ایران کی قومی'' سائبر سپیس کونسل‘‘ ملک میں آزادانہ طور پر قابل رسائی آخری سماجی میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام‘ کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔یہ ایرانی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ''انسٹاگرام‘‘ استعمال کرنے والوں کے لے شاید پریشانی کا سبب نہ بن سکے ‘ وہ مجازی نجی نیٹ ورک یا ''وی پی این ‘‘(ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک) کے ذریعے اس کو استعمال میں لا سکیں گے۔ ـ''وی پی این ‘‘ کسی بھی ملک میں بند شدہ ویب سائٹ کو کھولنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ایرانی حکومت کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ ٹوئیٹر‘فیس بک ‘ ٹیلی گرام یا واٹس ایپ جیسے پیغام رساں پلیٹ فارم کی طرزپر انسٹا کو بھی بند کردے۔
دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ایرانی صدر روحانی‘ انسٹاگرام کی پابندی کے احکامات‘ قدامت پسند عدلیہ کی حمایت میںکیسے جاری کرتے ہیں‘ جس کے وہ پابند ہیں۔ صدرروحانی کے 2.2 ملین انسٹاگرام کے پیروکار ہیں‘بہت سے سینئر حکام‘ جن میں کابینہ کے وزراء اور پارلیمانی ارکان شامل ہیں‘ ٹویٹر اورانسٹا پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کے پانچ لاکھ سے زائد پیروکار انگریزی زبان کے ٹوئیٹر اور23 لاکھ فارسی زبان کے انسٹاگرام پر موجود ہیں۔مواصلاتی کمپنی ''برسن کوہن‘‘ اور'' وولف ریکنس‘‘ کے مطابق دونوں رہنما ''خامنائی ‘‘اور'' روحانی‘‘ امریکی صدر ٹرمپ کی نسبت زیادہ متحرک ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ سوشل میڈیا کے بغیر کس طرح محسوس کریں گے؟ دنیا لطف اندوز ہونے کے لیے‘ غیریقینی رسائی کے باوجود‘ درمیانی راستہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے‘ اس کی نگرانی کے لیے ضابطہ اخلاق طے کیا جارہا ہے اور اس پرباقاعدہ نظربھی رکھی جارہی ہے۔ چین'' سینا ویبو‘‘ اور'' وی چیٹ‘‘ کے ذریعے ‘نگرانی کے لیے ایک باہمی غیر ملکی ''قومی انٹرنیٹ‘‘ کو تیار کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ بین الاقوامی پلیٹ فارمز کو فلٹر کرنے کی کوششوں کے باوجود‘ اسے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ایرانی حکام کے پاس غیر مجازی نیٹ ورک ''وی پی این ‘‘ کے استعمال کو روکنے کی صلاحیت ہے یا نہیں؟ کیونکہ چین نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی ‘مگر کامیاب نہ ہوپایا تھا ۔صارفین کو ٹریک کرنا آسان نہیں ‘بہت سے VPNs مفت ہیں‘ اور اس کے لیے کریڈٹ کارڈ ادائیگی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
کسی بھی صورت میں‘ بیجنگ کے برعکس‘ تہران میں اتفاق رائے نہیں دیکھا گیاکہ کیا ضروری ہے ‘ کیا نہیں ؟کس کی ا جازت دی جائے؟اور کس کی نہیں؟ صدرروحانی اور ان کے مواصلات کے وزیر محمد جاوید آزارجہرومی ‘سوشل میڈیا کو زیادہ کھلی رسائی اور آزادی کے حامی ہیں ۔خامنائی زیادہ قدامت پسندہیں‘ لیکن مغربی پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے وہ بخوبی آنے والے خطرات سے آگاہ بھی رہتے ہیں۔
غیر یقینی صورتحال نے سماجی میڈیا ‘ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے کی اجازت دی ہے ۔ایرانی مشہور شخصیات‘ کھلاڑیوں‘ نیوز تنظیموں ‘ یہاں تک کہ امیر بچوں نے مغربی پلیٹ فارمز پربہت سے پیروکار بنائے ہوئے ہیں‘ اب یہ پلیٹ فارمزمعلومات اور تفریح کا ایک اہم ذریعہ بن گئے ہیں۔ بہت سے ایرانی کاروباری ادارے ‘ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس کیلئے سوشل میڈیا اور انسٹا گرام ودیگرکوپیغام رسانی کے لیے باقاعدہ استعمال کرتے ہیں۔ ایمزون پر ایرانی جواب کے مطابق ‘انسٹاگرام کو روکنے کے لیے بے شمار خردہ فروش‘ مشتہرین اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کواس مجرمانہ عمل پر جرمانہ کرے گا ‘ جیسا کہ انہوں نے ٹیلیگرام پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
عام ایرانیوں کیلئے‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیلی گرام ''وی پی این‘‘ کے ساتھ مل کر استعمال کی جاتی ہے‘ اسی کی بدولت کئی بار متنازعہ گفتگو بھی دیکھنے کو ملی‘ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر سرگرم سیاست دانوں اور حکام کے ساتھ براہ راست بات چیت کرتے ہوئے‘ حکومت کی ناکامی اور احتساب جیسے عمل کوبھی بڑھاوا دیا ہے۔سماجی میڈیا کے ذرائع ابلاغ نے کھیلوں کے سٹیڈیم میں خواتین کو اجازت دینے کے لیے بھی باقاعدہ تحریکیں چلائی ہوئی ہیں۔
دسمبر کے اختتام پر‘ 1980 ء کے دوران ایران ‘ عراق جنگ کے حوالے سے کونسل کے سیکرٹری و سابق اسلامی انقلاب کے کمانڈر محسن رضائی‘ نے ٹویٹ کیا تھاکہ وہ ایک بیمار آپریشن تھا‘جس میں ہزاروں افراد کی زندگیاں قربان ہوئیں۔ ایران کی طرف سے 'فوجی دھوکہ‘ تھا‘ اس ٹوئٹ پر 4000افراد ناراضگی کا اظہار کیا‘ جبکہ2400افراد نے اسے پسند بھی کیا۔اس ٹویٹ کے صرف 48 گھنٹوں بعد‘ حکومت نے رضاکارانہ طورپر محسن رضائی کو مجبور کیا کہ وہ معافی مانگیں۔سیاسی سائنسدان صادق زاخمال‘ نے انفارمیشن اور مواصلات کے وزارت کی میزبانی کرتے ہوئے ایک تقریب میں کہا ''یہ رضائی کا ذاتی بیان تھا‘ جسے انہوں نے واپس بھی لیا‘ یہ پارلیمنٹ‘ انٹیلی جنس وزارت‘ پراسیکیوٹر کے دفتریاکسی دوسرے سرکاری ادارے کا بیان نہیں تھا‘‘۔
ٹویٹر پیغام کو واپس لینے کے لیے سابق فوجی کمانڈر کو مجبور کرنا‘ شاید ایران کی حکومت کے لئے ایک حتمی خطرہ نہیں تھا ۔ 2009 ء میںگرین انقلاب کے حکم پرجب مظاہرین نے اپنے آپ کو منظم کرنے اور عالمی توجہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت ایران کی قیادت میں قدامت پسند گروہوں میں کافی پریشانی دیکھنے کو ملی ‘وزارت کی تقریب میں‘ سماجی میڈیا کی طاقت کو مدنظررکھ کر ''خوفزدہ‘‘ ہونے کا اعتراف بھی کیا گیا۔ انسٹاگرام کو بند کرنے کا منصوبہ اس کی کڑی ہوسکتی ہے‘لیکن عملی شرائط میں‘ پابندی علامات سے زیادہ نہیں‘ خوفناک صورتحال کی طرف صرف اشارہ ہے ‘ ایران نے روسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیلی گرام کی پابندی سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔گزشتہ سال 30 اپریل کو پابندی عائد کی گئی‘ یہ ممکنہ طور پر مجرمانہ کارروائیوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن گیا تھا۔ (دوسری چیزوں کے علاوہ‘ کرنسی تاجروں نے افواہوں کو پھیلانے کے لئے اس کااستعمال کیا ) ۔ قدامت پرست سیاستدانوں نے پابندی سے پہلے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے چینلز کو غیر فعال کردیاتھا؛اگرصدر روحانی اچانک انسٹاگرام سے محروم ہو جاتا ہے تو‘ اس کے 2.2 ملین پیروکاروں کونا امید ہونے کی ضرورت نہیں‘ وہ جلد ہی کسی اور پلیٹ فارم پر واپس آ جائیں گے۔