نئے سال کے آغاز پر روسی صدر ''ولادی میرپیوٹن‘‘ نے امریکی صدر کو پیغام دیتے ہوئے کہاکہ ''ہم امریکہ کے ساتھ اہم ایجنڈے پربات کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔یہ پیغام 2019 ء میں نئی امیدکے طور پر دیکھا جارہا ہے‘روس اور مغرب کے درمیان تعلقات متعدد محاذوں پراچھے نہیں ‘ اسے روسی حکمت ِعملی بھی سمجھاجا رہا ہے۔اس ارتقاء کو سمجھنے کے لئے سیاق سباق کوسمجھنے کی ضرورت ہے‘ جس میں تقریباً 20 سال پہلے پیوٹن اقتدار میں آئے ‘جب وہ 31 دسمبر1999ء کوروسی صدر مقرر ہوئے‘ تو ان کا ملک سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ‘افراتفری اور عدم استحکام کا شکار تھا۔ معیشت ڈوبی ہوئی تھی۔ سیاسی نظام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ چیچنیا میں علیحدگی پسند تنازعات کا سامنا تھااور کئی طریقوں سے علیحدہ ہونے والی ریاستیں کہیں زیادہ طاقتور بن گئی تھیں‘یہاں تک کہ ملک کی علاقائی سالمیت ان سے ڈیل کی مرہون ِمنت تھی۔
پیوٹن نے ایک مضبوط مرکزی ریاست کو دوبارہ قائم کیا۔انہوں نے فوجی طاقت اور سیاسی مداخلت کے ایک مجموعہ کے ساتھ چیچن تنازعے کو کچل دیا‘گویا زخمی ملک کی نئے سرے سے سرجری کر کے معیشت کو مستحکم کیا گیا اور دیگر شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں ہموار کی گئیں ‘ایک علاقائی طاقت کے طور پر رو س کو مغرب کے ساتھ زیادہ سامنا کرنا پڑا‘دو دہائیوں کے بعد پیوٹن نئے صدر کے طورپرسامنے آئے ۔ ان کی شکل میں مخصوص روسی شناخت سامنے آئی‘ جس کو 'یوروشینزم ‘کہا جا سکتا ہے۔اس شناخت میں سیاسی نظریات اور غیر ملکی پالیسی کی حکمت عملی کے اجزاء شامل ہیں ‘جو یورپ اور ایشیا ء ‘دونوں میں روس کی حیثیت اور پیوٹن کی طویل عرصے سے جغرافیائی امتیاز کونکھارتے ہوئے دکھائی دی‘اب روس کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لئے یہ دونوں کی شناخت کی کلید ہے‘ آنے والے سالوں میں کیا امید کی جا سکتی ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔1990 ء کے دہائیوں میںجمہوریت کے ساتھ روس میں غیر معمولی تجربے ہوئے‘ ملک کے اندر مغربی طرز عمل کی ساخت مناسب نہیں تھی۔پیوٹن کے زیر انصرام پیدا ہونے والی سیاسی ثقافت‘ مغرب کے لبرل‘ جمہوری اقدار کے ساتھ بہت سے طریقوں سے عوام مطمئن نہیںتھے۔
پیوٹن کے زیر نگرانی‘ روسی قوم پرستی نے سوویت یونین کے عالمی ماہر کمیونسٹ نظریے کو تبدیل کر دیا ‘ کیونکہ اس ملک کی 150 نسلی اقلیتوں ‘تاتاری‘ چیچنز‘ یوکرینیائی‘ آرمینیوںدیگر قوم پرست اور اس کا نسلی روسیوں میں بھی شامل ہونا لازمی ہے۔پیوٹن‘ روس کے قوم پرست رجحانات کو احتیاط سے منظم کرتا ہے ۔ آرتھوڈوکس غلاموں کا روس واحد چہرہ نہیں ۔ پیوٹن ملک کے اقلیتی گروہوں کو الگ الگ کرنے اور استحکام کو کم کرنے جیسے خطرے سے آگاہ رہتا ہے‘ اس نے دوبارہ قوم پرستی کوبحال کرنے کا کام کیا ‘یہ ان کے مذہب کے لئے بھی موزوں ہے۔روس میں مسلمان لاکھوں میں ہیں‘ بہت سے شمالی قفقاز کے علاقے میں بے گھر ہیں۔ روس کی اقلیت آبادی بھی بڑھ رہی ہے‘ جبکہ نسلی روسی آبادی کم ہو رہی ہے۔ 2010ء میں کی جانے والی آخری سرکاری مردم شماری کے مطابق ‘نسلی روسیوں نے 77 فیصد روس کی آبادی کا اندازہ لگایا‘ لیکن ان کی مقامی باشندوں کی اوسط پیدائش کم (اوسط1.3 فی صد بچے فی عورت ) رہی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی باشندوںکی آبادی‘ مسلم آبادی کے مقابلے میں شرح کم ہے‘ جس میںاوسط ہر عورت 2.3 بچے کی پیدائش ہے۔قفقاز اور وسطی ایشیا کے ممالک سے منتقلی بڑھ رہی ہے۔ روس آنے والے سالوں میں زیادہ ایشیائی اور مسلم ہو جائے گا۔اس کے علاوہ یورپ اور مغرب سے ثقافتی اور سیاسی طور پر اس کا فرق نکھر کر سامنے آئے گا۔ روسی زبانیں پھیل جائیں گی ۔
روس کے لئے سابق سوویت یونین کی ہر ریاست روسی یونین کا حصہ ہوگی‘لیکن آذربائیجان‘ ازبکستان اور ترکمانستان جیسے ممالک نے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا ہے‘ جبکہ بالٹک ممالک سمیت یوکرائن ودیگر ریاستوں نے مغربی راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ روس کا مقصد ماسکو کے سابق سوویت ملک کی طرز پر ہر ایک کو سیدھا کرنا یا کم از کم انہیں غیر جانبدار رکھناہے۔ روس کا مغربی حکومتوں اور ان کی مغربی انضمام کو کمزور کرناہی اصل مقصد ہے ۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں اور نیٹو اتحادیوں کا مقصد روس کو اس خطے سے محروم رکھنا ہے۔
ایک غیر ملکی پالیسی کے طور پردیکھیں تو یوروشینزم ‘ روس ایک علاقے کو محیط نہیں ہے ‘یہ ان ممالک کو توسیع دیتا ہے‘ جو مغربی لبرل اقدار یا مغربی مداخلت کے متضاد برتاؤ کرتی ہیں اور اس میں یورپی ممالک بھی شامل ہیں ‘جن میں جسمانی رجحانات موجود ہیں۔ ایک مثال ہنگری جیسا ملک ہے‘ جن کی حکومت روس کے خلاف پابندیوں کے معاملات پر‘ یورپی یونین کے اتحاد کو کمزور بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔عام موضوع یہ ہے کہ روس‘ امریکہ کی قیادت اورعالمی آرڈر کو چیلنج کرنے والے ملکوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین جیسے امریکی اتحادیوں کے اثر ورسوخ کوزائل کرنا چاہتاہے۔
پیوٹن کے ہوتے ہوئے‘ ماسکو نے دیگر اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات بنانے کے لئے کام کیا ہے‘ نا صرف مغرب کے ساتھ اس کے کمزور تعلقات کو تبدیل کرنے‘ بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ روابط بھی بڑھائے ہیں۔ایک ایسی جگہ شام ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت اور مداخلت سے اسے تاریخی کامیابی ہوئی‘ اس کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ دیگرمفادات حاصل ہوئے ‘جیسے ترتس میں بحریہ بیس کو برقرار رکھنے اور اسلامی ریاست کے پھیلاؤ سے لڑنے کے لئے سٹرٹیجک پلان شامل ہیں۔
مغرب کے ساتھ روس کے نا خوشگوار واقعات اور تعلقات اس کی اقتصادی ترقی میں کئی رکاوٹیں پیدا کیے ہوئے ہیں‘تاہم اب مغرب کے ساتھ مکمل بغاوت کرتے ہوئے روس اور چین قریب آئے ‘ دونوں مشترکہ لائحہ عمل بنانے میں سرگرم ہیں۔ بالآخر‘ مغرب اور مشرق وسطی کے درمیان روسی مداخلت اس کی شناخت کے یوروشینزم پہلو کو مزید مضبوط کرے گا۔روسی ریاست کے پاس مغرب یا چین سے بیرونی چیلنجوں اور دباؤ پر قابو پانے کی صلاحیت ہے۔اس شناخت کے ارتقاء کی تشکیل اہم عوامل کے طور پر کام کرے گی‘تاہم وقت وقت ہی ثابت کرے گاکہ روس اپنی پالیسیوں میں کس قدر کامیاب ہو پاتا ہے۔