شہباز شریف کی پارلیمان میں حالیہ تقریر کوئی حیران کن ''یو ٹرن‘‘ نہیں تھی۔ طاقت وروں کی شان میں قصیدہ خوانی کب میاں صاحب کی فطرت اور سیاست کا حصہ نہیں رہی۔نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کی ''خلائی مخلوق‘‘کی چیخ و پکار کے مختصر دورانیے میں بھی اُن کے فرزندِ ارجمند اور حواری چھوٹے میاں صاحب اس ''مزاحمتی‘‘ موقف سے مسلسل فاصلہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اب بھی اگر لبرل مفکرین کے لیے یہاں کے سرمایہ داروں (بورژوازی) کی ترقی پسندی کے فریب کا پردہ چاک نہیں ہوا تو پھر ان کی ذہنی حالت ہی قابلِ رحم بن جاتی ہے۔ شاید یہ اس نظام کے استحکام کی ہی اہم ضرور ت تھی کہ نوا ز شریف اور مریم نواز کو نشانہ بنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی طبقے کے مفادات‘اس کی حاکمیت میں آنے والی شخصیات سے کہیں زیادہ بالا تر ہوتے ہیں۔
پاکستان کے معاشی اور معاشرتی نظام‘ اور اس کو چلانے والی ریاست و حکومت کے بحران سے رائج الوقت طریقہ کار اور ڈھانچے چیلنج ہو رہے تھے۔ ایسے میں اس حاکمیت کی ترکیب سازی ، کل پرزوں اور ڈھانچوں کو برقرار رکھنا اور پھر اس کو کسی حد تک سیاسی و سماجی جواز فراہم کرنا‘ حکمرانوں کے لیے ایک سلگتی ہوئی ضرورت بن گیا تھا۔جہاں محرومی، ذلت اور استحصال سے ساری خلقت اکتاہٹ اور شدید بے قراری کا شکار ہو گئی تھی‘ وہاں مصنوعی سیاسی ڈھانچے کو حاکمیت کے رائج الوقت اقدار کی گرفت میں رکھنے کے لیے ''کرپشن‘‘ اور ''احتساب ‘‘ کا کھلواڑ کرنا اس نظام کے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں میاں نواز شریف جب اپنے طبقے کے رائج الوقت نظام اور ڈھانچوں کو ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اصولوں اور قوانین کے تحت استوار کرنے کی کوشش کرنے لگے تو ان کو اس نظام کی طاقت کے سرچشموں نے یہ باور کرا دیا کہ اس نظام کی گلی سڑی ترکیب کو مغربی پارلیمانی معیار کے مطابق ''درست‘‘ کرنے کی کوشش پورے ڈھانچے کے لیے ہی ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
میاں نواز شریف اپنے ''مینڈیٹ‘‘ کو واقعی جمہوری اور بھاری سمجھ بیٹھے تھے۔ اسی کے بل بوتے پر وہ اپنے آ پ کو طاقتور وزیر اعظم سمجھنے لگے تھے۔ لیکن جب میاں صاحب نے اپنی ''طاقت‘‘ کو لاگو کرنے کی کوشش کی تو ان کو اندازہ ہو ا کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ جہاں عوام کے لیے ''جمہوریت ‘‘، ''عوام کی طاقت‘‘ اور ''ووٹ کی عزت ‘‘کا ایک فریب ہے‘ وہاں حکمرانوں کے لیے بھی یہ محض ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ بس گزار ہ کرنے والی بات تھی‘ کیونکہ حالات اتنے خراب اور نظام کے ڈھانچے اتنے گلے سڑے ہیں کہ اب یہ محض ''بات ہی بنی ہوئی ہے‘‘ کی حد تک ہی چل سکتے ہیں۔ اس میں معمولی سی اکھاڑ پچھاڑ ‘ اس پھوکٹ اور ناپائیدارڈھانچے کے مکمل بکھرنے کا باعث بن سکتی ہے‘لیکن اس میں اہم سبق یہ ہے کہ حکمران طبقے کے مفادات کے سامنے اس طبقے کے بڑے سے بڑے لیڈر کی شخصی حیثیت بہت ہی ثانوی اور غیر اہم ہوا کرتی ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ تو نرم رویہ روا رکھا گیا ہے‘ کیونکہ نظام کی سنگین بحرانی کیفیت میں طاقت کا ایک حد سے زیادہ استعمال دوسری انتہا پر پھر ویسے ہی خطرات ابھار دیتا ہے‘ جس سے نظام کو مزید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب نظام کو خطرہ ہوتا ہے تو اسی کے سرخیل اور بہت ہی بھاری لیڈروں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ قبل از انقلاب کے نیشنلسٹ چین میں چینگ کائے شیک نے چین کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور سیاسی لیڈروں کا قتل عام اسی نظام کو بچانے کے لیے کروایا تھا‘ جس کے وہ نمائندہ اور محافظ تھے۔ لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے براعظموں میں خصوصی طور پر ہمیں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں یہاں کے سرمایہ دار سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کو بھی آمریتوں اورجمہوری وقفوں کے متبادل سیاسی ڈھانچوں کے سلسلے کی وجہ سے یہاں ''جمہوریت‘‘ اور ''آمریت‘‘ کے تضاد کو ابھارنے اور صرف اسی کے ہی گردسیاست کو محدود کردینے کی واردات کا خوب موقع ملا ہے۔ اس سے ایک نیا بیانیہ تراشا گیا اور آج تک اسی کے گرد سیاست جاری ہے۔
شہباز شریف کی حالیہ تقریر بنیادی طور پر ان کا ''پرانی تنخواہ پر کام کرنے‘‘کا اعادہ ہی تھی۔ایسے لگتاہے کہ نواز لیگ ٹھنڈی ہوگئی ہے اور انہی کے بقول اس جعلی مینڈیٹ والی حکومت اور پارلیمنٹ میں گزارے کے علاوہ نہ ان کے پاس کوئی چارہ ہے اور نہ ہی اپنے چیلنج کے لیے لڑنے کی کوئی صلاحیت۔ عمران خان صاحب کی حکومت جتنی کمزور اور نااہل ہے اتنی ہی پر انتشار بھی ہے۔ انہوں نے نان ایشو ز خصوصاً کرپشن کی گردان کا سبق سیکھا ہوا ہے۔ اس نئے سیٹ اپ کی حاکمیت نے مروجہ مالیاتی سیاست کے تمام کھلاڑیوں کو تو رام کرلیا ہے لیکن سیاسی انتشار کے نیچے عام انسانوں کی زندگیوں کی اذیت میں کہیں زیادہ شدت آگئی ہے؛ تاہم اگر حکومت نے بالواسطہ طور پر معاشرے میں کسی قسم کی کوئی بہتری نہ لاسکنے کا اعتراف جرم کرلیا ہے تو پھر اپوزیشن کے پاس بھی کوئی ایسا پروگرام اور لائحہ عمل نہیں ہے جس سے عام انسان کے دکھوں اور عذابوں کا کوئی ازالہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی، نوا ز لیگ اور اپوزیشن الائنس کی دوسری پارٹیوں کا بھی اس رائج الوقت ڈھانچے میں ایسا ہی کردار رکھا گیا ہے جس طرح پی ٹی آئی کوایک کردار سونپ دیا گیا ہے۔بظاہر سب کچھ قابو میں آگیا ہے لیکن سماجی ذلت بڑھ گئی ہے اور معاشرے میں اتنی ہی بے سکونی ہے۔ حکومت نے تو جعلی نعرے بازی ہی کرنی ہے‘ لیکن مہنگائی کا واویلا کرنے والی اپوزیشن بھی کوئی ایسا پروگرام دینے سے گریزاں ہے‘ جس سے محنت کش طبقات اور اس ملک کی وسیع ترین آبادی کوعذابوں سے چھٹکارہ حاصل ہو۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ سب اس مالیاتی سرمائے کی سیاست کے کارندے ہیں۔ ورنہ عوام کا پروگرام تو چند نکات میں پیش بھی کیا جاسکتا تھا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ عام فہم مطالبات ہیںمثلاً
٭ کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر اوربیروزگاری الائونس۔
٭ تعلیم، علاج اور بنیادی اجتماعی ضروریات کی ریاستی گارنٹی اور فراہمی۔
٭ دولت کی مساوی تقسیم اور ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ۔
٭ تمام سطحوں پر سماجی و مالیاتی جبر سے آزادالیکشنوںکے انعقاد کا اعلان اور ہر منتخب رکن کی جواب دہی کی گارنٹی۔
٭ تمام سامراجی قرضوں اور قومی وعالمی اجارہ دارانہ اثاثوں کی ضبطی۔
٭ تمام حاوی معیشت اور وسائل کی اشتراکی ملکیت اوران کا اجتماعی جمہوری انتظامیہ کے تحت چلایا جانا۔
٭ نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک تمام سطحوں پر انصاف کی مفت اور فوری فراہمی کا یقینی بنایا جانا۔
ایسے چند مطالبات پر ایک ایسا پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے جس سے اس ملک کے باسیوں کی زندگیاں بہت حد تک سہل ہوسکتی ہیں۔ ویسے تو یہ مطالبات آئین کی قدیم شقوں میں بھی درج ہیں‘لیکن ایسے مطالبات اور پروگرام کو نہ موجودہ حکومت پسند کرتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں۔ حکمران اشرافیہ ایسے پروگرام کوکبھی عملی جامہ پہنانے نہیں دے گی۔ مندرجہ بالامطالبات عوام کے وسیع تر مفادات سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن یہ مطالبات اوپر کے اقلیتی حکمران طبقات کے مفادات کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اگراس ملک کے مفادات اور سالمیت کے معنی یہاں کے عوام کے حقو ق ہیں تو اس لائحہ عمل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘لیکن یہاں سا لمیت ، قومی غیرت، جمہوریت اور قانون کی بالا دستی جیسے نان ایشوز کومسلسل اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ بالادست طبقات اور طاقتوں کی دولت اور مفادات محفوظ رہیں۔
اگر اس ملک کو بربادی اور ذلتوں سے نکالنا ہے تو عوا م کے حقوق کی بازیابی ناگزیر ہے۔ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا‘ لیکن کروائے گی عوام کی تحریک۔ عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں۔ اب وہ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے لیڈروں کے لیے تحریکیں چلانے سے انکاری ہیں۔ محرومی اور ذلت کی اذیتوں سے اکتائے ہوئے عوام اب اپنے مسائل کے لیے ہی لڑیں گے۔ رنگ ، نسل ، قوم ، مذہب ، ذات پات اور فرقوںکی تقسیم در تقسیم نے ان کو رسوائی اور بربادیوں سے ہی دوچار کیا ہے۔ صرف طبقاتی بنیادوں پر ایک ریڈیکل پروگرام اور انقلابی قیادت و پارٹی کے ذریعے ہی نجات ممکن ہے۔ مارکس کے الفاظ میں ''ان کے پاس اب کھونے کو صرف زنجیریں ہیں‘جیتنے کو سارا جہاں پڑا ہے‘‘۔