے کے بعد یہ تیسری بڑی ملک گیر عام ہڑتال ہے جس کو انٹرنیشنل اور پاکستانی میڈیا نے نظر انداز کر کے وسیع تر عوام کے شعور سے پوشیدہ رکھا۔ مودی سرکار نے بھارتی دھنوانوں سے اربوں ڈالر لے کر مالیاتی سرمائے کی محنت کشوں کے خلاف مکمل آمریت مسلط کرنے کے جو وعدے کئے تھے مزدوروں کی اس مزاحمت نے اس گھنائونے کھلواڑ کو ناکام و نامراد بنا دیا ہے۔ چند ماہ میں بھارت میں مودی سرکار کو قومی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے‘ لیکن تقریباً ساڑھے چار سال گزر جانے کے بعد بھی مودی سرکار کی نیم فسطائیت پر مبنی جمہوریت کے لبادے میں مذہبی جنون والی آمریت سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں سے کیے گئے وعدوں کے مطابق مزدوروں کے حقوق کچلنے میں ناکام رہی ہے۔
اب بھارت میں انگریز دور کے بنائے ہوئے 1926ء کے لیبر ایکٹ میں مزدور دشمن ترامیم کا بل 20/8 پیش کیا گیا ہے۔ 1926ء کا لیبر ایکٹ کوئی انگریزوں کا احسان نہیں تھا بلکہ 1917ء کے انقلاب روس سے تقویت اور جرأت حاصل کرنے والی متحدہ ہندوستان کی تحریک کی سرکشی کو جب سامراجی ریاستی دہشت گردی سے کچلنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مزدوروں کے ساتھ برطانوی سامراجی روایات کے تحت معاہدوں اور بارگینز کے ذریعے ایک ''صنعتی امن‘‘ استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1926ء کے اس لیبر حقوق ایکٹ میں محمد علی جناح کا کلیدی کردار تھا۔ اس وقت تک محمد علی جناح قائد اعظم نہیں بنے تھے۔ اس دور میں وہ ایک متحر ک ٹریڈ یونین راہنما اور آل انڈیا پوسٹل ورکرز یونین کے صدر تھے‘ لیکن ان کے پیچھے متحدہ ہندوستان کی رنگ‘ نسل‘ مذہب اور فرقہ وارایت سے پاک ایک یکجا مزدور تحریک تھی‘ جو برطانوی سامراجیوں کے انخلا کے ساتھ ساتھ ان کا رائج کردہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کرنے کی جستجو بھی رکھتی تھی۔ 1926ء کے اس لیبر ایکٹ میں فوج کے غیر وردی مزدوروں تک کو یونین سازی‘ منظم ہونے اور اجرتوں سے پنشنوں تک بہت سی رعایات حاصل ہوئی تھیں۔ یہ بھی ایک متضاد حقیقت ہے کہ 1947ء کے بعد ہندوستان میں کوئی بھی قومی حکومت اتنے حقوق نہیں دے سکی جتنے یہاں کے مزدوروں نے انگریز سامراج سے اپنی جدوجہد اور ہمت و جرات سے جیتے تھے۔ اب ''چمکتے ہندوستان‘‘ میں ملکی اور عالمی سرماداروں کی حمایت سے مودی سرکار مزدوروں کی حاصل کردہ رعایتوں کو ختم کرنے کے لیے حملے کر رہی ہے۔ اس نے وسیع پیمانے پر نجکاری کا آغاز کیا‘ جس میں کئی شعبوں کو مکمل طور پر بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) کے حوالے کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ مقصد محنت کش طبقات کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینا تھا۔ لیبر قوانین میں ٹھیکیداری نظام کا اجرائ‘ پنشنوں کا خاتمہ‘ تعلیم اور علاج کی سہولیات کا بند کیا جانا‘ اور یونین سازی پر مختلف قسم کی پابندیوں کے خلاف ہندوستان کے دیوہیکل مزدور کی ہڑتالیں پچھلے تین سال میں ایک بڑی مزاحمت بن کر ابھری ہیں۔ ستمبر 2015ء میں تقریباً 12کروڑ اور 2016ء میں 18 کروڑ مزدوروں نے اس عام ہڑتال میں حصہ لیا تھا۔ لیکن 8 اور 9 جنوری کی ہڑتال میں یہ تعداد 20 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس نیچے سے ابھرنے والے دبائو سے بھارت کی 10 سب سے بڑی ٹریڈ یونینوں کو تحریک میں داخل ہونا پڑا تھا‘ ورنہ یہ تحریک ان روایتی قیادتوں کو چیر کر آگے نکل جاتی۔ مودی سرکار کو 5 ریاستوں میں جو انتخابی شکست ہوئی ہے‘ یہ تحریک اس سے کہیں بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ میڈیا میں ہندو مسلم فسادات‘ ذات پات کے تصادم اور دوسرے منافرتوں والے ایشوز کا بہت چرچا ہے‘ لیکن جہاں تمام مذاہب‘ نسلوں اور قومیتوں کے مزدور یکجا ہو کر اس نظام زر کے لئے چیلنج بنے ہیں‘ وہاں بھارتی اور عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک سازشی خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
بھارت کے سیاسی افق پر کانگریس اور دوسری علاقائی ذات پات‘ اور مختلف قومیتوں کی پارٹیوں کی جو اپوزیشن کی جاتی ہے‘ وہ اس نظام سے قطعاً اختلاف نہیں کر سکتی۔ یہ پارٹیاں بھارت کی 85 فیصد غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوئی ہوتی خلق کے لئے کوئی امید کی کرن نہیں دے سکتیں۔ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹیاں موجود ہیں‘ لیکن ان پارٹیوں کی قیادت نے ''قومی جمہوری انقلاب‘‘ کے مرحلہ وار انقلاب کے نظریے میں سوشلسٹ انقلاب کو پچھلے 70 برسوں میں مستقبل بعید کا ایک خواب ہی بنائے رکھا ہے‘ جبکہ سرمایہ دارانہ قومی جمہوریت بھارت کے عوام کو سوائے غربت اور ذلت کے کچھ نہیں دے سکتی۔ بھارت میں اگر چین کے بعد سب سے زیادہ ایشیائی ارب پتی پیدا ہوئے ہیں‘ تو یہ ایک ارب عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر ہی امیر زادے بنے ہیں۔ لیکن جہاں اس تحریک کو میڈیا اور حاوی سیاست نے دبانے کی کوشش کی ہے وہاں معاشرے کی کوکھ اور مزدوروں میں اس کٹھن عہد میں بغاوت کے اس عزم اور حوصلے میں سے ایک نئی شورش پیدا ہوئی ہے۔ اس کے بھی کمیونسٹ پارٹیوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بہت سے نوجوانوں اور حقیقی کمیونسٹ و ٹریڈ یونین راہنمائوں کو حوصلہ ملا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہ صنعتی شعبے میں پھیلنے والا بغاوت کا طوفان سیاسی و سماجی میدان میں ناگزیر طور پر ایک دھماکہ خیز انداز میں داخل ہو گا۔ اس سے بھارت کی سیاست‘ ثقافت اور سماجی اقدار میں ریڈیکل اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ کشمیر سے لے کر میزورام تک مظلوم قومیتوں کے ساتھ ساتھ طلبہ اور نوجوانوں میں بھی ایک نیا تحرک پیدا ہو رہا ہے۔ بھارت میں جو ایک وسیع تر درمیانہ طبقہ استوار کیا گیا تھا وہاں رجعتیت اور سرمایہ دارانہ وچاروں کی سب سے بڑی سماجی بنیاد تھی‘ لیکن سرمایہ داری کے بحران کی اذیت میں اس کے پاس بھی اب محنت کشوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ ایسے میں اگر مودی اور بی جے پی کو آنے والے انتخابات میں شکست ہوتی ہے تو دوسری بورژوا پارٹیوں سے بھی یہ اقتدار اور نظام اب سنبھالا نہیں جائے گا اور تحریک آگے بڑھے گی لیکن اگر مختلف ہتھکنڈوں اور دہشت سے مودی سرکار دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو پھر یہ مارکس کے الفاظ میں ''تحریک کے لئے رد انقلابی چابک ثابت ہو گی اور اس کو تیزی سے آگے بڑھنے پر مجبور کرے گی‘‘۔ ہندوستان کے مزدور نے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا ہے۔ مزدور تیار ہے۔ ہندوستان میں ایک بالشویک پارٹی اور قیادت درکار ہے جو پورے برصغیر کے محنت کشوں کی تقدیر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدل سکتی ہے۔