تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-01-2019

سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

وزیراعظم عمران خان کو این آر او کی تعریف ہی نہیں آتی: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان کو این آر او کی تعریف ہی نہیں آتی‘‘ اور اگر انہیں پتا ہوتا کہ کس قدر مفید چیز ہے تو ضرور دے دیتے‘ کیونکہ کل کو انہیں بھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے؛ اگرچہ انہیں ایسے کام آتے بھی نہیں‘ جن کے بعد این آر او حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے‘ تاہم احتیاطی تدبیر کے طور پر تو ایسا کیا ہی جا سکتا ہے؛ اگرچہ منی لانڈرنگ والے کیس میں ‘مَیں نے بھی احتیاط روا رکھی تھی‘ لیکن یہ کچھ زیادہ ہی ہو گئی‘ یعنی بقول شاعر 
کثرتِ احتیاط سے کام خراب ہو گیا
اور اگر کام خراب ہو جائے‘ تو اس کا واحد علاج این آر او ہے‘ اور جہاں تک علاج کا تعلق ہے‘ تو ہمارے ایم بی بی ایس وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وزارت چلانے کے ساتھ ساتھ عوام کا علاج بھی کیا کرتے تھے ‘جس سے قوم نے ایسی شفاء پائی کہ اب تک کانوں کو انگلیاں لگاتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ملک حکومت کے ہاتھوں میں لرز رہا ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ملک حکومت کے ہاتھوں میں لرز رہا ہے‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو حکومت کے ہاتھ کانپ رہے ہیں یا ملک رعشے میں مبتلا ہے‘ جو کہ دوسری صورت میں زیادہ قرینِ قیاس ہے‘ کیونکہ یہ کمزوری اسے ہمارے دور ہی میں لاحق ہوئی تھی‘ جس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسے اُلٹا پڑ گیا ؛حالانکہ ہمارے سارے کام کافی سیدھے تھے اور اُن میں ہم نے کبھی کوئی ٹیڑھا پن نہیں آنے دیا‘ جبکہ میرا کام تو ریل کی پٹڑی کی طرح سیدھا تھا ؛البتہ خراب چینی انجنوں کی طرح زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا اور آئے دن کسی وعدہ معاف گواہ کا اضافہ ہوتا رہتا ہے‘ جس طرح روز بروز ہماری خدمت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا کہ اضافے میں ہی برکت ہے‘ تاہم اضافہ بھی نارمل ہونا چاہئے ‘کیونکہ اندھا دُھند اضافے کے نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں نکلتے اور مہنگے خریدے گئے چینی انجنوں کی طرح کوئی نہ کوئی مصیبت بھی گلے پڑ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں‘ ای سی ایل سے نام نکالا جائے: حمزہ 
پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں‘ ای سی ایل سے نام نکالا جائے‘‘ وہاں جا کر میں انکل اسحق ڈار کی عیادت کرنا چاہتا ہوں‘ جو وہاں زکام میں مبتلا ہیں‘ اور میں انہیں ساتھ لے کر ہی واپس آ جاؤں گا‘ جو خود وطن واپسی کے لیے بہت بے چین ہیں اور اگر اُن کی یہ بیماری زیادہ طول کھینچ گئی تو جب تک وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتے‘ مجھے طوعاً و کرہاً وہیں رہنا پڑے گا ‘جبکہ کم از کم تو خدا نخواستہ دائمی ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں نیب میری غیر حاضری میں جتنی انکوائریاں کرنا چاہتی یا جتنے ریفرنس داری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ پوری تسلی سے اپنے ان نیک کاموں سے فارغ ہوئے ‘تاکہ انہیں یہ شکایت پیدا نہ ہو کہ میں ان پر کوئی دباؤ ڈالوں گا؛ حالانکہ ہر طرح کے دباؤ تو خواب و خیال ہو کر ہی رہ گئے ہیں‘ بلکہ حکومت کے ہم پر انتقامی دباؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
انگلش پسندیدہ مضمون‘ استاد ہوتی تو 
بچوں کو انگریزی پڑھاتی: فلم سٹار میرا
اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ''انگلش میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ اُستاد ہوتی تو بچوں کو انگریزی پڑھاتی‘‘ اور انگلش میرا پسندیدہ مضمون اس لیے بھی ہے کہ یہ کم بخت مجھے آتی ہی نہیں۔ اور جو چیز آپ کی پہنچ اور رسائی سے باہر ہو‘ اس کی دلکشی بڑھ جاتی ہے‘ جبکہ میں فر فر انگلش بول تو لیتی ہوں‘ لیکن اس میں فرفر زیادہ ہوتی ہے اور انگلش کم‘ اور جونہی میں نے اس کم بخت فرفر سے نجات حاصل کرلی تو اس کے نتیجے میں باقی صرف انگلش رہ جائے گی‘ کیونکہ میں بچوں کو فی الحال صرف فرفر ہی پڑھا سکتی ہوں‘ جبکہ ابتدائی طور پر فرفر میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے؛چنانچہ انگلش میں اگر کوئی کمی رہ گئی تو اسے میں بھارت جا کر کنگ خان سے پوری کر لوں گی‘ جو پچھلے سال وہاں میری آمد کی خبر سن کر امریکہ چلے گئے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ مجھے انگلش کا امریکی لہجہ سکھا سکیں؛ اگرچہ بعض شرپسندوں کے مطابق وہ میری آمد کی خبر سن کر وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔ آپ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اس وقت حکومت کا کشمیر کا کوئی مؤقف نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور فارغ سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اس وقت حکومت کا کشمیر پر کوئی موقف نہیں‘‘ حتیٰ کہ اس کامجھ پر بھی کوئی موقف نہیں ‘حالانکہ میں بھی ایک اچھا خاصا مسئلہ ہوں ‘جسے حل کرنا بے حد ضروری ہے‘ ورنہ امن و امان کی صورت حال خطرے میں پڑ سکتی ہے‘ جبکہ فارغ ہونے کے بعد میں نے جو دھمال سیکھی ہے‘ اگر تنگ آ کر میں نے کسی وقت دھمال ڈالنی شروع کر دی تو انشاء اللہ ایک زلزلے کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور یہ زلزلہ ایسا ہوگا کہ اس کی پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکے گی‘ تاکہ لوگ احتیاطی تدابیر ہی اختیار کر سکیں ‘کیونکہ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ کوئی نقصان وغیرہ بھی ہو گیا ‘تو میں کسی طرح سے بھی ذمہ دار نہ ہوں گا‘ کیونکہ دھمال ڈالنا میرا جمہوری حق ہے ‘جبکہ احتساب کے ہاتھوں پہلے ہی جمہوریت کو کافی خطرات لاحق ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ میرے خلاف بھی انکوائری شروع کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں آل پارٹیز حریت کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
نہیں ہے یہ بھی ضروری کہ مر ہی جائیں گے
دنوں کا کیا ہے‘ یہ دن تو گزر ہی جائیں گے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved