ایسا بے ساختہ کون ملے گا ۔ زندگی بھر اب ایسا بے ساختہ کون ملے گا ۔ وہ سانچے ہی باقی نہ رہے ‘ جن میں ایسے فرزند ڈھلا کرتے ۔
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
سانحہ ٔ ساہیوال کے سائے اور ڈاکٹر آصف کا انتقال
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پر نم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے
پانچ سالہ پوتے کو گود میں لیے ڈاکٹر صاحب تشریف فرما تھے ۔ بولے : بچّوں کو ماں باپ ڈسپلن میں ڈھالنے پر تلے رہتے ہیں ۔ بچوں کو سختی سے نہیں سکھایا جا سکتا ۔ لہجے میں ممتا تھی ۔ قسّامِ ازل نے ڈاکٹر صاحب کی مٹی دودھ اور شہد سے گوندھی تھی ۔ عرض کیا : ڈاکٹر صاحب پائوں کے انگوٹھے میں درد کی لہر ہے۔ وہ کھلکھلا کر ہنسے : یورک ایسڈ ہے ‘ یورک ایسڈ ۔پھر بولے : دوستوں سے کنارہ کشی کا یہی انجام ہونا تھا ۔ بہت دن سے میں تمہیں یاد کر رہا تھا ۔ اب آئے ہو نا۔ دوائیں تجویز کیں ‘ پرہیز بھی ۔پھر جیتی جاگتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا : کوئی دن میں بھلے چنگے ہو جائو گے ۔ یہی زندگی ہے ۔
جنوری 2019ء کا اوائل ۔ کہر اور دھوپ کے دو موسم اور بیت گئے ۔ شب نیند نہ آتی ‘ دن بھر غنودگی طاری رہتی ۔ عدنان عادل سے مشورہ کیا ''ارے‘ ارے‘‘ انہوں نے کہا :فوراً کسی اچھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرائیے ۔ یہ کولیسٹرول بڑھنے یا کسی دوسری بیماری کے آثار ہیں ۔ چغتائی لیب والے مشہور ڈاکٹر چغتائی کو فون کیا ۔ شتابی سے کسی کو بھیجا ۔ خون کے چند قطرے ‘ دو تین گھنٹے میں تحقیق مکمل ہو گئی ۔ بھاگم بھاگ میاں محمد خالد حسین کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا ۔اسی قہقہے سے خیر مقدم ۔ وہی شادمانی ‘ وہی جملہ : دوستوں سے دور رہو گے تو یہی ہوگا ۔ تین صفحات پر پھیلی رپورٹ کو انہماک سے دیکھتے رہے : تھائی رائڈ ہے ‘ شوگر بڑھ گئی ہے ‘ وٹامن ڈی خطرناک حد تک کم ہے ۔ اسی کے نتیجے میں غنودگی ‘ اسی کے نتیجے میں معدہ کمزور ۔ شکر چھوڑ دو ‘ پیدل چلنے کی عادت ڈالو ‘ پانی زیادہ پیا کرو اور یہ ہیں دو عدد دوائیں ۔ ''کب تک‘ کتنے دن ڈاکٹر صاحب ؟‘‘ وہ پھر ہنسے ''ساری عمر‘ میری جان ساری عمر۔ وٹامن ڈی سے اب چھٹکارا نہیں ۔ تھائی رائڈ کی دوا بھی بہت دن کھانا ہوگی ۔ خوب پانی پیو ۔ واک روزانہ اور مستقل دوستوں سے رہ و رسم ۔‘‘ وہی بانک پن ‘ وہی طرح داری ‘ وہی ابلتی ہوئی امید ‘ جاگتی ہوئی زندگی۔
شفا تو جب ہوگی‘ تب ہوگی‘ امید لوٹ آئی ۔پارسا بہت دیکھے ‘ ایسا زندہ دل ‘ ایسا بے ساختہ اور ایسا بے ریا کوئی نہ دیکھا ۔ جدائی کا غم ہے‘ اس پہ سوا یہ غم کہ جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ گجرات کے ایک کالج کی سالانہ تقریب میں شرکت کا وعدہ تھا ۔ صبح سویرے روانہ ہوا ۔ گوجرانوالہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ تقریب تو اگلے سوموار کو ہے ۔ اسلام آباد میں کئی ایک دوستوں سے ملاقات کا پیمان کر رکھا تھا ۔ قبرستان لوٹ جانا اب مشکل تھا ۔وہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا‘ جس پہ شاعر نے کہا تھا:
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
رسم ورہِ دنیا سے کسی کو بے نیاز دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کو ۔ کھلکھلاتا ہوا ظاہر اور آسودہ باطن ۔ زاہدوں کو زعم برباد کیا کرتاہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو دکھاوا چھو کر نہ گزرا تھا ۔
بارہ تیرہ سال ادھر کی بات ہے ۔ پوچھا: ڈاکٹر صاحب مزنگ میں مقیم تھے ‘ پتنگ بازی تو فرماتے ہوں گے ؟ '' لو جی ‘ پتنگ بازی؟ ارے بھائی تاک جھانک بھی ‘‘۔ کہا : ایک دن کوٹھے کی چھت پہ میری پتنگ کسی نے کاٹ ڈالی ۔ میں حیران کہ اس محلے میں ایسا ہنر مند کون ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو والد صاحب۔ پھر وہی قہقہہ ۔ زعمِ تقویٰ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بہت ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس پڑوس میں گنوار پن بہت تھا‘ مگر شکایت کا ایک لفظ زبان پر نہ لاتے ۔ دوسروں کی نہیں ‘ انہیں اپنی فکر لاحق تھی ۔ صبح سے شام اور شام سے سحر تک معاشرے کے غم میں گھلنے والے بہت ‘ اپنے باطن کے نگہبان کم۔ پاس پڑوس کی خرابیوں کا تذکرہ ڈاکٹر صاحب کو بہت گوارا نہ تھا ۔ غیبت سے دہن آلودہ نہ کرتے ۔ فقیر منش میاں طفیل محمد کے داماد تھے ؛چنانچہ جماعتِ اسلامی والوں سے واسطہ‘ مگر وعظ سے گریز ۔ میاں صاحب کے جانشینوں سے شاد نہ تھے ‘مگر مذمت اور تحقیر ان کا شعار نہ تھا ۔ کسی کی خامی کا ذکر ہوتا تو سرسری سے گزر جاتے ''ارے بھائی‘ یہ نئی دنیا کے لوگ ہیں ‘‘ معالج ایسے کہ سبحان اللہ۔ ایک بار جو شخص اورخاندان ان سے وابستہ ہوا ‘ بس ہو گیا۔ یہ ناچیز تو فیس کی با ت کبھی زبان پہ لانے کی جسارت نہ کر سکا ۔ ظاہر ہے کہ دوسروں کے باب میں بھی فیاض ہوں گے ۔ افراد پہ طنز نہیں ‘ وہ صورتِ حال سے مزاح پیدا کرتے ۔ 1950ء کے عشرے میں اپنے مرحوم والد کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ملازم کا حوالہ دیا ۔کہا : رشید کوچبان سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے ۔ ایک دن ہلکی سی تنبیہہ کی تو اس نے کہا : میاں صاحب !اگر یہ بات ہے تو آپ مجھے استعفیٰ دے دیجیے ۔ پھر وہی فلک شگاف قہقہہ ۔ اب یہ قہقہہ کون برسائے گا ؟ کون دوسرا ہے ‘ جس کا قلب آئینے کی طرح شفاف ہو ۔
خاموش ہو گیا چمن بولتا ہوا
دوا تجویز کر چکے تو رکنے کو کہا ۔ صاحبزادے کے منتظر تھے‘ جو خود ایک نامور معالج ہے ۔ کہا: ڈاکٹر افلاک کو آنے دو ۔ اس سے مشورہ ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں رگِ ظرافت کب نہ پھڑکتی ۔ میں نے کہا : عجیب سانام ہے ‘ افلاک۔ کس نے تجویز کیا تھا ۔ سینے پر ہاتھ رکھا ‘ ذرا سا جھکے اور بولے : اس گناہ گار نے جناب‘ اس گناہ گار نے ۔ ڈاکٹر افلاک آئے تو یہ قصہ انہیں بھی سنایا ۔ افلاک صاحب نے رپورٹ دیکھی ‘ نسخے کا جائزہ لیا اور صاد کیا ۔ اب وہ مطمئن ہوئے ۔ پھر ٹیپ کا وہی بند : ہارون بھائی ہم سے دور رہو گے تو یہی ہوگا۔ ہماری بھی اللہ سنتا ہے ۔ تین چار دن میں خبر آئی کہ ہسپتال میں ہیں ۔ عمر بڑھ گئی تھی ۔ آئے دن خرابی ہوتی‘ لیکن وہی مسکراتا چہرہ ‘وہی تابناکی۔ ناچیز خود نڈھال‘ ہسپتال نہ جا سکا ۔ ڈاکٹر افلاک سے کہا: سرکار ؐ کا فرمان ہے :چالیس مرتبہ مریض کو آیتِ کریمہ پڑھنی چاہیے ۔ جلد شفا ہوگی ‘ورنہ اسی کو پڑھتا ہوا جنت میں چلا جائے گا ۔ افلاک صاحب نے پیغام بھیجا : ورد جاری ہے ‘ اللہ آپ کو جزا دے ۔ ایسی وضع داری !
سانحہ ٔ ساہیوال کے سائے اور ڈاکٹر صاحب کی وفات ۔ جنتی آدمی اپنے اللہ کے سائے میں جا بسا۔ پروردگار ان کے درجات بلند کرے ۔ دل آج ویرانہ سا ہو گیا ۔ دور دور تک جس میں سبزہ و گل کے آثار نہیں ۔ ایک روشن چراغ تھا ‘ نہ رہا ۔ ایک عالی دماغ تھا‘ نہ رہا ۔
ابھی ابھی انہی کنجوں میں اس کے سائے تھے
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں
ہمیں خبر ہے بڑے حلم و آبرو والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
ایسا بے ساختہ کون ملے گا ۔ زندگی بھر اب ایسا بے ساختہ کون ملے گا ۔ وہ سانچے ہی باقی نہ رہے ‘ جن میں ایسے فرزند ڈھلا کرتے ۔
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی