تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-01-2019

لطف

وہ ایک پنجرے میں قید تھا اور میں اس پنجرے کی دوسری طرف کھڑا تھا ۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اسے ۔ مجھے اس پہ ترس آرہا تھا ۔ میں نے اسے کہا۔ ''یہ دیکھ میرا لباس اور جوتے ۔ ایک نظر اپنا برہنہ جسم اور ننگے پائوں بھی دیکھ لے ۔‘‘ 
وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔ اکثر میں اسے دیکھنے آیا کرتا تھا۔ میں اپنے ساتھ کچھ پھل اور چپس کے پیکٹ لایا کرتا ۔ وہ میرے ہاتھ سے جھپٹ کر انہیں بے صبری سے کھالیا کرتا تھا۔ 
میں نے اس سے کہا : آج انسان اس سیارے کا بلاشرکت غیرے حکمران ہے ۔ ہم نے آگ پر مٹی کی اینٹ پکائی۔ پتھر پیس کر سیمنٹ بنایا۔ اس اینٹ او رسیمنٹ سے ہم بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کیں۔ ہم نے لوہا نکالا اور اس کی طاقت سے فائدہ اٹھایا‘ اسی لوہے سے ہم نے یہ پنجرہ بنایا اور اس میں تجھے قید کر دیا ۔آج ہمارے بچّے تجھے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ 
وہ خاموش ہی رہا۔ میں نے جیب سے موبائل نکالا۔ پنجرے کے سامنے اس طرح کھڑے ہو کر اپنی تصویر بنائی کہ پسِ منظر میں وہ نظر آرہا تھا۔ میں اس تصویر میں مسکرا رہا تھا‘ وہ سنجیدہ بلکہ مغموم نظر آرہا تھا۔ 
میں نے آگے کر کے اسے موبائل دکھایا ۔ اس کی روشن سکرین پر میری تصویر نمایاں تھی۔ میں نے یہ تصویر اسے بڑی کر کے دکھائی ۔ ''اسے تصویر کہتے ہیں ‘‘ میںنے اسے بتایا ۔ پھر میں نے گیلری کھولی۔ اپنے بچوں کی تصاویر نکال کر اسے دکھائیں ۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے تاروں اور بغیر تاروں والی لہروں کے ذریعے مسلسل رابطے میں ہیں ۔ میری یہ تصویر یورپ میں میرے بھتیجے دیکھ چکے ہیں‘ بلکہ وہ اس پر تبصرے بھی کر رہے ہیں ‘ جو کہ میرے سٹیٹس کے نیچے لکھے ہوئے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہونے کی وجہ سے ہم سب خوش ہیں ۔ اپنی خیریت سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہتے ہیں ۔ 
پھر میں نے اوپر کی طرف اشارہ کیا '' اسے آسمان کہتے ہیں ۔ اس میں بہت سے سورج ہیں او ربہت سی زمینیں ہیں۔ ''سورج‘‘ میں نے اشارہ کیا۔ ''روشنی ‘‘ میں نے موبائل کی ٹارچ جلا کر اس کی آنکھوں میں ماری ۔ 
اس نے اپنا ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لیا۔ میں ہنس پڑا ۔ پتا نہیں کیوں مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ میری بات سمجھ رہا ہے اور غمزدہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ 
میں نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا ''گاڑی ‘ گاڑی ‘‘۔ وہ دوسری طرف مڑ گیا ۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ حسد کا شکار ہے ۔ میں نے سیٹی مار کے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ پھر میری طرف دیکھنے لگا ۔ میں نے موبائل میں ایک چلتی ہوئی گاڑی کی وڈیو نکال کر اسے دکھائی ۔ میں اسے وڈیوز نکال کر دکھا تا رہا ۔ ان میں لوہا نکالا جا رہا ہے ‘ پھر اسے آگ پہ پکایا جا رہا تھا۔پھر اس لوہے کے پرزے اوراوزار بنائے جار ہے تھے‘ پھر ان اوزاروں کے ذریعے پرزوں کو جوڑا جا رہا تھا‘ پھر میں نے اسے مکمل انجن دکھایا۔
وہ چپ کر کے دیکھتا رہا ۔ میں نے اسے تیل کے کنویں دکھائے‘پھر اسے جلتا ہوا تیل دکھایا۔ وہ ڈر کے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ 
میں ہنس پڑا ۔ میں نے اسے بتایا کہ انجن کے اندر تیل جلتاہے ۔ توانائی اپنی شکل تبدیل کرتی ہے ۔ ایک راڈ گھومتاہے تو اس کے ساتھ ہی ربڑ کے پہیے بھی گھومنے لگتے ہیں ۔ ان پہیوں میں ہوا بھری ہوتی ہے ۔ 
وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا ۔ پتا نہیں کیوں بار بار مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ میری بات کو کچھ نہ کچھ سمجھ رہا ہے ۔ میں اسے مختلف چیزیں دکھاتا رہا ۔ میں نے اسے بڑے بحری جہاز دکھائے ۔ اسے بتایا کہ یہ پانی پہ ایک تیرتا ہوا شہر ہے ۔ میں نے اسے بڑے بڑے ڈیم دکھائے ۔ پھر میں نے لوہے اور کوئلے کی کانیں اسے دکھائیں۔ٹرالیاں بھر بھر کے یہ ذخائر زمین کے اندر سے نکالے جا رہے تھے ۔ 
پہلی بار مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب وہ مشتعل ہو رہاہے ۔ میں نے ایک کیلا اس کی طرف بڑھایا‘ لیکن آج پہلی بار اس نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ۔ 
''بہت خوب!‘‘میں ہنس پڑا ۔ تو پنجرے میں بند یہ جانور اب انسان سے حسد محسوس کررہا تھا !
میں نے اسے ہیلی کاپٹر ہوا میں بلند ہوتا دکھایا‘ پھرہوائی جہاز بھاگتے اور اڑتے ہوئے‘ پھر راکٹ لانچ ہوتے ہوئے ۔ میں اسے خلا میں لے گیا۔ میں نے اسے پورا سیارہ ٔ ارض ایک نیلی گیند میں صورت میں دکھایا ۔ میں نے اسے خلائی تسخیر کے مناظر دکھائے۔ چاند پہ اترتا ہو ا انسان‘ مریخ پہ موجود روبوٹ نما لیبارٹری ‘ عطار د سے لے کرٹائٹن پہ اترتے ہوئے خلائی مشن ۔ سیاروں کی قوّتِ ثقل کو استعمال کرکے اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے میزائل‘ جنہیں پلوٹو جیسے دوردراز سیاروں تک پہنچنا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ وائیجرون کے بارے میں بتایا۔ انسان کی ایک مشین نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہے ۔ 
پھر مجھے اس پہ تر س آنے لگا۔گو کہ آج اسے میری بات کچھ نہ کچھ سمجھ ضرور آرہی تھی‘ لیکن اس قابل وہ کہاں تھا ۔ یہ تو نرسری کے بچّے کو پی ایچ ڈی پڑھانے والی بات تھی۔ 
میں نے سوچا کہ اسے کچھ بلند و بالا عمارتیں دکھائوں۔ اس سیارے پہ بنی ہوئی کچھ خوبصورت جگہیں ‘ کچھ ارضی جنتیں اور اجازت لوں ۔ 
یہ مغرب کا وقت تھا‘ جب میں اسے خدا حافظ کہہ کر مڑنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب اس نے اپنا منہ سلاخوں سے لگالیا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے ۔ گو کہ مجھے کچھ خطرہ محسوس ہو رہا تھا‘ پھر بھی تجسس اتنا تھا کہ میں اپناکان سلاخوں کے قریب لے گیا۔ 
یہی وہ وقت تھا‘ جب بالآخر اس نے پہلی بار مجھ سے کلام کیا۔ کسی بچے کی آواز میں ‘ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس نے کہا: پچاس ہزار سال پہلے وہ برق ‘اگر انسان کی بجائے ہمارے آبائو اجداد پہ گری ہوتی ‘تو آج تم پنجرے کی دوسری طرف ہوتے اور موبائل میرے ہاتھ میں ہوتا۔
مجھے ایک جھٹکا لگا ۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ ہنس رہا تھا ۔ ا س نے حقارت سے کہا : چار دن کھا پی لے اور موج مستی کر اس عقل کے ساتھ ۔ اس کے بعد اس کا امتحان آرہا ہے ۔ آج تو اس بات پہ نازاں ہے کہ میں اکیلا اس سیارے کا ownerہوں ۔ کل اس عقل کا حساب بھی تجھ اکیلے کو ہی دینا ہے ۔ ہم سب بخشے بخشائے ہیں ۔
میں نے دوبارہ اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ سامنے سے کچھ لوگ چلتے ہوئے‘ ہماری ہی طرف آرہے تھے۔ اب کی بار اس نے ہنستے ہنستے جان بوجھ کر اپنی حیوانوں والی چیخیں مارنا شروع کر دیں ۔ اس نے دوبارہ سے اپنے اوپر ایک حجاب ڈال لیا۔ 
میں صدمے کی کیفیت میں تھا۔ اتنے میں وہ لوگ میرے قریب پہنچے تو میں نے انہیں بتایا کہ اس چمپینزی نے ہومو سیپینز کی بے عزتی کی ہے ۔ وہ میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے ۔ میرے غم میں اضافہ ہو گیا۔ 
کبھی میں سوچا کرتا تھا کہ یہ بیچارے کس آسرے پر اتنی تکلیف دہ زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ اب پتا چلا کہ وہ تو انتظار کر رہے ہیں کہ یہ زندگی ختم ہو اور انسان کو اس کی عقل جیسے انعام کے بدلے جواب دہ کیا جائے ۔ وہ تو اس سارے کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ 
ہائے ...بیچارہ انسان !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved