امریکہ میں آخری روز تھا۔وہاں کی پرانی کتابوں کی دکانوں سے درجنوں پرانی کتابیں خرید لی تھیں‘ جن کا بل بلاشبہ میرے بھائی ڈاکٹر احتشام قریشی نے اپنی جیب سے دیا‘ جبکہ البامہ میں ڈاکٹر عاصم صہبائی نے بل ادا کیا۔
ورجینیا میں اپنے دوست اکبر چوہدری سے کہا کہ کہیں لے چلیں۔ عموماً نئی کتابیں 'بارنز اور نوبل‘ سے خریدتا ہوں۔ اس روز چوہدری صاحب نے کہا: لانگ ڈرائیور کرتے ہیں۔ شہر سے تیس میل دور قصبے میں پہنچے تو ایک بک سٹور کے نام نے اپنی طرف کھینچا‘ Books-A-Million‘ جہاں سے چار کتابیں خریدیں۔ ایک کتابFive Families امریکی مافیاز پر بہترین ریسرچ کرکے لکھی گئی ہے۔ ڈارک منی کے نام سے بھی ایک شاندار کتاب نظر آئی‘ لیکن جس کتاب نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا وہ تھی: Leaders: Myth and Reality‘ جو امریکن آرمی کے ریٹائرڈ جنرل Stanley McChrystal نے دو اور لوگوں کے ساتھ مل کر لکھی ۔ جنرل افغانستان میں امریکن فوجوں کو کمانڈ کر چکا ہے۔
لیڈرشپ پر لکھنا پرانا موضوع ہے۔ لوگ یونانی مورخ پلوٹارک سے جان ایف کینیڈی اورنکسن تک اپنے پسندیدہ ہیروز اور لیڈرز پر لکھتے رہے ہیں۔ جان ایف کینیڈی نے ایک خوبصورت کتاب لکھی تھی: Profiles in courage‘ جس میں انہوں نے اپنے تئیں بہادر لوگوں کی کہانیاں لکھی تھیں۔ نکسن نے بھی دنیا کے ان لیڈروں پر لکھا تھا جو انہیں اچھے لگے تھے۔ اب جنرل میکرسٹل نے اپنے انداز میں لیڈرشپ کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
میرے لیے کچھ حیران کن تھاکہ جنرل نے پہلی متھ امریکہ کے بانی صدر جارج واشنگٹن کی توڑی‘ اور ان کے گرد پھیلی طلسماتی کہانیوں کو اپنے طریقے سے بیان کیا کہ واشنگٹن بھی انسان تھا‘ دیوتا نہیں اور جو کہانیاں ان سے منسوب کی جاتی ہیں تاکہ اس کا قد بڑا کیا جا سکے‘ ان میں اتنی جان نہیں۔ رومن جنرل سیزر کے حوالے سے جو رومانوی داستانیں اب تک ہمیں سنائی جاتی رہی ہیں‘ جنرل نے ان کا بھی پول کھولا ہے۔ جنرل میکرسٹل نے جارج واشنگٹن کے اس قول پر تفصیل سے بات کی ہے‘ جب انہوں نے تیسری دفعہ صدر بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا: میں چاہتا ہوں‘ امریکی قوم میرے بغیر آگے بڑھے۔ اس پر میکرسٹل لکھتا ہے: ہمیں اس وقت جارج واشنگٹن کی ذہنی اور جسمانی حالت کو سامنے رکھنا ہو گا جب اس نے تیسری دفعہ صدر بننے سے انکار کیا تھا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے میکرسٹل نے جو وضاحت دی‘ وہ اگر پاکستان میں ہوتا تو یقینا اس پر مقدمہ قائم ہوتا۔ اسی طرح سیزر کے بروٹس کے ہاتھوں قتل ہوتے وقت کی جو متھ بنائی گئی‘ اس کو بھی میکرسٹل نے خوب لتاڑا ہے۔ کتنے لوگ ہوں گے جو صدیوں سے بنی متھ کو دلائل سے توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ انسان کو صدیوں سے ہر دور میں ہیروز کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے‘ جو اسے مصیبتوں اور جنگوں سے بچائیں۔ یوں ہر دور میں ہیروز پیدا ہوئے جو دوسرے انسانوں سے بہتر عقل یا صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ آج کی دنیا میں انہیں لیڈرز کہا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ مجھے حسن نثار کے انٹرویو کے بعد ہونے والی ان پر سخت تنقید کے بعد یاد آ رہا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی عمران خان اور ان کی ٹیم بارے رائے درست نہیں تھی اور وہ اس پر شرمندہ ہیں۔ اس پر حسن نثار کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ جگتیں ہو رہی ہیں، مذاق اڑائے جا رہے ہیں۔
یہ سب اس معاشرے میں ہوتا ہے جہاں کتاب کا راج نہیں ہوتا یا جہاں انسانوں کو پوجا جاتا ہے۔ جہاں وہ بندہ ہیرو ہے جو کہے: ایک دفعہ جو کہہ دیا اب مرتے دم تک اس پر قائم رہنا ہے‘ یا جہاں آپ کا ہیرو غلط نہیں ہو سکتا۔ تیس برس بعد بھی لوگ آپ کو یہی کہتے سنیں گے کہ جو بات آج سے تیس سال قبل کی تھی آج بھی قائم ہوں۔ اسے داد ملتی ہے کہ دیکھو مرد کا بچہ ہے۔
ہمارے ہاں آج تک کسی کو یہ پتہ نہیں کہ ایک رائے رکھنے اور زندگی میں بنیادی آدرش رکھنے میں کیا فرق ہے؟ جو آپ کے زندگی میں بنیادی beliefs ہوتے ہیں‘ ان پر آپ کو ساری عمر قائم رہنا چاہیے جیسے کسی کا حق نہیں مارنا، انصاف کے لیے ساری عمر جدوجہد کرنی ہے، مظلوم کا ساتھ دینا ہے، ظالم کے خلاف جدوجہد کرنی ہے، کمزور پر ظلم نہیں کرنا، انسانیت کو اہمیت دینی ہے، لالچ، خودغرضی نہیں کرنی، اچھا انسان بننا ہے، کرپشن نہیں کرنی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے آدرش نہیں بدلنے چاہئیں۔ لیکن انسانی رائے کبھی مستقل نہیں ہوتی۔ یہ وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جس کی رائے نہیں بدلتی‘ سمجھ لیں وہ ڈفر انسان ہے۔ اس نے زندگی میں نہ کوئی نئی کتاب پڑھی ہے، نہ اپنے سے بہتر لوگوں کو سنا ہے، نہ ہی زندگی میں اسے تجربات ہوئے ہیں جو اس کی رائے بدلتے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ وہ کچھ عرصے پہلے جو سوچتا یا رائے رکھتا تھا وہ درست نہیں تھی۔ نئے حقائق سامنے آنے کے بعد سمجھدار لوگ اپنی رائے بدل لیتے ہیں۔
اندرا گاندھی کی جانب سے بھٹو پر تنقید کہ 'وہ مستقل مزاج نہیں تو بھروسہ کیوں کروں‘ پر بھٹو نے اٹالین صحافی اوریانا فلاسی کو یہ جواب دیا تھا: کم عقل لوگ ہی مستقل مزاج ہوتے ہیں اور ساری عمر اپنی رائے نہیں بدلتے‘ میں تو نئی نئی کتابیں پڑھتا ہوں، اچھے لوگوں کی محفل میں بیٹھتا ہوں، سیکھتا رہتا ہوں اور اپنی رائے کو غلط محسوس کرتا ہوں تو بدل لیتا ہوں۔ میں جوہڑ کا پانی نہیں جو ایک جگہ رکا رہتا ہے اور بدبو دینے لگ جاتا ہے۔
حسن نثار کی اپنی ایک رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کا اپنا ایک انداز ہے‘ جسے اور کوئی پسند کرے نہ کرے مجھے پسند ہے۔ وہ پاکستانی صحافت کا اینگری ینگ مین ہے۔ بھارتی فلموں میں یہ لقب اگر امیتابھ بچن کو سوٹ کرتا تھا تو صحافت میں حسن نثار ہیں۔انہوں نے کتابیں پڑھی ہیں اور ان کا نقطہ نظر ان سے بہت مختلف ہے‘ جو آج بھی نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر تلوار سے دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے حسن نثار کو کیا کرنا چاہیے تھے؟ وہ اس خوف سے خاموش رہتے کہ اگر انہوں نے عمران خان یا پارٹی پر تنقید کی تو پھر گالی گلوچ اور مذاق شروع ہو جائے گا کہ دیکھو پہلے عمران خان کے قائل تھے، اب اچانک بدل گئے؟ اپنے آپ کو تنقید سے بچانے کیلئے انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا یا اگر محسوس ہوا‘ جو وہ سمجھتے تھے اور جس کا وہ کھل کر اظہار کرتے تھے‘ وہ سب غلط تھا‘ لہٰذا اعتراف کرنا چاہیے؟ کتنے لوگ ہیں ہم میں جو اپنی رائے غلط ہونے پر اعتراف کی جرأت کرتے ہوں؟ ہم اعتراف نہیں کرتے حالانکہ ہمیں اندر سے پتہ ہوتا ہے کہ ہم غلط تھے۔ ہم نے غلط فیصلے کیے تھے۔ غلط لوگوں پر اعتبار کیا۔ نااہل لوگوں کو ہم اہل سمجھ بیٹھے تھے۔
حسن نثار ان دانشوروں اور صحافیوں سے ہزار گنا بہتر نکلے ہیں‘ جو نواز شریف کی کرپشن کا دفاع کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ ان سب کو پتہ ہے کہ شریف خاندان نے کرپشن کی‘ لیکن ذاتی مفادات کے نام پر سب شریف خاندان کی آج بھی مالا جپتے ہیں۔ کتنے صحافی، کالم نگار اور اینکرز‘ جو شریف خاندان کی مالا جپتے ہیں‘ حسن نثار کی طرح اعتراف کرتے ہیں کہ وہ جسے چی گویرا سمجھ بیٹھے تھے، وہ اندر سے ایک کرپٹ سیاستدان نکلا‘ جس نے ملک کی دولت لوٹی اور بے تحاشا لوٹی‘ اور اب وہ اپنی رائے پر شرمندہ ہیں؟ ان سب نے شریف خاندان اور زرداری کی جعلی اکائونٹس میں اربوں روپے کی کرپشن کی سب دستاویزات پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر وہ سب کچھ پڑھ لیا تو پھر ان کے تخلیق کردہ انسانی بت دھڑام سے نیچے آن گریں گے۔ ان سب میں حسن نثار جتنی جرأت نہ تھی کہ وہ سرعام اعتراف کرتے کہ ان کی اپنے چی گویرا بارے رائے غلط تھی۔
یہ سب خوف کے مارے نواز شریف اور کرپٹ ٹولے کی حمایت کیے جائیں گے اور داد پائیں گے کہ دیکھا ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ہم نے رائے نہیں بدلی۔ حسن نثار برا نکلا جس نے اعتراف کر لیا۔ ہمیں دیکھیں ہم محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
حسن نثار کا اعتراف اس کے قد کو میری نظر میں بڑا کرتا ہے‘ چھوٹا نہیں۔ اس معاشرے میں‘ جہاں ہیروز کی پوجا کرنے کا رواج ہو، جہاں کرپٹ کو سر پر بٹھانے کا رواج ہو، اور مرتے دم تک اپنی غلط رائے پر قائم رہنے کو فخر سمجھا جاتا ہو وہاں حسن نثار کے یہ الفاظ کہنے کے لیے بہت بڑے کردار، جرأت اور ذہنی آزادی چاہیے کہ دیکھو میرا بادشاہ تو ننگا ہے!