تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-01-2019

پوچھا نہیں تو جانا نہیں

آج سقراط بہت یاد آتا ہے۔ کیوں نہ یاد آئے؟ سقراط نے سوال کرنا سکھایا تھا‘ سوال کرکے کسی بھی معاملے کی اصل تک پہنچنے کا راستہ بتایا تھا۔ سقراط کی زندگی اس طور گزری کہ اُس کے ساتھ رہنے والے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سوال کرنے کے عادت ہوگئے۔ سوال کرنے کے معاملے میں سقراط کا معاملہ واضح طور پر غیر لچک دار تھا‘ یعنی وہ اس روش پر گامزن رہنے سے کبھی مجتنب نہیں رہتا تھا۔ 
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں‘ جس میں سقراط کہیں ہو نہ ہو‘ قدم قدم پر بقراطوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے! آج ہر شخص اپنی دانست میں ''علّام العصر‘‘ ہے‘ جامع العُلوم ہے‘ قاموس العُلوم ہے! عصری علوم و فنون میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ متعلقہ معلومات کے ''فیوژن‘‘ کا معاملہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ہر شخص یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ وہ سبھی کچھ جانتا ہے‘ اس لیے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں! 
جب سے انٹرنیٹ عام ہوا ہے اور موبائل فون ٹیکنالوجی نے عقل کو دنگ کرنے کی حد تک ترقی کی ہے تب سے معاملہ یہ ہے کہ لوگ کسی سے کچھ پوچھنے کے بجائے ''ڈیٹا مائننگ‘‘ کرتے ہیں اور پھر مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ بس‘ اب مزید کچھ جاننے اور پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ روش ذہنوں کو وسعت تو خیر کیا دے گی‘ اُنہیں مزید محدود اور بے دَم کرنے کا ذریعہ ثابت ہو رہی ہے۔ اپنے طور پر بہت کچھ جاننے کی کوشش صرف اِس صورت میں کارگر ثابت ہوتی ہے کہ اس کی باضابطہ تربیت پائی ہو اور ذہنی تیاری کے ساتھ خوب مشق بھی کی ہو۔ 
سوال کرنے کی تابندہ روایت اب دُبک کر کسی کونے میں جا بیٹھی ہے۔ چند ایک متعلقہ حقائق (facts) کی بنیاد پر اُستوار سطحی قسم کی چُھٹ پُٹ معلومات (information) کو باضابطہ علم (knowledge) کا درجہ دے کر لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب کسی بھی معاملے میں کسی اہلِ علم سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ جب بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو موبائل فون یا کمپیوٹر کے مانیٹر پر انٹرنیٹ آن کیجیے‘ گوگل پر جائیے اور جو کچھ جاننا ہے اُس کے حوالے سے کلیدی لفظ ٹائپ کردیجیے۔ آن کی آن میں معلومات کا ایک ریلا سا آپ تک امڈ آئے گا اور اس ریلے کی زد میں آکر بہہ جانے سے خود کو بچانے کے لیے آپ کو غیر معمولی احتیاط کا دامن تھامنا پڑے گا۔ انٹرنیٹ پر ہر معاملہ چونکہ بہت بڑے حجم یا پیمانے کا ہے‘ اس لیے لازم ہوگیا ہے کہ معلومات چھان پھٹک کر لی جائیں اور صرف مستند ذرائع پر انحصار کیا جائے۔ 
ہر دور میں پوچھنے والوں کو ہدفِ استہزاء بنایا گیا ہے۔ آج بھی یہ ''روایت‘‘ برقرار ہے۔ کچھ بھی معلوم کرنے کے لیے پوچھنا تو پڑتا ہی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ آج بھی انسان اپنے علم میں اضافے کی غرض سے کوئی سوال کرکے ہدفِ استہزاء بن جاتا ہے؟ معاشرہ اپنی یہ روش ترک کیوں نہیں کرتا؟ 
سوال در سوال ہی وہ طریقہ ہے جو انسان کو کسی بھی معاملے میں حقیقی معلومات تک پہنچاتا ہے۔ ہم جب تک استفسار نہیں کرتے‘ مطلوب معلومات تک پہنچنے کا مرحلہ آسان نہیں ہوتا۔ قدیم یونان میں بھی لوگ جب کچھ جاننا چاہتے تھے تو اہلِ دانش کی طرف جاتے تھے اور اُن سے پوچھنے میں کچھ ہرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ سقراط نے اس معاملے کو ایک قدم آگے بڑھایا۔ جو نہیں جانتے تھے ‘اُن کے سوالوں کا جواب دے کر اُن کی تشفّی بھی کی اور اپنے آپ کو بھی سوال کرنے سے باز نہیں رکھا یعنی جہاں بھی ضرورت پڑی سوال کرنے سے اجتناب نہ برتا۔ یوں معاشرے کو سکھایا کہ سوال و جواب کی شکل میں مکالمے کی روایت کو زندہ رکھا جائے تاکہ کام کی باتیں خاموشی کے وقفے کی نذر نہ ہوں۔ سوال نہ کرنے یا نہ پوچھنے سے ابلاغ کا معاملہ بحران کی نذر ہوتا ہے۔ جہاں ابلاغ کا فقدان ہو‘ وہاں کام کی باتیں غیر متعلق اُمور میں دب دبا جاتی ہیں۔ 
زمانے کی روش ایسی بدلی ہے کہ لوگ کچھ پوچھنے میں ہتک محسوس کرنے لگے ہیں جبکہ اب تو پوچھنا بھی بہت آسان ہوگیا ہے۔ کسی سے براہِ راست مخاطِب ہوئے بغیر بھی بہت کچھ کہا اور پوچھا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ نے بہت کچھ آسان بنادیا ہے‘ مگر المیہ یہ ہے کہ دوسری طرف بہت کچھ بہت مشکل بھی بنادیا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ انسان کسی سے کچھ پوچھنے پر‘ از خود نوٹس کے تحت‘ اپنے تئیں عالم سمجھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ خنّاس سماگیا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ بہت کچھ جانتا ہے‘ بلکہ اپنے طور پر فیصلہ بھی کرسکتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! اس خنّاس نے خرابیوں کی محض تعداد ہی نہیں بڑھائی‘ بلکہ اُنہیں پیچیدہ تر بھی کردیا ہے۔ ہر اعتبار سے مکمل معلومات کا حصول یقینی بنائے بغیر جب کوئی کسی فیصلے تک پہنچتا ہے تو ''بھنڈ‘‘ کر بیٹھتا ہے۔ 
سوال کرنے کی صورت میں انسان کو علم حاصل ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں معلومات کا حصول زیادہ دشوار نہیں‘ مگر سوال محض معلومات کے حصول کا نہیں‘ بلکہ صرف کام کی معلومات کے حصول کا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی بھی معاملے میں معلومات بہت مشکل سے حاصل ہو پاتی تھیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ معلومات کے نام نہاد سمندر سے کام کے قطرے کس طور کشید کیے جائیں! 
بچوں کو سوال کرنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے ‘تاکہ وہ زندگی بھر اپنی ضرورت کے مطابق معلومات کے حصول میں کبھی غُچّہ نہ کھائیں۔ اس امر کا خاص خیال رکھیے بچوں کے ذہن میں یہ خنّاس پیدا نہ ہونے پائے کہ وہ اپنے طور پر بہت کچھ معلوم کرسکتے ہیں اور ٹیچر سے بار بار پوچھنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ بچوں کو سوال پوچھنے کی روش پر گامزن کرنا اور گامزن رکھنا صرف والدین کا نہیں بلکہ ٹیچرز کا بھی فریضہ ہے۔ 
کلاس روم میں بچے سوال کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں‘ تھوڑے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ ساتھ بیٹھنے والے تمسخر اڑائیں گے۔ یہ خوف اپنے وجود کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں رکھتا۔ تھوڑی سی تربیت اور حوصلہ افزائی سے یہ خوف دور کیا جاسکتا ہے۔ کلاس روم میں ٹیچر سے کچھ بھی پوچھنے کے معاملے میں ڈرنے اور ہچکچانے والے بچے زندگی بھر تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ سکول کی سطح پر بچوں کی تربیت میں بولنے اور سوال کرنے کو غیر معمولی اہمیت دینے کی ضرورت ہے ‘تاکہ بچوں میں اپنے وجود پر اعتماد کا گراف بلند ہو۔ اپنے وجود پر بھرپور اعتماد ہی بچوں کو زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے اور آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔ 
سوال پوچھنے والا طالب علم کچھ دیر کے لیے احمق سا دکھائی دیتا یا محسوس ہوتا ہے‘ مگر یہ تین‘ چار یا پانچ منٹ کا معاملہ ہوتا ہے‘ پھر تمام بچے بھول بھال جاتے ہیں کہ کس نے کیا پوچھا تھا۔ سوال کرنے سے گریزاں رہنے والے طلباء زندگی بھر کے لیے حماقت کا چلتا پھرتا نمونہ بن جاتے ہیں۔ زمانۂ تعلیم کے دوران پوچھنے سے گریز کی عادت پڑ جائے تو انسان زندگی بھر ادھوری معلومات کا حامل رہتا ہے۔ یہ جھجھک کا معاملہ ہے‘ جو ایک بار پنپ جائے تو بہت مشکل سے جاتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved