چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد ایک انٹرویو میں جناب ثاقب نثار نے کہا تھا، ''میں تاریخ میں جسٹس کارنیلیٔس اور جسٹس حمودالرحمن بن کر زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔ جناب ثاقب نثار نے عدلیہ کی جن شخصیات کو آئیڈیلائز کیا، وہ بلا شبہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ جن کے عدالتی فیصلے اور جج کے طور پر طرز عمل عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ جسٹس حمودالرحمن کا تعلق مشرقی پاکستان میں علما کے ممتاز خاندان سے تھا‘ لیکن سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد انہوں نے اُدھر چلے جانے کی بجائے اِدھر ہی رہنے کو ترجیح دی۔ بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں وہ سپریم کورٹ کے اس بینچ کے سربراہ تھے جس نے 25 مارچ 1969ء کے مارشل لاء کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے، جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا۔ جب فیصلہ آیا اس وقت اگرچہ یحییٰ خان (اور ان کا ٹولہ) رخصت ہو چکے تھے (اور ان میں سے بعض ''حفاظتی حراست‘‘ میں تھے) لیکن مارشل لاء موجود تھا اور بھٹو صاحب، جنرل یحییٰ خان کے جانشین کے طور پر صدر کے ساتھ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی ٹوپی بھی پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے بچی کھچی قومی اسمبلی سے مارشل لاء کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی منظوری بھی حاصل کر لی تھی (اپوزیشن کی مخالفت نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی تھی) لیکن چیف جسٹس حمودالرحمن کے فیصلے کے بعد مارشل لاء کا تسلسل بہت مشکل ہو گیا تھا؛ چنانچہ بھٹو نے عبوری آئین کی منظوری کے ساتھ مارشل لاء کے خاتمے کا اعلان کر دیا (اگرچہ صدارتی نظام پر مبنی عبوری آئین میں بھی ان کے اختیارات مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے کم نہ تھے) عاصمہ جہانگیر (تب عاصمہ جیلانی) نے یہ پٹیشن اپنے بہادر والد ملک غلام جیلانی کی مارشل لاء کے تحت گرفتاری کے خلاف دائر کی تھی۔ جسٹس حمودالرحمن کے اس فیصلے کے نتیجے میں ہماری اخبار نویس برادری سے جناب الطاف حسن قریشی‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، حسین نقی اور (ان کے ''پنجاب پنچ‘‘ کے پرنٹر) مظفر قادر کو فوجی عدالت سے ملنے والی سزائیں بھی ختم ہو گئیں۔
اپوزیشن بھٹو صاحب کو بھی سقوط مشرقی پاکستان کے المیے میں برابر کا ذمہ دار قرار دے رہی تھی۔ بھٹو صاحب کیلئے اس پروپیگنڈے کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا تو انہوں نے چیف جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کے اعلان کر دیا‘ لیکن اس کے ٹرمز آف ریفرنس کو صرف عسکری ہزیمت کے اسباب و علل تک محدود رکھا کہ اس المیے کے سیاسی عوامل زیر بحث نہ آئیں‘ لیکن کمیشن نے حزب اختلاف کے سیاسی رہنمائوں (خان عبدالولی خان، سردار شوکت حیات اور مفتی محمود) کے بیانات بھی سنے۔ کمیشن کی رپورٹ میں 34 صفحات وہ تھے، جن میں اس المیے کے حوالے سے بھٹو کے سیاسی کردار کا ذکر بھی تھا۔ رپورٹ کی چار جلدیں تیار کی گئی تھیں۔ بھٹو نے یہ جلدیں منگوا کر ان 34 صفحات کی جگہ نئے صفحات شامل کرا دیئے‘ لیکن کمیشن کے سیکرٹری ایم اے لطیف نے ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا‘ جس کا خمیازہ انہیں حبسِ بے جا کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ چیف جسٹس حمودالرحمن نے اس پر سخت احتجاج کیا‘ اور دھمکی دی کہ وہ حبسِ بے جا کی درخواست منظور کر لیں گے اور قوم کے سامنے حقیقت بے نقاب کر دیں گے۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور ایم اے لطیف کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
جسٹس حمودالرحمن کی جرأت اور حق گوئی کا ایک واقعہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال اور جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحومین) کی یادداشتوں میں بھی موجود ہے۔ یہ کراچی میں جیورسٹ کانفرنس کی کہانی ہے‘ جس کے آخری اجلاس میں وزیر اعظم بھٹو بھی شریک تھے۔ بھٹو صاحب اپنی فی البدیہہ تقریر میں عدلیہ اور ججوں کی تضحیک پر اتر آئے تھے۔ وہ حکومت کے زیر عتاب اپوزیشن رہنمائوں کو ملنے والے عدالتی ریلیف پر بھنائے ہوئے تھے؛ چنانچہ بعض ججوں کو ''مسخرے‘‘ تک کہہ گزرے۔ وہ ججوں کو ''مائی لارڈیز‘‘ ،''مائی لارڈیز‘‘ کہہ کر بھی تمسخر کا نشانہ بناتے رہے۔ جیورسٹ کانفرنس میں غیر ملکی مہمان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صورتِ حال چیف جسٹس حمودالرحمن کے لیے قابلِ برداشت نہ رہی تو وہ اپنا احتجاج کا حق استعمال کیے بغیر نہ رہے۔ ان کا کہنا تھا: میں نے بھی بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے اور خوب جانتا ہوں کہ ''آفٹر ڈنر‘‘ تقاریر کا لہجہ، اسلوب اور مفہوم کیا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کے ترکی بہ ترکی جواب پر بھٹو صاحب خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
جسٹس ثاقب نثار کے دوسرے آئیڈیل، جسٹس اے آر کارنیلیئس کا شمار بھی ان ججوں میں ہوتا تھا، جن پر پاکستان کی عدالتی تاریخ اور قانون دان برادری ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ عدالت کے باہر بھی ایک جج کے منصبی تقاضوں کا انہیں کتنا احساس اور لحاظ رہتا، اس کیلئے ایک واقعہ بطور مثال پیش ہے: مغربی پاکستان ہائی کورٹ بار کا لاہور میں سالانہ عشائیہ تھا، فیلڈ مارشل ایوب خاں بھی مدعو تھے۔ چیف جسٹس کارنیلیئس نے ''انتظامیہ‘‘ سے کہہ کر اپنی کرسی، فیلڈ مارشل ایوب خاں والی ڈائننگ ٹیبل سے الگ دوسری ٹیبل پر لگوا لی تھی کہ ملک کے آل پاور فل پریذیڈنٹ کے ساتھ چیف جسٹس کی نشست، عدلیہ کی غیر جانبداری کے حوالے سے سوالات کو جنم دے سکتی تھی۔
پاکستان میں آمریتوں کے ادوار میں بھی، چیف جسٹس کے منصب کے لیے سینیارٹی پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ ایوب خان کے دور میں اس منصب کے لیے جناب اے آر کارنیلیئس کی باری آئی تو ایک عجیب سی اڑچن نے آ لیا۔ جناب ایس ایم ظفر ایوب خان کے وزیر قانون تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ 1965ء میں جناب کارنیلیئس کے بطور چیف جسٹس تقرر کا معاملہ آیا تو بعض حلقوں کی طرف سے اعتراض وارد ہوا کہ ایک عیسائی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی القضاۃ کے منصب پر کس طرح فائز ہو سکتا ہے۔ وزارتِ قانون نے اپنی سمری میں کارنیلیئس صاحب کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیا۔ ایوب خان نے جناب کارنیلیئس کو چیف جسٹس بنا دیا۔ ظفر صاحب نے یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی بتائی۔ کارنیلیئس کے بعد جناب ایس اے رحمن کو اس منصب پر فائز ہونا تھا۔ کارنیلیئس اپنی مدت پوری کرتے تو جناب رحمن کو صرف چند ماہ ملتے؛ چنانچہ وہ یہ لکھ کر تین ماہ پہلے ہی رخصت پر چلے گئے کہ اس طرح ان کے بعد سینئر جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر کچھ زیادہ عرصہ مل جائے گا۔
(جناب کارنیلیئس نے ریٹائرمنٹ کے بعد ساری زندگی ایجرٹن روڈ لاہور کے ایک ہوٹل میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بسر کر دی)
چیف جسٹس کے لیے سینیارٹی کا اصول، ایک روایت کے طور پر تو چلا آ رہا تھا‘ لیکن اسے ایک لازمی آئینی تقاضا، چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی زیر قیادت بنچ نے 20 مارچ 1996ء کو، وہاب الخیری کے الجہاد ٹرسٹ کی پٹیشن پر بنایا۔ یہ جو آج اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا پروفائل دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ کس نے کس تاریخ تک چیف جسٹس رہنا ہے اور پھر کس نے کتنے عرصے کے لیے اس کا جانشین بننا ہے (اور کون کون ہیں، جنہیں 65 سال کی عمر مکمل ہونے پر چیف جسٹس بنے بغیر ریٹائر ہو جانا ہے) یہ جسٹس سجاد علی شاہ والے بینچ کے اسی فیصلے کی دین ہے۔ یہ فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں آیا تھا، جس کی دیگر شقوں کے نتیجے میں 60 کے قریب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو گھر جانا پڑا تھا۔ یہ الگ بات کہ سینیارٹی کے حوالے سے، خود سید سجاد علی شاہ کا معاملہ ''دلچسپ‘‘ رہا۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینیارٹی کے لحاظ جسٹس سعد سعود جان کو قائمقام چیف جسٹس بنایا گیا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا تقاضا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر شاہد حامد اور ایس ایم مسعود کے براہِ راست تقرر سے اتفاق کر لیں‘ جس کے جواب میںجسٹس سعد سعود جان کا تحریری موقف تھا کہ سپریم کورٹ میں براہِ راست تقرری کے لیے (جسٹس) منظور قادر اور (جسٹس) طفیل علی عبدالرحمن جیسی حکمت اور طہارت ناگزیر ہے اور چیف صاحب کے خیال میں شاہد حامد اور ایس ایم مسعود اس معیار پر پورے نہیں اترتے، یہ خط طبع نازک پر گراں گزرا اور سعد سعود جان کی جگہ سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا گیا‘ حالانکہ سعد سعود خان کے علاوہ جناب عبدالقدیر اور جناب اجمل خان بھی سینئر کے طور پر موجود تھے۔ جناب سجاد علی شاہ اپنا تاریخی فیصلہ دینے کے بعد سینیارٹی کے اصول کی پابندی کرتے ہوئے خود ہی دستبردار ہو جاتے تو تاریخ میں ان کا ذکر ایک اور شاندار حوالے سے موجود ہوتا۔
جنابِ ثاقب نثار نے اپنے لیے بہت اعلیٰ آئیڈیلز کا انتخاب کیا لیکن وہ خود اس معیار پر کس حد تک پورا اترے؟؟؟