تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-01-2019

’عرب بہار‘ کا انتظار؟

اصولی صحافت کے بعد‘کیا پاکستان میں اصولی سیاست کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے؟ہمارے ہاں ‘عام طور پر 'اصولی‘ ا ور'نظریاتی‘کو باہم مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔ بعض لوگ جب خود کو نظریاتی سیاست دان کہتے ہیں یا اپنی جماعت کو نظریاتی قرار دیتے ہیں توان کے پیشِ نظر اصولی سیاست ہوتی ہے۔ نظریاتی سیاست وہ ہوتی ہے جو کسی نظریے کے تحت کی جائے۔پاکستان میں آج کوئی جماعت اگرنظریاتی ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے تووہ جماعت ِاسلامی ہے یا اے این پی۔کسی حد تک پیپلزپارٹی بھی کہ اس جماعت میں اب بھی کچھ لوگ سوشلسٹ معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔مگر ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی‘ان کا کوئی نظریہ نہیں۔یہ اصولی ہونے کا دعویٰ تو کرسکتے ہیں‘ نظریاتی ہونے کا نہیں‘اگرچہ یہ دعویٰ بھی بہت سوں کے نزدیک محلِ نظر ہوگا۔
کیا ہمارے ہاں اصولی سیاست بھی ختم ہورہی ہے؟ اصولی سیاست یہ ہے کہ سیاسی عمل میں کسی اصول اور ضابطے کے ساتھ شریک ہوا جائے‘سچ بو لا جائے‘ سیاست میں جو بات بری سمجھی جاتی ہے اس سے دور رہا جائے‘ جیسے غیر سیاسی قوتوں سے سازباز اور خفیہ روابط‘سیاسی چال چلتے وقت اخلاقی اصولوں کو پیشِ نظر رکھا جا ئے اورسیاسی آدرشوں کو کسی صورت قربان نہ کیا جائے۔ہرسیاست دان خود کو جمہوری کہتا ہے۔ اس دعوے میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ اسے عوام کی تائید کے ساتھ اقتدار تک پہنچنا ہے۔ وہ سیاسی اور ریاستی فیصلے عوامی نمائندوں کااستحقاق سمجھتا ہے۔ اب اگر وہ غیر سیاسی اداروں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے اقتدار تک پہنچتا ہے تو ممکن ہو وہ نظریاتی ہو لیکن اصولی ہر گزنہیں ہے۔یا جو کسی سیاسی جماعت کو نیچا دکھانے کے لیے غیر سیاسی قوتوں کا ساتھ دیتا ہے‘وہ بھی اصولی نہیں ہو سکتا۔ایسے لوگوں کو موقع پرست کہا جاتاہے۔
اس پیمانے پر کیا کوئی سیاستدان اصولی سیاست کا علم بر دار قرارد یا جا سکتا ہے؟میںماضی کی بات نہیں کر رہا‘ عصری سیاست کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ ماضی سب کا ایک جیسا ہے اور کسی کو بھی اصولی کہنا مشکل ہے۔ کیا آج کوئی جماعت یا سیاسی شخصیت ایسی ہے جسے اصولی سیاست کا علم بردار کہا جا سکتاہو؟ کسی کے بارے میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ اقتدار کے لیے ساز باز نہیں کرے گا؟ اس سوالات کے جواب تلاش کرتے وقت ہمیں سیاست کا ایک دوسرا پہلوبھی سامنے رکھنا ہو گا۔ سیاست کی آخری منزل اقتدار ہوتا ہے۔اقتدار کی سیاست زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو کر ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ کسی خیالی سرزمین پر نہیں ہوتی۔ اس سیاست میں کامیابی کے دو ہی طریقے ہیں‘ایک یہ کہ خود کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنایا جائے‘دوسرا یہ کہ زمینی حقائق کو تبدیل کر نے کی کوشش کی جا ئے۔پہلے مرحلے میں جد وجہد کاہدف سماجی تبدیلی ہو اور دوسرے مرحلے میں اقتدار کی سیاست۔ 
سماجی تبدیلی ایک صبر آزما کام ہے‘اس میں عمر بیت جا تی ہیں۔کم لوگ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔اس لیے سیاست دانوں کی اکثریت دوسرے راستے کا انتخاب کر تی ہے۔وہ خود کوزمینی حقائق سے ہم آہنگ بناتی ہے‘ مثال کے طور پر اگر برادری ازم کا غلبہ ہے تو سیاسی جماعت بڑی اور مؤثربرادری سے امیدوار کا انتخاب کرتی ہے۔ اگر پیسہ چلتا ہے تو پیسے والے کو ٹکٹ دیا جاتا ہے۔اگر سیاست پرغیر سیاسی قوتوں کی گرفت مضبوط ہے تو ان سے ساز باز کی جا تی ہے۔
پاکستان کے پس منظر میں یہ سب زمینی حقائق ہیں‘اس لیے وہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جو اپنی حکمت ِ عملی میںان سب عوامل کو پیش نظر رکھتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی ہے۔ سب جانتے ہیں عمران خان پراقتدار کی دیوی اسی وقت مہربان ہوئی جب انہوں نے خود کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنا لیا۔ اس سیاسی عمل سے ‘تاد مِ تحریر‘نوازشریف صاحب کا استثنا ہے۔ انہوں نے خود کو ایک بڑی سیاسی حقیقت سے ہم آہنگ نہیں بنایا‘ اور ایک اصول سے سیاسی نباہ کی کوشش کی۔ انجام ہمارے سامنے ہے۔ 
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ اقتدارکی سیاست میں اصول کہاں؟ نون لیگ میں شہباز شریف صاحب اقتدار کی سیاست کے نمائندہ ہیں۔ وہ اس کے قائل رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتوں سے ساز باز کے بغیر اقتدار کی سیاست نہیں کی سکتی۔بعض با خبر صحافی لکھ رہے ہیں کہ وہ ن لیگ کو ایک بارپھر اقتدار کی سیاست میں متحرک کرنا چاہتے ہیں‘ اور اپنی تنقید کا دائرہ عمران خان اور پی ٹی آئی تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ اب کون نہیں جانتا کہ ن لیگ کا اصل حریف کون ہے؟ شہباز شریف کا شاید یہ خیال ہے کہ حریف کو حلیف بنا کر عمران خان کو حریف بنا دیا جائے۔
اگر معاملے کی نوعیت یہی ہے توپھر پاکستان میں اصولی سیاست کی فاتحہ پڑھ دینی چاہیے۔ جو سیاست نوازشریف صاحب کرنا چاہتے تھے‘ وہ تواب نہیں ہو رہی۔ ان کی خاموشی کے بعدیہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں صرف اقتدار کی سیاست ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں جو سیاسی بحثیں جاری ہیں‘وہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔اس سیاست سے چند جزوی تبدیلیاں تو ممکن ہیں‘کسی کلی یا ہمہ گیرتبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ سادہ لفظوں میں آنے والے ماہ وسال کی سیاست بھی وہی ہو گی جو گزرے شب و روز کی تھی۔ دائرے کا سفر‘نئے یاپھر انہی پرانے کرداروں کے ساتھ۔ عوام کو اب ایک محدود سطح پر فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے: شہباز شریف یا عثمان بزدار؟ یہ حق بھی زمینی حقائق کے اعتراف کے بعد ہی مل سکتا ہے۔
ایک اچھا مشغلہ‘سیاست پر کلام کر نے والوں کے ہاتھ لگاہے کہ وہ کسی بزدار اور کسی شہباز شریف پر صفحات سیاہ کرتے رہیں۔ یہ بھی اگرچہ 'زمینی حقائق‘ میں شامل ہیں‘مگرپاکستان کو ایسی جد وجہد کی ضرورت ہے جو ان زمینی حقیقتوں کو بدل ڈالے۔ ایک شعوری تبدیلی کہ پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں؟ اگرموجود حقائق بدل گئے تو اقتدار کی سیاست بھی نئے حقائق پر استوار ہو جا ئے گی۔پاکستان میں اس وقت وہ سیاست نہیں ہو رہی جو ہو نی چاہیے۔ کاروبارِ مملکت جیسے چل رہا ہے‘ویسے چلتا رہے گا۔ میں ایک طویل عرصے تک کسی قابلِ ذکر تبدیلی کا امکان نہیں دیکھ رہا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اقتدار کی سیاست سے ماورا معاشرتی سطح پر سوچ بچار کا ایک عمل آگے بڑھنا چاہیے۔ سوچ بچار ظاہر ہے کہ اہلِ دانش کا وظیفہ ہے‘اس لیے انہیں بروئے کار آنا چاہیے۔ اقتدار کی سیاست سے مفر نہیں‘اس لیے عوام کوموجود لوگوںہی میں سے انتخاب کرنا ہے کہ ہمیں کسی شہباز شریف یا عثمان بزدار کی بہر حال ضرورت ہے؛ تاہم یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اس سے وہ بڑی تبدیلی ممکن نہیں جو اس وقت پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے۔
حقیقی مسائل کی نشان دہی کا کام عام طور پرصحافتی اور علمی سطح پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ان دونوں میدانوں میں خاموشی ہے یا پھربے سری آوازیں۔ کوئی ردھم نہیںجو ایک خوش کن گیت تخلیق کر سکے۔اس کی وجہ یہ کہ صحافت اور جامعات پربڑی حد تک ریاست کا غلبہ ہے۔ حالات نے البتہ سوشل میڈیا کی صورت میں ایک متبادل ذریعہ ابلاغ دے دیا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ حقیقی بحثیں اس فورم پر منتقل ہو جائیں گی۔ جو صحافی ا ور سیاست دان اصولی مباحث سے گریز کریں گے‘وہ تدریجاً غیر موثر ہو جائیں گے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بھی اگرخود کواصل مو ضوعات سے دور رکھا توعوام ان سے بھی غیر متعلق ہو جائیںگے۔ 
اصولی سیاست کا خاتمہ ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ حقیقی مسائل سے گریزہوتا ہے تو عملی سیاست میں خلا واقعہ ہو جاتا ہے۔ اس خلا کو ایم کیو ایم اور پی ٹی ایم جیسی قوتیں پُر کرتی ہیں۔ یہ احساس پیدا کر نے کے لیے اہلِ دانش کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اخبارات اور ٹی وی سکرین ساتھ نہ دے تو سوشل میڈیا۔ 'عرب بہار‘ بھی تو اسی طرح آئی تھی۔ عرب بہار کا انجام جس خزاں پر ہوا‘ اس کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ کیاہماری سیاست‘ ریاست اور صحافت ‘عرب بہار کے انتظار میں ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved