اپنی تیزی سے بگڑتی ہوئی پوزیشن کو بحال و برقرار رکھنے کے لیے امریکا کو بہت کچھ درکار ہے۔ دنیا بھر میں اُس نے عسکری اور سفارتی سطح پر مہم جُوئی کا جو بازار اب تک گرم رکھا ہے اُس کے نتیجے میں غیر معمولی خرابیاں اُس کا مقدر ہوکر رہ گئی ہیں۔ جس طور امریکا کی طاقت میں برق رفتار اضافے کے بعد اُس کا طاقت کے نشے میں چُور ہوکر کچھ بھی کرتے پھرنا فطری تھا ‘بالکل اُسی طرح اب بدمستی کے نتائج بھگتنا بھی فطری ہیی۔
عالمی سیاست و معیشت کے امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے ویسے تو اپنی بداعمالیوں کے نتائج بھگتنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے مگر اِس سے قبل اپنی طاقت کو کسی نہ کسی طور بنائے رکھنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کچھ کر گزرنا بھی تقریباً ناگزیر ہے۔ ہاں‘ تھوڑا سا فرق ضرور ہے۔ چار پانچ عشروں کے دوران امریکا نے صرف کمزوروں پر چڑھائی کی ہے‘ اُنہیں تاراج کیا ہے۔ جنوبی امریکا ہو مشرق وسطٰی‘ جنوب مشرقی ایشیا ہو یا کوئی اور خطرہ ... امریکی قیادت کو قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے نام پر کمزوروں سے ''نمٹنا‘‘ تھا۔ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہے۔ اِس بار امریکا کو برابر کی طاقت سے ٹکرانا ہے۔
افغانستان اور عراق میں جنگ چھیڑ کر امریکا نے کوئی کمال نہیں کیا‘ بلکہ ذلت کا سودا کیا۔ دونوں کمزور ممالک تھے جنہیں اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دے کر امریکا نے جنگ کے نام پر جبر اور قتل و غارت کا سلسلہ مسلط کیا اور اس کے بعد دنیا کی لعنت کا حقدار بھی ٹھہرا۔
مشرقِ وسطٰی کو تہہ بالا کرنے کے بعد اب امریکا کے لیے ایک اور جنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔ افغانستان سے باعزت مکمل انخلاء کے لیے امریکی قیادت اب طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہے‘ مگر اسی کے ساتھ اُس کے لیے ناگزیر ہوچلا ہے کہ کسی نہ کسی طور چین کو کنٹرول کرے۔ چین کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے غیر عسکری سطح پر جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے تھا ‘وہ امریکا نے بخوبی کیا‘ مگر دال اب تک گلی نہیں۔
گلوبل ریسرچ ڈاٹ سی اے سے انٹرویو میں امریکی پالیسیوں کے معروف ناقد اور تجزیہ کار پروفیسر مائیکل چسوڈو وسکی نے کہا ہے کہ امریکا کے لیے اب چین سے ٹکرانا لازم ہوگیا ہے۔ ایسا کیے بغیر اُس کی مشکلات دور ہونے والی نہیں۔ مگر اس راہ میں دو بڑی دیواریں کھڑی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ چین فی الحال کسی بھی نوع کی عسکری محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں۔ اُس نے اپنی بساط بہت احتیاط اور مہارت سے بچھائی ہے۔ ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طور پر بروئے کار لاکر چینی قیادت نے دنیا کو بتادیا ہے کہ بہت زیادہ خرابیاں پیدا کیے بغیر بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
امریکا کے لیے عسکری طور پر چین کے خلاف جانے کی راہ میں دوسری بڑی دیوار یہ ہے کہ یورپ بدل گیا ہے۔ یورپ میں نظریاتی سطح پر اور مفادات کے حوالے سے تقسیم صاف دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ یورپ کے ساتھ مل کر دنیا کو چلاتا رہے ‘ مگر یورپ اپنا راستہ الگ کرنے کے موڈ میں ہے۔ وہ کسی بڑی عسکری مہم جّوئی میں امریکا کے ساتھ آنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ چین نے افریقا میں بھی قدم مضبوطی سے جمائے ہیں۔ معیشتی سطح پر چین کی جڑیں افریقا میں بھی گہری ہیں اور ایشیا کے بیشتر حصوں میں بھی۔ خود امریکا اور یورپ میں بھی چینی سرمایہ کاری اِتنی ہے کہ بھرپور انداز سے اُس کے خلاف جانا عالمی معیشت کے پورے ڈھانچے کو داؤ پر لگادے گا۔
پروفیسر مائیکل چسوڈو وسکی کے بقول رینڈ کارپوریشن نے امریکی فوج کے لیے ''وار وِدھ چائنا: تھنکنگ تھرو دی اَنتھنکیبل‘‘ کے زیر عنوان ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ رپورٹ میں اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ امریکا کے لیے چین سے کوئی جنگ نہ چھیڑنا کس حد تک ممکن ہے اور یہ کہ ایسی کسی بھی جنگ سے امریکا کو کیا مل سکے گا۔ مشرقِ وسطٰی کی بدلتی ہوئی صورتحال کے ہاتھوں ناگزیر ہوچکا ہے کہ امریکا اپنی بیشتر پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ یہاں نظر ثانی سے مراد یہ ہے کہ مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ ضرور کیا جائے۔ امریکی قیادت بنیادی طور پر مخمصے کی حالت میں ہے۔ رسّی اچھی خاصی جل چکی ہے مگر بل ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہا۔ جس طاقت کی لغت میں ''بیک ٹریک‘‘ یعنی پسپائی کا لفظ نہیں تھا‘ وہ اب کچھ بھی کہتی ہے اور پھر پلٹ جاتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر ثابت کیا ہے کہ خود اُنہیں بھی اندازہ ہے کہ محض بڑھکیں مارنے اور در حقیقت کچھ کر دکھانے میں کتنا فرق ہے!
بنیادی سوال یہ ہے کہ اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے چین سے جنگ امریکا کو کس حد تک راس آئے گی۔ دنیا بھر کے سیاسی و عسکری امور کے ماہرین یہ ملی جلی رائے ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکا کو اِس مرحلے پر چین سے عسکری محاذ آرائی کی ضرورت ہے تاکہ اوشیانا (ایشیا و بحرالکاہل) اور جنوب مشرقی ایشیا کے خطوں میں اپنا وزن بڑھانا ممکن ہو۔
جو کچھ سوچا نہیں جاسکتا اُس کے ذریعے سوچنا واقعی بہت مشکل ہے۔ چین بھی جوہری طاقت ہے اور معیشتی اعتبار سے امریکا سے بھی مضبوط تر۔ ایسے میں امریکا کیلئے اُسے ڈرا دھمکاکر رکھنا آسان نہیں۔ چینی قیادت بیشتر واقعات میں اپنی پوزیشن منوانے کیلئے تصادم سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم معیشت کے محاذ پر سخت پالیسی اپنائی گئی ہے جس کے نتیجے میں امریکا اور متعدد یورپی ممالک کی معیشتوں کا سورج چین کے سامنے ماند پڑتا جارہا ہے۔
ماہرین کی اجمالی رائے یہ ہے کہ عسکری تنازع کا فیصلہ اندرونی سیاسی مسائل‘ بین الاقوامی معاملات اور معاشی عوامل کی بنیاد پر ہوگا اور جنگ طول پکڑے تو امریکا کو زیادہ فائدہ پہنچے گا‘ مگر اس سے بڑھ کر بنیادی سوال یہ ہے کہ اب کوئی بھی جنگ چھیڑنا اور پھر اسے طول دینا امریکا کے لیے ممکن بھی ہے؟ جن ممالک پر امریکا تکیہ کرتا رہا ہے وہ بھی اپنی راہ بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یورپ تو ایک طرف ہو ہی چکا ہے‘ پاکستان جیسے ''روایتی حلیف‘‘ بھی دوستی کے نام پر گلے میں غلامی کا پٹّا مزید ڈالے رکھنے کو تیار نہیں۔
امریکا کے لیے بنیادی مسئلہ چینی معیشت ہے‘ جس نے ایک قیامت ڈھا رکھی ہے۔ یورپ اور امریکا دونوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ تجارتی خسارے اور ادائیگیوں کے توازن میں در آنے والی خرابیوں کو کس طور دور کیا جائے۔ اور دور کرنا تو دور کا معاملہ رہا‘ فی الحال تو اُن پر قابو پانا بھی ممکن نہیں ہو پارہا۔ یہ بات امریکی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بھی وسیع البنیاد جنگ کے چھیڑے جانے پر مغربی بحرالکاہل کا خطہ میدانِ جنگ بن جائے گا جس سے علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کو غیر معمولی نقصان پہنچے گا۔ ایسی صورت میں خود امریکا کیے لیے بھی سنبھلنا ممکن نہ رہے گا۔ جنگ کی صورت میں چین کے لیے سمندر کے راستے توانائی کی رسد بھی بُری طرح متاثر ہوگی مگر خیر‘ ایسی ہی خرابیاں امریکا کے لیے بھی تو پیدا ہوں گی۔
صورتِ حال کی پیچیدگی نے امریکی قیادت کو شدید مخمصے میں ڈل رکھا ہے۔ اب اُس کے پاس حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہونے کے سوا آپشن نہیں بچا۔ واحد سپر پاور کا نشا ٹوٹ رہا ہے۔ ایسے میں ذرا سی بے عقلی اچھا خاصا بگاڑ پیدا کر گزرے گی اور اس بگاڑ سے بچنا خود امریکا کے لیے کسی طور ممکن نہ ہوگا؛ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ جاپان کو ساتھ ملاکر وہ چین کو زیادہ دیر دباسکے گا تو کہا جاسکتا ہے کہ دانائی کی پُکار پر لبیک کہنے کے بارے میں اب تک نہیں سوچا جارہا۔