تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     20-01-2019

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز

18 جنوری کی رات ایک خوبصورت رات تھی۔ جدہ میں موجود دوست حاجی عبدالروف اور ان کے بھائی مولانا عمر فاروق نے جدہ میں اپنی وسیع رہائش گاہ پر ایک پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا تھا‘ جس میں مولانا عبدالمنان راسخ‘ مولانا مختار عثمانی‘ مولانا فضل الرحمن ‘ افتخار وٹو ‘مولانا ابو بکر اور جدہ میں موجود دیگر دوست احباب نے شرکت کی۔ اس عشائیے میں موجود تمام دوست احباب دین سے محبت کرنے والے اور کتاب وسنت کی عملداری کے لیے بے تاب رہنے والے تھے۔ ان دوست احباب کے ساتھ خوبصورت نشست کے آغاز میں علمی اور سیاسی حوالے سے بہت خوبصورت اور کھلے انداز میں تبادلہ خیال ہوا۔ 
کتاب وسنت سے محبت کرنے والے یہ تمام لوگ وطن عزیز کی تعمیر وترقی کے لیے بھی انتہائی بے تاب اور بے چین نظر آئے۔ گفتگو کے بعد پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا اور میزبانوں نے اپنی محبت ‘خلوص اور گرمجوشی کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر سعودی عرب کے معروف اردو اخباراور اردو ریڈیو کے نمائندے ڈاکٹر لئیق خان بھی تشریف لائے۔ ڈاکٹر لئیق خان نے اس موقع پر سعودی عرب کے اخبار اور ریڈیو کے لیے بعض اہم سوالات کیے ‘جن کا تعلق اُمت کو درپیش مسائل کے ساتھ تھا۔ اس موقع پر جن خیالات کا ڈاکٹر لئیق خان صاحب کے ساتھ تبادلہ ہوا میں‘ اُنہیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:۔ 
حرمین شریفین کا سفر جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کا ذریعہ ہے‘ وہیں پر انسان کو اُمت کے مختلف طبقات سے ملنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ اُمت مسلمہ مختلف اقوام اور اوطان سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ کالے‘ گورے‘ بھورے اور سرخ مسلمانوں کو دیکھ کر جہاں انسان میں اپنے آفاقی دین سے وابستگی اور حرمین شریفین سے نسبت میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے وہیں پر ان مسلمانوں کو دیکھ کر انسان کے ذہن میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور مسائل کے حوالے سے بھی مختلف طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی شریف میں آتے جاتے ہوئے سرینگر سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ بڑے پرتپاک انداز میں ملے تو جہاں پر ان کی محبت اورگرمجوشی کی وجہ سے اُن سے اُلفت اور کشش میں اضافہ ہوا وہاں پر کشمیریوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے دل میں ایک افسردگی کی کیفیت بھی پیدا ہوئی۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں برما کے بعض دوستوں کو دیکھ کر برما کی جلتی ہوئی مسجدوں اور وہاں پر ہوتے ہوئے ظلم کے حوالے سے تشویش کے احساسات پیدا ہوئے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کی مظلومیت کا بہت بڑا سبب مسلمان حکمرانوں کی سیاسی ترجیحات ہیں۔ اگر اُمت کی سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہو جائے کہ ہم نے امت کے مسائل کے حل کے لیے اپنی توانائیوں اور وسائل کو صرف کرنا ہے تو سامراج اورمسلمانوں کے دشمن کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہو سکتے۔ مغرب کے حکمران دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر اپنے ہمنواؤں اور اپنے سے وابستگی رکھنے والے افراد کی بھرپور انداز میں وکالت اور سرپرستی کرتے ہیں لیکن بدنصیبی سے یہ بات اُمت مسلمہ کی سیاسی قیادت میں نظر نہیں آتی۔
اس موقع پر اتحاد اُمت اور داخلی تنازعات کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اِتحاد کے حوالے سے میں نے ڈاکٹر لئیق خان صاحب کے سامنے اس بات کو رکھا کہ امت یقینا مختلف مسالک اور دینی جماعتوں میں تقسیم ہے‘ لیکن کتاب وسنت کی بنیاد پر ان طبقات کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکتاہے۔ اسی طرح مقدسات اُمت مسلمانوں کے لیے مشترکہ اثاثے کی حیثیت رکھتے ہے۔ میں نے اس موقع پر ڈاکٹر لئیق خان صاحب کے سامنے اس بات کو رکھا کہ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اتحاد اُمت کے حوالے سے جو تجاویز طے کی گئی ہیں‘ یقینا وہ ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اہل بیت عظامؓ‘ خلفائے راشدین ‘ اُمہات المومنینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مقدسات اُمت میں شامل ہیں‘ جن کی تنقیص کو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے تمام علمائے کرام نے حرام اور ان کی تکفیر کو کفر قرار دیا ہے۔ اگر آج بھی کتاب وسنت سے وابستگی کے ساتھ مقدسات کے احترام پر اتفاق کر لیا جائے‘ تو اُمت باہم دست وگریبان ہونے سے بچ سکتی ہے اور بقائے باہمی کی فضا میں علمی تبادلہ خیال کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ داخلی تنازعات کے حوالے سے میرا یہ موقف تھا کہ داخلی تنازعات ہمیشہ عدل سے انحراف اور ظلم کی نشوونما سے جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی سماج کی بنیاد ایک گھرانہ ہوتا ہے۔ اسلام نے گھریلو سطح ہی پر عدل کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے اورتعدد ازواج کی صورت میں تمام بیویوں سے یکساں سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح تقسیم وراثت میں بھی تمام بیٹوں کے ساتھ یکساں معاملہ اور بیٹیوں کو ان کا حق ادا کرنے تلقین کی گئی ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ ہم گھریلو سطح ہی پر ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ قومی معاملات میں بھی عدل وانصاف سے دور چلے جاتے ہیں۔اس نا انصافی کا نتیجہ حقوق کے لیے کی جانے والی کشمکش کی شکل میں نکلتا ہے؛ اگر ہم اپنے جائز حق پر مطمئن ہو جائیں اور اپنے بھائی کو ملنے والے حق کو غصب کرنے کی کوشش نہ کریں ‘تو اُمت میں داخلی حوالے سے کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ 
اس موقع پر اسلام فوبیاکے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ میں نے اس موقع اس بات کو ڈاکٹر لئیق صاحب کے سامنے رکھا کہ اسلام فوبیا کے حوالے اغیار کا طرز عمل تو بالکل واضح ہے کہ وہ تعصب حسد اور جانبداری کی وجہ سے اُمت مسلمہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن اُمت مسلمہ کو اسلام کے دفاع کے لیے جس سطح کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہماری تیاری تاحال مکمل نہیں ہے۔ اسلام کے تصور جہاد ‘ اسلام میں غلامی کے تصور ‘ پردہ داری ‘ ایک سے زائد شادیوں ‘خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کئی مغربی دانشور اور مستشرقین ہمہ وقت پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اور اسلام کو جبر کا دین قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بدنصیبی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے مضبوط لائحہ عمل کو تیار نہیں کیا گیا۔ ہمیں چاہیے کہ اس حوالے سے نوجوانوں کی ذہن سازی کریں اور ان میں کتاب وسنت کی تعلیمات اور اِن میں موجود حکمتوں سے آگاہ کریں ۔ جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھا جائے ‘اسی طرح پردے کی افادیت سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور اسلام نے اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں ان کو عام کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں 14 سو سال کے دوران ایک حرف کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے اگر ہماری نوجوان نسل آگاہ ہو تو یقینا مغربی پراپیگنڈے کا بھرپور انداز میں جواب دیا جا سکتا ہے۔ 
اہل مغرب نے اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے بظاہر اپنے لوگوں کو دین حق سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ جب قرآن وسنت کے متون غیر جانبدار اور انصاف پسند مغربی دانشوروں‘ ماہرین تعلیم اور طالب علموں تک پہنچتے ہیں‘ تو وہ اسلام کی افاقی تعلیمات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے؛ چنانچہ ہر برس ہزاروں کی تعداد میں مجبور اور محروم طبقوں کے ساتھ ساتھ اور سفید فام لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عمل کرنے والے مسلمان بن جائیں اور اپنے عمل اور کردار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اور سچے پیروکار نظر آئیں۔ اگر ہم اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں تو یقینا مغربی پراپیگنڈہ اسلام کی نشرواشاعت کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹر لئیق خان کے ساتھ ہونے والی اس گفتگو کو دوست احباب بڑی توجہ کے ساتھ سن رہے تھے۔ اس نشست کے اختتام پر تمام دوست احباب بڑی محبت اور پیار سے ملے اور یوں جدہ کی یہ یادگار نشست خوبصورت یادوں کو اپنے جلوـمیں لیے ہوئے اختتام کو جا پہنچی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved