اگر یہ مضمون انگریزی اخبار کیلئے لکھتا‘ تو اس کا عنوان یہ ہوتا:
When The Chips Are Down For Zardari & Company.
کیونکہ جب بھی ملکی مفاد اور ملکی وسائل کی تابڑ توڑ لوٹ مار کے خلاف آصف علی زرداری اور ان کے ٹولے کی جانب‘ قانون کی گرفت بڑھنے لگتی ہے‘ توسندھ میںہر طرف گندگی کے سجائے گئے ڈھیروں کو آگ لگاتے ہوئے سندھ کارڈ کے نام سے وہ گرد و غبار اور دھواں اڑایا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ اور اس سندھ کارڈ کیلئے سہارا لیا جاتا ہے ‘گڑھی خدا بخش میں دفن بھٹو خاندان کی قبروں کا ۔جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت آصف علی زرداری کے والد گرامی حاکم علی زرداری جنرل ضیاالحق کے دست راست بنے ہوئے ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں تھے اور جب مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر 70 کلفٹن سے کچھ فاصلے پر قتل کیا گیا تو وہ قتل اب راز نہیں رہا‘ پھر مرتضیٰ بھٹو کے بعد جس طرح بے نظیر بھٹو کی27 دسمبر2007 ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں شہا دت ہوئی‘ وہ بھی ایک کھلا راز ہے‘ جس طرح دو جمع دو چار ہوتے ہیں‘ اسی طرح صرف وہ فون کال نمبر ٹریس کر لیاجائے‘ جس سے بی بی شہید کو چند منٹ پہلے فون پر کہا گیا کہ '' گاڑی کی چھت سے باہر نکل کر عوام کو ہاتھ ہلاؤ ‘‘سندھی عوام ‘اگر ہمت کریں تو ان کا سندھ کارڈ بس یہی ہے کہ بی بی شہید کے موبائل نمبر پر اس وقت فون کرنے والے قاتل کی گردن پکڑ لیں ۔
٭٭ ان دو ستاروں کی طرح دو بہت بڑی بریکنگ نیوز مع مکمل اور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ میرے پاس ہیں۔ ایک آصف علی زرداری کا وہ حلفیہ بیان کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں کوئی وصیت نہیں کی اور دوسرا لاہور کے تعلیمی بورڈ میں کئی سال تک وہ خفیہ امتحانی سینٹر‘ جن میں ملک کی اہم اور اہم ترین شخصیات کے بیٹوں اور بیٹیوں کو سب کچھ سامنے رکھتے ہوئے میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات دلاتے ہوئے ریکارڈ توڑ مارکس دلوائے گئے۔ اس فہرست میں ایسے ایسے پردہ نشینوں کے نام ہیںکہ ملکی سیاست میں بھونچال آ جائے ۔ محترم زرداری صاحب کے دیئے گئے اس حلفیہ بیان سے ثابت ہوجائے گا کہ بی بی نے کوئی وصیت نہیں کی تھی ‘تو پھر یہ پی پی پی کی وراثتی وصیت کہاں سے لائی گئی؟محترم زرداری صاحب ‘سندھ کارڈ کی جانب ہاتھ بڑھانے سے پہلے ذرا چیک کر لیں کہ انگریزی میں لکھے آپ کے اس حلف نامے کی کاپی آپ کے پاس ہو گی‘ جس میں آپ کی طرف سے حلفیہ لکھا گیا ہے:she died intestate
اس کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ' 'وہ کوئی وصیت کئے بغیر ہی مر گئی‘‘۔ گڑھی خدا بخش میں بھٹو کی قبروں کے بعد اب 18 ویں ترمیم کے نام پر سندھیوں کو بغاوت پر اکسانے کیلئے ایک دوسرا کھیل شروع کیا جا رہا ہے کہ یہ سندھیوں کا حق چھین رہے ہیں۔ زرداری صاحب یہ تو بتائیں کہ اس ترمیم کے بعد کیا ہر سندھی کو گھر دیا ہے‘ روزگار دیا ہے‘ ہسپتال اور سکول دیا ہے‘ پانی اور سڑکیں دی ہیں‘ خوراک دی ہے یا انصاف دیا ہے؟ زرداری صاحب ‘آپ دس سال سندھ اور پانچ سال اس ملک کے حکمران رہے اور اب بھی سندھ میں آپ کی حکومت ہے‘ تو بتائیے کہ آپ نے سندھیوں کو کیادیا ہے ؟
دسمبر2018 ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری‘ ان کے جانشین بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لیڈران نے حکومت اور ملک کے عسکری اداروں کے خلاف جو زہر اگلا اور سندھ کی صوبائی حکومت کے ذریعے وہاں لائے گئے دیہی سندھ کے لوگوں کو اکساتے ہوئے انہیں جس طرح قومی اداروں کے خلاف بھڑکایا ‘وہ سب نے سنا اور دیکھا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کی عوام کیا زرداری خاندان کی غلام ہے؟کیا سندھی عوام‘ ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ بی بی شہید کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ تو بتاتی ہے کہ بی بی کو پنجاب میں قتل کیا گیا ‘لیکن یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بی بی اگر اپنی گاڑی کے اندر بیٹھے ہاتھ ہلا کر اپنے ورکروں کی حوصلہ افزائی کر لیتی‘ تو چاہے جس قدر بھی طاقتور بم دھماکے یا بارود پھٹتا‘ انہیں کچھ بھی نہیں ہونا تھا ‘کیونکہ وہ گاڑی ہر قسم کی گولی اور بم بارود سے مکمل طور پر محفوظ تھی۔ یہ تو ایک چھپا ہو اقتل ہے۔آخر واردات کی جگہ کو کیوںپانی سے دھو دیا گیا اور بی بی شہید کے ہاتھ میں پکڑا ہوا وہ موبائل فون کہاں ہے‘ جس پر ان کے قتل سے چند منٹ پہلے فون کال آئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو‘ جس نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی تو یہ پچاس ساٹھ لوگوں کا ارب پتی بن جانے والا ٹولہ بھٹو کے نام پر سندھیوں کو سڑکوں پر آنے کیلئے اکسا رہا ہے۔ میثاق جمہوریت کے ہم پیالہ نواز شریف اور ان کے وہ ساتھی‘ جو پی پی پی کے لیڈران کی طرح کئی برسوں تک جی بھر کر اس ملک و قوم کو لوٹتے رہے‘ ان کے پاس بھی اپنے بھیانک جرم چھپانے کا وہی طریقہ ہے کہ قومی اداروں اور اس کے متعلقہ اداروں کے خلاف جھوٹ اور دشنام ترازیاں کرتے جائو ‘تاکہ وہ لوگوں کو یہی بتایا جا سکے کہ یہ جو ہم پر پانامہ‘ پاکپتن دربار کی دکانیں بیچنے‘ ایل این جی‘ گردشی قرضے اور اورینج ٹرین سمیت موٹر وے کمیشن کی باتیں کی جاتی ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں بولتے ہیں‘ اس کے سامنے سر کیوں نہیں جھکاتے؟ اس وقت نواز شریف نے اپنے ساتھ ایسے لوگ اکٹھے کئے ہوئے ہیں ‘جو تمام دن اور رات قومی اداروں اور عدلیہ کے خلاف وہ گند اچھالنے میں مصروف ہیں کہ ایک سچا پاکستانی سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں پر ا سے دیکھ اور سن کر کانپ اٹھتا ہے۔
''سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘ آصف علی زرداری‘ عدلیہ اور ملکی اداروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دھمکی اورطنزیہ انداز میں بار بار فرماتے ہیں کہ تم تو صرف تین سال کیلئے آئے ہو‘ تمہاری تو مدت ہی اتنی کم ہے‘ تمہاری تو کوئی اوقات نہیں‘ اس کے بعد تم کیا ہو؟ تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہماری تقدیر کے فیصلے کرو! جناب والا‘ جس عدالت سے آپ نے اپنے حق میں فیصلے کروائے ‘وہ اب کہاں ہے؟ کیاوہ بھی ایک سال کیلئے نہیں تھی ؟پھر آپ نے اس سے اپنے فیصلے کیوں کروائے؟ جب ملکی آئین اور قوانین میں یہ طے ہو چکا ہے کہ فلاں عہدہ اتنے سال کیلئے ہے یا اس عمر تک ہے تو کیا کوئی بھی ایسے عہدے پر فائز اپنی آنکھیں اور کان بند رکھ سکتا ہے؟ جس نے سندھ کی عوام سے روٹی‘ کپڑا اور مکان چھین رکھا ہے ‘وہی سندھیوں کو انگلیوں پر نچانے کی باتیں کر رہا ہے۔
بہت ہو چکا۔زرداری صاحب اور ان کے ٹولے نے بہت بیوقوف بنا لیا۔ سندھ کے عوام کو ا ب ا پنی آنکھیں کھول کر سندھ کارڈ کی دھمکی دینے والوں کے سامنے کھڑا ہوکر ان کے ایک ایک کرتوت انہیںبتاتے ہوئے‘ پہلے سے بھی زیا دہ طاقت اور جوش سے جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے پوچھنا ہو گا کہ بھٹو کے نام پر پاکستان اور دنیا بھر میں اپنے محل کھڑے کرنے والو ‘ وہ موبائل فون ہمارے حوالے کرو‘ جس سے ہماری بی بی شہید کو فون کیا تھا ۔اب وقت آ گیا ہے کہ لعل شہباز قلندرؒ ‘ عبد اﷲ غازیؒ اورشاہ عبد الطیف بھٹائیؒ کی دھرتی کے سپوتوں کو اب سندھ کارڈ کو چھین کر ان کے منہ پر واپس مارنا ہوگا‘ تاکہ وہ صحیح معنوں میں ''بے نظیر ‘ چاروں صوبوں کی زنجیر ‘‘کے نعرے کو ان کے بعد بھی عملی جامہ پہنا سکیں!