تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     17-01-2019

لکھنے والے اپنے اند رنرمی پیدا کریں!

آج کل میں ''ماجرا ‘‘ اور ''ناتمام ‘‘ کے گزشتہ مضامین اکٹھے کررہا ہوں ۔ 2015ء سے اب تک کے پانچ پانچ سو کالم میرے پاس کمپوزڈ حالت میں محفوظ ہیں ۔ ان میں سے 100کا انتخاب کرکے انہیں کتاب کی صورت میں شائع کرانا ہے ۔ناصر افتخار صاحب کی رہنمائی میں جلد ہی اپنا یو ٹیوب چینل بھی بنانا ہے ۔زمانہ بہت تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے ۔ 
کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ہم لکھنے والو ں کو اپنے اند رکچھ نرمی پیدا کرنی چاہیے۔کچھ پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں ‘جنہیں ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے ‘ ایک صاحب ہوا کرتے تھے ‘ جو روزانہ ہر کالم نگا رکی تحریر خوردبین کے نیچے رکھ کر پڑھتے ۔ اگر کوئی تاریخ غلط ہو جاتی ‘ شعر کا کوئی لفظ آگے پیچھے ہو جاتا ‘ گرائمر کی غلطی یا کوئی نام غلط لکھا جاتا تو ان کی عید ہو جاتی۔ اب وہ ایک لمبی چوڑی ای میل نا صرف کالم نگار کو بھیجتے‘ بلکہ اسے شرمندہ کرنے کے لیے تمام دوسرے لکھنے والوں کو بھی اس کی ایک کاپی ارسال کر دی جاتی۔ اس ای میل کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہوتے : آپ نے مجرمانہ غلط بیانی کی ہے ؛چنانچہ قوم سے معافی مانگیں ۔خوب جھگڑے ہوئے ۔کچھ عرصہ تو انہوں نے خوب مزے لیے ۔وہ مشہور ہو گئے؛حتیٰ کہ ایک دن شاہین صہبائی صاحب نے جواب لکھا۔انتہائی نرم الفاظ‘ لیکن حقائق پہ مبنی یہ ایک ایسا جواب تھا ‘ جس کے بعد وہ شخص دم غائب ہوگیا اور کچھ عرصہ بعد انتقال کر گیا ۔ اس جواب کا لب لباب یہ تھا کہ اگر بندہ اس بات پہ تلا ہو کہ وہ غلطی نکال کر رہے گا تو وہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈ ہی لے گا‘ لیکن یہ وقت اور توانائی کا مکمل زیاں ہے ۔ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی ۔ بہرحال آپ کی زندگی ہے ۔آپ کومبارک ہو کہ آپ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔
اب ایک تازہ واقعہ سن لیجیے ‘جو چند ماہ پہلے سوشل میڈیا میں وقوع پذیر ہوا۔ ہر طرف امن اور سکون تھا کہ ایک شخص نے پوسٹ کیا:کیا آپ جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے پاس وکالت کی ڈگری تھی ہی نہیں ۔ بس پھر کیا تھا۔ ایک ہنگا مہ برپا ہو گیا۔ جو لوگ وکالت کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے‘ انہوں نے وضاحت کی کہ اس زمانے میں چونکہ متعلقہ ادارے سے فلاں ڈگری یا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی ‘اس لیے ظاہر ہے کہ قائد اعظم نے بھی نہیں لی ۔
جو بات غیر متنازع ہے اور سب کو معلوم ہے ‘ وہ یہ ہے کہ قائد اعظم اپنے زمانے کے چوٹی کے وکیل تھے ۔ وکالت سے انہیں اتنی آمدن حاصل ہوئی کہ انہوں نے جائیداد بنائی اور باقی زندگی بھی انہیں معاشی تنگی نہیں ہوئی ۔ظاہر ہے ‘ایسی بات پہ ری ایکشن تو آنا تھا۔ ہر طرف سے لمبی لمبی پوسٹس کا ایک طوفان برپا ہو گیا ۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ جو شخص یہ پھلجھڑی چھوڑ رہا تھا‘ اسے ان باتوں کا علم نہیں تھا ؟ بالکل تھا۔ وہ قائد اعظم کی وفات کے 70سال بعد ان کی ڈگری صرف اس لیے چیک کر رہا تھا کہ اسے لوگوں کی توجہ مل سکے ۔ وہ attention seekerتھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ ایک دم چونک کر متوجہ ہوں کہ کیا قائد اعظم نے کوئی بے ایمانی کی تھی ؟ Attention Seekersایک خاص قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ جو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں ۔ وہ ہنگامہ چاہتا تھا اور ظاہر ہے کہ ہنگامہ تو ہونا ہی تھا۔ دراصل وہ یہ کہہ رہا تھا کہ دنیا والو!مجھے بھی توکچھ توجہ دو۔ایک سمجھدار خاتون نے اس پر یہ کہا کہ یہ ایسی ہی بات ہے ‘ جیسے بندہ کہے کہ ظہیر الدین بابر اتنا بڑا بادشاہ تھا‘ لیکن بیچارے کے پاس فریج بھی نہیں تھا ۔
یہ ایک واقعہ ہے ۔ اس طرح کے شگوفوں سے ان کی وال بھری ہوئی ہے ۔ کبھی بندہ تین چار گھنٹے نکال کر اس کا جائزہ لے تو ٹھیک ٹھاک مزاح تخلیق کیا جا سکتاہے ۔ یہ وال ایک جائے عبرت ہے کہ جب آدمی کو اپنے وطن‘ مذہب اور رنگ سے نفرت ہو جائے تو پھر کیسے دنیا بھر کے عیوب اسے اپنی قوم میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔آج کل یہ ایک فیشن ہے کہ آپ اپنے مذہب اور قومیت کے مروجہ نظریات کے خلاف بولیں ‘ ہنگامہ برپا کریںاور ''حریت پسند‘‘کا ٹائٹل پائیں ۔
میرا ایک دوست میراہر کالم خوردبین کے نیچے رکھ کے پڑھتا ہے ۔چھ مہینے میں ایک بار کوئی نہ کوئی قابلِ اعتراض چیز ڈھونڈنکالتا ہے ۔وہ اخبار میں ان سطور کے نیچے نشان لگاتا ہے ‘ پھر کیمرے سے اس کی تصویر لے کر انٹرنیٹ پر لگاتاہے اور سب لوگوں کو tagکر دیتاہے ۔ ایک سال کی بھرپور محنت کے نتیجے میں صرف دو دفعہ وہ یہ کامیابی حاصل کر پایا ہے ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ سست دماغ ہے ۔جب کہ ایک اوسط ذہانت کا شخص؛ اگر اس بات پہ تلا ہو کہ کچھ نہ کچھ نکال کے رہنا ہے تو ہر کالم میں سے کچھ نہ کچھ ڈھونڈا جا سکتاہے ۔ بے شک لکھنے والا کتنا بڑا ادرسطو ہی کیوں نہ ہو ۔ 
قرائن یہ ہیں کہ جناح کے بعد اقبالؔ کی پی ایچ ڈی بھی خطرے میں ہے ۔ سر سید احمد ویسے ہی ایک آسان ہدف ہیں ۔ 
میں نے یہ لکھا تھا کہ انسان کے کلام اور خدا کے کلام میں بہت فرق ہے ۔ انسانی فصاحت کی انتہا شعر میں ہوتی ہے ۔ شاعر ذہین ترین لوگ ہوتے ہیں۔ایک فقرے میں وہ ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ جو ایک پوری کتاب میں بھی سمیٹی نہیں جا سکتی‘ لیکن شاعر کو یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ زورِ بیان پیدا کرنے کے لیے حقائق کے برعکس موقف بھی اپنا سکتاہے۔مرزا اسد اللہ غالبؔ کا ایک شعر شامل کرنے پراس کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔دوسری مثال لیجیے ۔ ظہیر الدین بابر اپنی خودنوشت میں ایک شاعر کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کے اشعار دل پہ ہیبت طاری کر دیتے‘ وہ کہتاہے : 
میری آہوں کے اژدھے نے 
ایک تہائی آباد دنیا کو نگل لیا 
ایک لمحے کے لیے دل لرز کے رہ جاتاہے‘ لیکن پھر یاد آتا ہے کہ کون سا اژدھا اور کون سی ایک تہائی آباد دنیا ؟ پھر یہ کہ بڑا شاعر اپنا کلام صرف انتہائی باذوق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے کہتاہے ۔ خدا نے اپنے پیغمبرؐ پہ جو کلام نازل کیا ‘ وہ صرف پیغمبرؐ کے لیے نہیں تھا‘بلکہ ایک عام امّتی کے لیے بھی تھا۔ ہمارے جیسے امتی ملحوظ نہ رکھے جاتے تو پھر کس لیول کی گفتگو ہوتی ؟ 
کچھ دن پہلے ایک ایسے نوجوان سے طویل گفتگو ہوئی ‘جو انتہائی ڈپریسڈ تھا ۔ اسے motivateکرنے کے لیے میں اسے اپنی رام کہانی سناتا رہا ۔ بعد میں سوچا کہ کالم میں بھی لکھ دوں ۔ ہو سکتاہے کہ کسی مایوس شخص کو امید کی ایک کرن نظر آئے۔ زندگی میں بہت سی ناکامیاں ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہیں‘ لیکن سب نہیں ۔ کبھی کبھار ایک چھوٹی اور وقتی ناکامی بالاخر ایک بڑی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے ۔میرے کالمز کی آرکائیو میں جا کر دیکھیے ۔ میں نے تو ہمیشہ اپنی نفی کی؛حتیٰ کہ چاند کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک دفعہ خود کو اجڈ گنوار بھی کہہ دیا‘ لیکن آپ کس کس بات کی کتنی وضاحت کریں گے۔
بہرحال ہم لکھنے والوںکا فرض ہے کہ ایسے لوگوں سے نرمی سے پیش آئیں ۔ ہماری تھوڑی سی توجہ سے یہ ٹھیک ہو سکتے ہیں اور معاشرے میں productively کام کر سکتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved