تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     21-01-2019

نئے چیف جسٹس صاحب

جمعرات کو نصف شب کے ساتھ ہی چیف جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار کا دورِ منصفی تکمیل کو پہنچا اور جمعہ کے دن جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس کا منصب سنبھال لیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو عدالت عظمیٰ کے انتہائی عالم فاضل ججوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بطور جج ان کے دو عشروں پر محیط کیریئر میں ان کے عادلانہ عزم و حوصلے کو بار ہا آزمائش سے گزرنا پڑااور وہ ہر باراس میں سے سرخرو ہو کر نکلے خواہ یہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کا معاملہ ہو یا 20اپریل2017ء کا نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ۔ اپنے فیصلوں کے ذریعے جسٹس کھوسہ صاحب نے نہ صرف درپیش قضیے کو نمٹایا بلکہ Jurisprudence یعنی علم قانون کی عظمت اور توقیرمیں بھی نمایاں اضافہ کیا۔مگرچیف جسٹس کھوسہ صاحب کو آنے والے سیاسی و عدالتی دور میں جن چیلنجز کا سامنا ہوگا ان سے نمٹنے کے لیے محض فہم وفراست سے شاید بات نہ بن سکے۔اس حقیقت سے چیف جسٹس کھوسہ صاحب سے زیادہ باخبر کون ہو سکتا ہے ؟
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں اپنی افتتاحی تقریر میں چیف جسٹس کھوسہ صاحب نے اپنے منصب کے مختصر دور کے حوالے سے اپنے ویژن اور منصوبوں کا ایک خاکہ پیش کر دیا تھا ۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت اختیارات کا استعمال بہت احتیاط سے کریں گے اور اس اختیار کے سکوپ اور پیرا میٹرز طے کرنے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔انہوں نے یہ بھی واضح اعلان کیا کہ وہ مقدمات کے فیصلے میں غیر ضروری تاخیر کے آگے بند باندھنے اور زیر التوا مقدمات کا قرض چکانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال اور تین درجاتی جوڈیشل سسٹم وضع کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے Procedural Lawیاضابطے کے قانون میں آئینی ترامیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپیل کی کہ حکومت ان تین ہزار ججوںکی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرے جن پر انیس لاکھ مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔
انہوں نے بہترگورننس کے تناظر میں وسیع تر ''چارٹر آف گورننس ‘‘کی خواہش کا اظہار بھی کیا‘ جس کی تشکیل میں ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت اعلیٰ پارلیمانی قیادت ‘عدلیہ اور ایگزیکٹو لیڈر شپ کی مشاورت بھی شامل ہو ۔
سچی بات یہ ہے کہ تمام تر بلند وبالا عزائم کے باوجود چیف جسٹس کھوسہ صاحب کا مختصر دورِ منصب ان مقاصد کے حصول کے لیے کافی نہیں ہوگا؛چنانچہ بعض اہم عدالتی امور ان کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں ۔بطور چیف جسٹس ان کی اصل آزمائش یہ ہے کہ وہ اس ملک کے نظامِ عدل پر قوم کے متزلزل اعتماد کوبحال کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کھوسہ ایک ایسی عدالت کے سر براہ بنے ہیں جو ذاتی جاہ وجلال اور قانون کے مطابق عدل و انصاف کی فراہمی کی ذمہ داریوںمیں بٹی ہوئی ہے۔ ایک مکتبہ فکر وہ ہے جو عدالت کومعاشرے کا ایک ایسا ادارہ دیکھنے کا آرزو مند ہے جو Fix allکی ذمہ داری نبھائے۔ وہ چاہتا ہے کہ عدالت ایک ''محافظ ونگران‘‘ کا کردار ادا کرے‘ خواہ اس مقصد کیلئے اسے ماورائے قانون اقدامات ہی کیوں نہ اٹھانا پڑیں۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ عدالت کوئی انقلابی دعوے کرنے کی بجائے اختیار کی آئینی تقسیم کے نازک توازن کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا سرپرستانہ کردار ادا کرے۔ چیف جسٹس کھوسہ صاحب کو ایک پل صراط عبور کرنا ہے‘ جبکہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ تاریخ کی گہری نظریں بھی ان پر مرکوز ہیں۔
نقطہ آغاز کے طور پر ہمارے نظام عدل پر عوام کااعتماد بحال کرنے کیلئے ایسے مربوط اقدامات کی ضرورت ہے جن سے مقدمات میں ضابطے کی تاخیر کم سے کم کی جا سکے۔اس حوالے سے چیف جسٹس نے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پروسیجرل قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں تین درجاتی ٹرائل اور ایپلٹ پراسیس متعارف کرایا جا نا چاہئے‘ جس میں بلاوجہ تاخیر یا جھوٹے مقدمات پر نتائج بھگتنا پڑیں‘ تاکہ عوام کوطے شدہ وقت میں سستا انصاف فراہم کیا جا سکے۔مزید یہ کہ ماتحت عدلیہ کی بہتر نگرانی کیلئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور غیر ضروری تاخیر سے بچنے کیلئے پری ٹرائل پروسیجر متعارف کرا یا جائے ۔ضابطے کی کارروائی سے ہٹ کر عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ ٹرائل سٹیج پر Jurisprudenceکے فروغ کیلئے کوششیں پروان چڑھائے۔ ٹرائل کورٹ کی سطح پر فوجداری اور دیوانی دونوں طرح کے مقدمات میںمیکانکی طرزِعمل ہی کیوںنظر آتا ہے؟ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں میں نئے قانونی تصورات اور نظریات کیوں دیکھنے کو نہیںملتے ؛ جبکہ دنیا بھر میں پروسیجرل اور شہادتی معاملا ت میں علم قانون کے سوتے عموماً ٹرائل کورٹ سے ہی پھوٹتے ہیں۔
ججوںکو بہتر تربیت کی فراہمی سے ہماری ٹرائل کورٹس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ ایپلٹ کورٹس پر بوجھ کم کیا جا سکے۔عدلیہ خصوصاً ہماری ضلعی عدالتوں کو ''وکلا گردی‘‘سے تحفظ کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس کھوسہ صاحب کو چاہئے کہ صوبائی ہائی کورٹس اور بار کونسلز کے تعاون سے ایسا راستہ تلاش کیا جائے کہ عدالتوںکو بار کے بعض ارکان کی طرف سے یر غمال بنائے جانے سے بچایا جا سکے۔ عدالتوں کی تالا بندی اور معزز جج صاحبان پر حملوں کے مرتکب افرادکو فوجداری قانون کے تحت سنگین سزائیں دی جائیں۔جب عدالتوں میں ہنگامہ آرائی کا عمل بار بار دہرایا جا رہا ہو توہماری آئینی عدالتیں خصوصاً چیف جسٹس صاحب مزید بے اختیار نہیں رہ سکتے ۔چیف جسٹس کھوسہ صاحب کی قیادت میں نظامِ عد ل کو نقصان پہنچانے پر ہماری وکلابرادری کا پورا احتساب ہونا چاہئے ۔
چیف جسٹس کھوسہ صاحب کا یہ فرمان بھی بجا ہے کہ آئین کے آڑٹیکل 184(3)کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کا دائرہ کار بھی طے ہونا چاہئے۔معزز عدالت کو اس تنازعے میںبھی نہیںالجھنا چاہئے کہ پی ٹی آئی کی پانامہ کیس کی پٹیشن کو ابتدائی مرحلے پر رجسٹرار نے مسترد کر نے کے بعدپھر عوامی دبائو ے تحت کیوں منظور کر لیا گیا تھا ؟ عتیقہ اوڈھو کی ''شراب کی دو بوتلوں ‘‘ پر کیوں ان اختیارات کا استعمال کیا گیا‘ جبکہ دہشت گردی کے واقعات پر یہ قانون کبھی حرکت میں نہیں آیا۔اب وقت آگیا ہے کہ معز ز عدالت یہ ابہام ختم کر دے کہ بنیادی حقوق کے تناظر میں کون سے معاملات ''عوامی اہمیت ‘‘کے حامل ہوں گے اور اس اختیار کے استعمال کے حوالے سے بھی ایک واضح معیار طے کر دے۔اس سے ہمارے عدالتی احکامات کو اخلاقی اتھارٹی ملے گی اور ان اختیارات کے مبینہ امتیازی استعمال کے حوالے سے ہونے والی تنقید ختم ہو جائے گی۔
اس مرحلے پر اعلیٰ عدلیہ کے فرائض منصبی کی ادائیگی اور وقار میں بہتری لانے کیلیے شفافیت اور احتساب کے عمل کو تقویت دی جائے۔اس سلسلے میں آرٹیکل 175Aکے تحت ججوں کی نامزدگی کا عمل مزید شفاف بنایا جائے تاکہ جانب داری اور اقربا پروری جیسے الزامات کا خاتمہ ہو سکے۔سپریم جوڈیشل کونسل جو اپنے اختیارات کے استعمال میں بڑی محتاط نظر آتی ہے‘ کو چاہئے کہ وہ زیر التوا ریفرنسز کو اس انداز سے نمٹائے کہ اس ملک میں انصاف واضح طور پر ہوتا ہوا بھی نظر آئے۔
سب سے اہم بات یہ کہ نئے چیف جسٹس صاحب ایسے اقدامات اٹھائیں کہ ملٹری کورٹس کی صورت میں سرنڈر کئے گئے آئینی اختیارات کو دوبارہ واپس لے لیا جائے۔خاص طور پر دہشت گردی کے ملزموںپر مقدمات چلانے کی ذمے داری دوبارہ ایسی بااختیار سویلین عدالتوں کو دی جائے جو دہشت گردی کی لعنت سے ایک مقررہ وقت کے اندر اندرنمٹنے کے حوصلے اور سہولتوں سے لیس ہوں۔
پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے ‘ خاص طور پر ہماری عدالتوںکو زیادہ مشکل دور کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کو بنیادی حقوق‘ اختیارات کی تقسیم‘ سیاسی خود مختاری ‘سول ملٹری عدم توازن اور عدالتی اختیارات جیسے اہم معاملات طے کرنا ہوں گے۔اس سلسلے میں ہم چیف جسٹس کھوسہ صاحب اور ان کی عدالت کی طرف سے رہنمائی کے منتظر رہیں گے۔اسی طرح ہم جسٹس کھوسہ صاحب کی نئی ذمہ داریوں کے لیے اس دعا کے ساتھ نیک تمنائوں کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وہ ہمارے آئینی مشن کے وعدے کی تکمیل میں ہماری بھرپورمدد کریں گے اور ساتھ ہی ان عناصر کے ساتھ کسی رو رعایت کا مظاہرہ نہیں کریں گے جو ہمارے پرامن معاشرے کا سکون غارت کرنا چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved