تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-01-2019

سُرخیاں اُن کی، متن ہمارے

فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر حلیف 
جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''فوجی عدالتوں کے معاملے پر حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے‘‘ اور یہ کام ذرا جلدی جلدی کرنا ہوگا ‘کیونکہ حلیف جماعتوں کا کچھ پتا نہیں کون کس وقت غچہ دے جائے‘ جس کی ابتداء سردار اختر مینگل سے ہو گئی ہے اور چونکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘ اس لیے ان کی دیکھا دیکھی کئی اور حلیف جماعتوں کو بھی یہ رنگ پسند آ سکتا ہے؛ حالانکہ خربوزہ کسی رنگ کا بھی ہو سکتا ہے‘ جبکہ ہمارے خربوزے کی صورت حال یہ ہے کہ چھری اس پر گرے یا یہ چھری پر گرے‘ نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ اس لیے حلیف جماعتوں سے استدعا ہے کہ اس کام سے پرہیز کریں‘ کیونکہ پھل کھانے کیلئے ہوتے ہیں‘ اُن کا رنگ پکڑنے کیلئے نہیں ہوتے‘ جبکہ سب سے خطرناک آم ہوتا ہے جس کے حوالے سے منحرف حلیف جماعت کو یہ سمجھنے کا موقعہ ملے گا کہ ہور چُوپو! حالانکہ عمدہ آم چوسا نہیں کھایاجاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اہم حکومتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں‘ بیک ڈور 
ڈپلومیسی کی کیا ضرورت ہے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ''فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں‘ بیک ڈور پالیسی کی کیا ضرورت ہے‘‘ جبکہ میرے تو ابھی کھیلنے‘ کھانے کے دن ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی میرے بچہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے؛ البتہ والد صاحب کے کھیلنے کے دن تو نہیں رہے‘ کھانے کے ضرور ہیں اور وہ اس میں مصروف بھی بہت رہتے ہیں اور اپنے گھر جانے کی تیاریوں میں بھی لگے ہوئے ہیں کہ وہ خود کہتے ہیں کہ جیل میرا دوسرا گھر ہے جبکہ پہلے گھر سے وہ ویسے بھی بیزار بیزار ہی رہتے ہیں‘؛حتیٰ کہ انکل ریاض ملک نے جو گھر بنا کر دیا ہے‘ اس سے بھی اُکتا گئے ہیں اور اُن کی سیاسی سرگرمیوں میں جو زور آ رہا ہے‘ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دوسرے گھر منتقل ہونے سے پہلے پہلے کچھ ایسا کھڑاک کر دیں‘ جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ جیل سے نہیں ڈرتے‘ جبکہ طوعاً و کرہاً انہیں شہباز شریف سے بھی ہاتھ ملانا پڑ گیا ہے‘ جو ان کے بارے میں کوئی خاص پرجوش جذبات نہیں رکھتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
دوست ممالک کے پاس مدد کیلئے آخری بار جا رہے ہیں: اسد عمر
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ''دوست ممالک کے پاس مدد کے لیے آخری بار جا رہے ہیں‘‘ اس لیے جب اگلی بار گئے تو وہ بھی آخری بار ہی جائیں گے‘ کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد کوئی چیز بھی آخری بار نہیں ہوتی کہ دنیا امید پر قائم ہے‘ جبکہ دوست ممالک کے ساتھ تعاون کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں بار بار تعاون اور خدمت کا موقعہ دیا جائے‘ ورنہ وہ سمجھیں گے کہ ہمیں فراموش کر دیا گیا ہے اور اس جذبے کا سب سے زیادہ پاس ہمارے اطلاعات کے وزیر کو ہے ‘کیونکہ اُن کے ہاں بھی کوئی چیز آخری بار نہیں ہوتی اور وہ آئے دن اپنے دلفریب بیانات کے ذریعے کوئی نہ کوئی گُل کھلاتے ہی رہتے ہیں‘ اس لیے ان کے اس طرح کے مفرح بیان کو آخری بیان نہ سمجھا جائے‘ نہ ہی وہ خود ایسا سمجھتے ہیں‘ بلکہ بیان دینے سے بھی پہلے انہوں نے ایسا ہی ایک بیان سوچ رکھا ہوتا ہے ‘تاکہ غور و فکر پر خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کیا جائے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اتحاد کا کریڈٹ عمران خاں کی پالیسیوں کو جانا چاہیے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور ن لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن اتحاد کا کریڈٹ عمران خان کی پالیسیوں کو جانا چاہیے‘‘ اور یہ بھی اچھا ہی ہوا ‘ورنہ شہباز شریف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چوراہے میں لٹکانے اور ان کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ باہر نکالنے پر تُلے ہوئے تھے‘ کیونکہ وہ اپنی دُھن اور دَھن دونوں کے پکے ہیں اور جو بات ایک بار کہہ دیں‘ اس پر عمل کر کے ہی رہتے ہیں اور اگر نہ کریں تو وہ اپنا نام تبدیل کروا لیتے ہیں؛ چنانچہ اب تک سینکڑوں کے حساب سے اپنے نام تبدیل کروا چکے ہیں‘ بلکہ ان کی ایک باقاعدہ فہرست بنوا رکھی ہے ‘جو لیکی ارکان میں تقسیم کی گئی کہ آئندہ انہیں ان ناموں میں سے کسی بھی ایک پر پکارا جا سکتا ہے‘ تاہم اب انہوں نے یہ تردد چھوڑ دیا ہے ‘کیونکہ کچھ دنوں تک وہ جہاں جانے والے ہیں‘ وہاں ناموں کی بجائے نمبروں سے کام لیا جاتا ہے‘ جس طرح ہمارے قائد اب اپنے نمبر سے ہی پکارے جاتے ہیں‘ بلکہ گھر والوں نے بھی اُنہیں اسی نمبر سے پکارنا شروع کر دیا کہ یہی ان کا مستقل نام ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو سیدھی راہ پر لانے کیلئے اپوزیشن متحد ہوئی: مریم اورنگزیب
سابق وزیر اطلاعات و نشریات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نالائق حکومت کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے اپوزیشن متحد ہوئی‘‘ کیونکہ اپوزیشن تو کافی حد تک راہ پر آ چکی ہے‘ جس میں عدالتوں کا بنیادی کردار ہے اور جو کسر باقی ہے‘ وہ بھی جلد از جلد نکلنے والی ہے ‘اس لیے اپوزیشن اتحاد کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہے‘ کیونکہ اپوزیشن جس مقصد کے لیے متحد ہوئی ہے ‘وہ تو حاصل کر ہی نہیں سکتی ‘کیونکہ این آر او نہ پہلے ملا تھا اور نہ اب اس کے متحد ہونے پر ملے گا؛البتہ اگر الگ الگ رہتے تو شاید کسی ایک کو مل ہی جاتا‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ڈیل یا این آر او نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں‘ نہ ہی اسے پتا ہے کہ این آر او کس چڑیا کا نام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکومت کو اس کے بارے تفصیل اور وضاحت کے ساتھ سمجھایا جائے تو بات بننے کا کوئی امکان ہو سکتا ہے‘ ورنہ نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
آج کا مطلع
فغاں بھی چھوڑ دی‘ فریاد بھی نہیں کریں گے
جو وہ کہے تو اسے یاد بھی نہیں کریں گے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved