تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     18-01-2019

صلاۃ و سلام اور حکومتی زبان

سرکار مدینہ حضرت محمد کریمؐ فرماتے ہیں ‘جس رات مجھے معراج کروایا گیا ‘اس رات میں نے حضرت ابراہیمؑ سے بھی ملاقات کی (جب میں رخصت ہونے لگا) تو حضرت ابراہیمؑ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے محمدؐ! میری طرف سے اپنی امت کو سلام کہنا اور انہیں بتلانا کہ جنت کی زمین انتہائی نفیس اور پاکیزہ ہے۔ بہت ہی وسیع و عریض ہے۔ میٹھے پانی والی ہے۔ اس میں وسیع وادیاں ہیں۔ ان وادیوں میں شجرکاری کریں۔ شجرکاری سبحان اللہ! الحمدللہ‘ لاالہ الا اللہ‘ واللہ اکبر‘ ولاحول ولاقوۃ الا باللہ... ہے (ترمذی‘ مسند احمد‘ الصحیحہ:105)
یاد رہے! وسیع وادیوں کے لئے حضور نبی کریمؐ نے ''قِیعَان‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ قَاع کی جمع ہے‘ یعنی ایسا میدان کہ جو وسیع و عریض ہو اور اس کی بلندی پر آسمان سے پانی آئے اور وہ وہاں رک جائے۔ جی ہاں! یہ پانی جب جھرنوں اور آبشاروں کی صورت میں نیچے نشیبی وادی میں آئے گا تو جو شجرکاری ہو گی‘ وہ خوب برگ و بار لائے گی۔ مومن‘ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے گا تو ان وادیوں میں درخت لگتے جائیں گے۔ باغات بنتے جائیں گے... یہ وہ مشورہ ہے ‘جو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اور آخری رسول حضرت محمد کریمؐ کے ذریعے امتِ محمدیہ کو دیا ہے۔ سب سے پہلے سلام کہا اور پھر سلامتی کا مشورہ بھی دے دیا کہ اصل سلامتی یہ ہے کہ انسان جنت میں آ جائے کہ جسے قرآن نے ''دارالسلام‘‘ کہا ہے۔ اللہ اللہ! کتنی بڑی سعادت ہے‘ امت محمدیہ کے لئے کہ حضرت ابراہیمؑ کا سلام قیامت کے دن تک ہر اس مسلمان کے نام ہے‘ جس نے حضرت محمد کریمؐ کا کلمہ پڑھ رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی خوبی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''بلاشبہ ابراہیمؑ آہیں بھرنے والے‘ بلند حوصلہ انسان تھے۔‘‘ (التوبہ:114) دوسرے مقام پر فرمایا ''بلاشبہ ابراہیمؑ حوصلہ مند‘ آہیں بھرنے والے اور بار بار اللہ سے لَو لگانے والے تھے۔ (ہود:75)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسماعیلؑ جیسے بیٹے کی خوشخبری دی تو انہیں بھی حلم و حوصلے والا قرار دیا۔ (الصافات:101) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے آخری رسول حضرت محمد کریمؐ کو پیدا فرمایا تو حضرت محمد کریمؐ کو ''رحمۃ للعالمین‘‘ بنا دیا‘ یعنی جو اپنوں‘ بیگانوں اور دشمنوں کے لئے بھی سراسر رحمت ہی رحمت تھے۔ سرکارِ مدینہؐ کی حکمرانی کا جو زمانہ ہے۔ آپؐ نے اسے ''نبوت و رحمت‘‘ قرار دیا اور خلفاء راشدین کے زمانے کو ''نبوت کے راستے پر‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کا ذکر فرمایا اور جبری حکمرانی کا ذکر فرمایا کہ وہ مسلط ہو گی۔ آج انسانیت اسی جبری حکمرانی کا شکار ہے۔
دی اکانومسٹ نے پوری دنیا کی مجموعی حکمرانی پر ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ دنیا کی صرف ساڑھے چار فیصد آبادی مکمل جمہوریت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساڑھے پچانویں فیصد آبادی جبر کی حکمرانی میں زندگی گزار رہی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جمہوریت ایک طرز حکمرانی ہے‘ جس کی بنیادی اساس منصفانہ الیکشن ہیں اور پھر جمہوری رویے ہیں۔ ان میں دیانت‘ امانت‘ حوصلہ‘ برداشت‘ اللہ کے بندوں کے حقوق کی پاسبانی‘ سب کے لئے معاشی ذرائع کے برابر مواقع۔ اگر یہ نہیں تو پھر جمہوریت نہیں کچھ اور ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جمہوری ممالک میں پاکستان کا نمبر 112واں ہے‘ یعنی انسانی گراوٹ میں ہم ایک سو گیارہ ملکوں کے بعد کا درجہ رکھتے ہیں۔ مزید یہ بتایا گیا کہ ہمارے پاکستان میں جو جمہوریت ہے وہ بھی زوال کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے گزشتہ دس سال میں صحیح معنوں میں جمہوری حکمرانی کی ہوتی‘ دیانت داری کو شعار بنایا ہوتا تو آج ہمارے ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے ‘اس میں بھی تجربہ کاری اور سنجیدگی انتہائی کم دکھائی دیتی ہے‘ جبکہ زبانوں کے تیرونشتر اس قدر تیز ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ جواب میں اپوزیشن بھی کلہاڑیاں اور زبانوں کے خنجر لئے کھڑی ہے۔ مگر حقیقت تو بہرحال یہی ہے کہ بنیادی ذمہ داری حکمرانانِ وقت کی ہے۔
میری دادی محترمہ فاطمہ رحمہا اللہ ایک نیک خاتون تھیں‘ وہ اپنے تینوں بیٹوں کے پاس باری باری زندگی کا آخری وقت گزار رہی تھیں۔ بچوں کو وہ کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ تقریباً ایک سودس سال کی عمر میں وہ فوت ہوئیں۔ مجھے انہوں نے ایک کہانی یوں سنائی۔ ایک لکڑ ہارا جنگل میں گیا۔ وہاں وہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ جنگل کا شیر آ گیا۔ لکڑہارا نے اپنے دفاع میں شیر پر کلہاڑی کا کاری وار کیا اور ساتھ ہی اسے مخاطب کرتے ہوئے ''اوئے جنگل کے کتے‘‘ کہاں وقت گزرتا رہا‘ ایک دن جب لکڑہارا لکڑیاں کاٹ رہا تھا‘ پھر وہی شیر آ گیا مگر اب وہ دوست بن کر آیا۔ دونوں باتیں کرنے لگ گئے۔ لکڑہارا نے شیر کی خیریت دریافت کی اور پوچھا: جناب کے زخم کا کیا حال ہے؟ شیر کہنے لگا: وہ زخم جو جناب نے میرے جسم پر لگایا وہ تو ٹھیک ہو گیا ‘مگر جو زخم جناب نے میرے دل پر لگایا ہے وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ وہاں سے متواتر خون رستا رہتا ہے۔ لکڑہارا حیران و پریشان ہو کر پوچھنے لگا: جناب والا! دل پر تو میں نے کوئی زخم نہیں لگایا‘ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ شیر نے کہا: آپ یاد کریں‘ آپ نے میرے جسم پر کلہاڑی مارتے ہوئے کہا تھا‘ ''اوئے جنگل کے کتے‘‘ آپ نے جنگل کے بادشاہ کو جنگل کا کتا کہہ دیا۔ بس یہ وہ زخم ہے جو آج بھی تازہ اور ہرابھرا ہے۔ دادی اماں اس کہانی سے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے سمجھاتی تھیں کہ بیٹا کسی کا دل نہیں دکھانا۔ سخت کلام نہیں بولنا۔ سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ سخت کلامی سے عزت نہیں ملتی‘ بلکہ گراف گرتا ہے اور یقین جانئے‘ بہت گر چکا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ حوصلے والے‘ ہمدرد اور انسانیت کی ہمدردی میں آہیں بھرنے والے تھے۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو تباہ کرنے کے لئے فرشتے حضرت ابراہیمؑ کے پاس آئے تھے اور انہیں بتلایا کہ ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو تباہ کرنے جا رہے ہیں تو وہ جھگڑا کرنے لگ گئے کہ اور مہلت دو‘ نرمی کرو... اللہ تعالیٰ نے اس جھگڑے کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ جھگڑا قرار دیا ہے‘ لیکن حضرت ابراہیمؑ کی اس ہمدردی کی تعریف بھی کی ہے کہ وہ انسانیت کی ہمدردی میں آہیں بھرنے والے تھے۔ 
قارئین کرام! میں جب اپنے حکمرانوں کو دیکھتا ہوں تو یوں نظر آتا ہے کہ یہ ہمدرد سیاسی حکمران نہیں‘ بلکہ چھریاں‘ کلہاڑیاں‘ ٹوکے اور زبان کے خنجر لئے بیٹھے ہیں‘ جن کے ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا ہے۔ 
ہر مسلمان جب نماز کے آخری حصہ تشہد میں بیٹھتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد حضرت محمد کریمؐ پر سلام بھیجتا ہے۔ اللہ کی رحمت اور برکت کی بات کرتا ہے‘ پھر اپنے پر سلامتی کی درخواست کرتا ہے‘ پھر تمام نیک لوگوں کے لئے سلامتی طلب کرتا ہے۔ اس میں پہلے انبیاء کی امتوں کے نیک لوگ بھی شامل ہیں۔ پھر درودِ ابراہیمی پڑھتا ہے۔ حضرت محمد کریمؐ اور آپ کی آل پر درود اور پھر حضرت ابراہیمؑ اور ان کی آل پر درود... اے سیاستدانو! یاد رکھو... یہ اعزاز اس لئے ہے کہ حضرت ابراہیمؑ بھی انسانیت کی ہمدردی میں آہیں بھرنے والے تھے اور حضرت محمد کریمؐ نے عبداللہ بن ابی جیسے شدید ترین دشمن اور منافق اعظم کے لئے بھی کبھی ایسا جملہ نہیں بولا‘ جس سے عبداللہ بن ابی کا دل دکھی ہو‘ بلکہ ہمیشہ اس کی عزت کا خوب خیال رکھا۔ صدقے اور قربان جائوں ایسے سرکار مدینہؐ کے پاکیزہ اخلاق پر... جی ہاں! ریاست مدینہ کے قول کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ زبان کو اخلاقی شہد میں بھگو کر میڈیا کے سامنے آیا کرو‘ جنت میں شجرکاری کر کے بولا کرو‘ اللہ تعالیٰ ہدایت فرمائے۔ (آمین)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved