تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     22-01-2019

یہ وہ سحر تو نہیں؟

لوگوںکو بہترین حکمرانی کی برکات سے بہرہ ور کرنے کی خاطرپی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے 2013 ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن اور2014 ء میں رائٹ ٹو پبلک سروسز ایکٹ منظور کر کے دو نئے ڈپارٹمنٹ تخلیق کئے۔رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا شمار اگرچہ دنیا کے ٹاپ ٹین قوانین میں ہوا‘ لیکن ہمیشہ کی طرح ہمارے ذہنی جمود کے باعث اس سمت میںمناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ نے 2017ء کی رپوٹ میں آرٹی آئی کی کارکردگی کو خیبر پختونخوا کے تمام محکموں سے کم تر پایا‘ حالانکہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت شہریوں کو آسان طریقے سے انفارمیشن کے حصول کا اس قدر وسیع اختیار دیا گیا تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔آرٹی آئی قانون کے تحت کوئی بھی شہری دفاعی امور‘انٹیلی جنس اداروں کی حساس معلومات اور پولیس کی کارکردگی کے سوا باقی تمام محکموں کے فنڈز‘افرادی قوت اور کارگزاری بارے معلومات لے سکتا ہے۔ہر محکمہ کا پی آئی او کسی بھی شہری کی سادہ کاغذ پہ لکھی درخواست پر دس دن کے اندر درکار انفارمیشن دینے کا پابند ہے۔20 صفحات کا مواد کنزیومر کو مفت‘ بیس سے زیادہ صفحات کے لئے درخواست گزار سے مارکیٹ ریٹ کے مطابق چارجز لئے جاتے ہیں۔اسی طرح رائٹ ٹو پبلک سروسز ایکٹ کے تحت مجموعی طور پہ19 خدمات کی ہموار فراہمی کا نظام تشکیل دیا گیا‘جن میں ایف آئی آر کا اندراج‘ ڈومیسائل اور فردجائیدادکا حصول‘نقشہ مکان‘ گاڑی کی رجسٹریشن‘اسلحہ و ڈرائیونگ لائسنس کا بروقت حصول شامل ہیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن اور رائٹ ٹو سروسز جیسے مؤثر قوانین کے باوجود عملاً ان خدمات کے حصول اور اطلاعات تک رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور نہیں ہو سکیں۔ایف آئی آر کا اندارج آج بھی اتنا ہی دشوار ہے جتنا پہلے تھا‘خیبر پختونخوا کے چھوٹے بڑے شہروں میں موٹرسائیکل چوری کے علاوہ گھروں‘دکانوں اور جانوروں کی چوری کی روزانہ درجنوں وارداتیں ہوتی ہیں‘ جن کا تھانوں میں اندراج نہیں ہوتا۔1998ء تک پولیس چیف سیکرٹری اور ہوم ڈپارٹمنٹ کو جوابدہ تھی لیکن 2002 ء کے پولیس آرڈیننس کے ذریعے ملک بھر کی پولیس کو سویلین ایڈمنسٹریٹو سسٹم کی بالادستی سے آزاد کرا لیا گیا‘تاہم پھر بھی آئی جی پی وزیراعلیٰ کو جوابدہ تھا‘ لیکن خیبر پختونخوا میں پولیس ایکٹ 2017 ء کے نفاذ کے بعد آئی جی پی وزیراعلیٰ کی نگرانی سے بھی آزاد ہو گیا‘اس لئے رائٹ ٹو سروسز ایکٹ کے تحت ایف آئی آر کا اندراج اور ڈرائیونگ لائسنس کا حصول پولیس کے رحم وکرم پہ رہے گا۔ریونیو ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن میں تاخیر کی وجہ سے مینول ریونیو ریکارڈ میں پٹواری کی اجارہ داری ختم نہیں ہو سکتی ۔بہترین قوانین کی موجودگی کے باوجود عملاً کسی شہری کے لئے بغیر کچھ لئے دیئے فرد جائیداد کا حصول آسان نہیں۔ابھی تک ہمارا قانونی نظام فردبدّل کی تلافی کا کوئی میکانزم بنانے میںکامیاب نہیں ہوا‘جس میں پٹواری کی غلطی سے اگر ریکارڈ میں ردّ وبدل ہو جائے تو مالک جائیداد کو تصحیح کی خاطر اسی پٹواری کو لاکھوں کی رشوت دینا پڑتی ہے۔ضلعی انتظامیہ ڈومیسائل کا ریکارڈ رکھتی ہے نہ ڈومیسائل کے حصول کا قانونی نظام فول پروف ہے۔اکثر لوگوںکے پاس دو ڈومیسائل ہیں اور ہزاروں افغان مہاجرین آسانی سے ڈومیسائل حاصل کر کے مقامی لوگوں کے شہری حقوق غصب کر رہے ہیں۔شہری حدود میں دکانوں اور مکانات کے نقشہ جات کی منظوری کا عمل بھی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہے ۔نجی بلڈنگز کے نقشوں کی منظوری کا نظام اس قدر فرسودہ نکلاکہ کوئی بھی شخص تھوڑی سی رشوت کے عوض باآسانی ایسا نقشہ منظور کرا لے گا جس میں وہ کسی دوسرے کی پراپرٹی یا سرکاری اراضی کو اپنی تعمیرات کا حصہ بنا لے۔پچھلی سات دہائیوں کے دوران ہمارا معاشرہ وہ بنیادی حقوق‘قانونی تحفظ‘سماجی انصاف اور سیاسی استحکام کھو بیٹھا‘جو اسے دورِ غلامی میں حاصل تھے۔ستر سالوں میں سرکاری ادارے بتدریج زوال پذیر‘گورنمنٹ کی رِٹ کمزور اور سوسائٹی پراگندہ ہوتی گئی۔سوال یہ ہے کہ پون صدی سے ہم جس جنتِ ارضی کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ ہمیں ملتی کیوں نہیں؟دنیا کے ہر معاشرے نے بنیادی حقوق کی بحالی اور سماجی نظم وضبط کے قیام کی جدوجہد کے ذریعے بالآخر بہترین حکمرانی کی منزل کو پا لیا لیکن ہمارا سماج مختلف ادوار میں‘اچھی حکمرانی کے حصول کی خاطر‘ کی گئی جدوجہد کو بامقصد بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا‘جس آزادی کے رومانس میں ہم ایک الگ مملکت کے قیام تک پہنچے‘حالات کے جبر نے ابھی تک ہمیں اس رومانوی آزادی کی روح سے لطف اندوز ہونے کی مہلت نہیں دی۔
بدقسمتی سے اسی اچھی حکمرانی کے حصول کی کوشش کے دوران ابتدائی پچیس سالوں میں دو بار آئین بنا کے اسے کئی بار توڑا اور اسی ادھیڑ بُن میں آخر کار آدھا ملک گنوا بیٹھے۔1973ء کے آئین کے ذریعے ملک کو پارلیمانی جمہوریت کی راہ پہ ڈال کے بنیادی حقوق اورسیاسی آزادیوں کی ضمانت دی گئی‘ لیکن آئینی نظام کی موجودگی کے الرغم کسی انجانے خوف نے سیاسی ماحول میں اضطراب برپا رکھ کے ہمیں عیاں بلذات حقائق پہ شک کرنے کا خوگر بنا دیا؛چنانچہ انہی اندیشہ ہائے دور دراز نے 73 ء کے آئین کے خالق زیڈ اے بھٹو کے عہد میں بھی عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی روکے رکھی۔جمہوری طرز حکمرانی کو باطل قرار دیکر نظام مصطفٰے کے نفاذ کی تحریک چلائی گئی‘ جس کے نفسیاتی اثرات نے اس ملک کے پہلے متفقہ جمہوری آئین کے تحفظ کے احساس کو چوس لیا‘ لہٰذاآئینی نظام کو بچانے کی بجائے‘پانچ جولائی 1977ء کو جب ضیا الحق نے آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا تو اس بدقسمت قوم نے لڈو بانٹے۔عام لوگوں کو تو چھوڑیئے ملک کی انتہائی باشعور سیاسی لیڈر شپ اور مذہبی زعمامیں سے کسی ایک نے بھی آئینی نظام کی موت پہ آنسو نہ بہائے۔ضیا الحق کی دس سالہ آمریت کے دوران درجنوں الّم غلّم قوانین بنا کے 73ء کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بدل کے سیاسی نظام کی نئی صورت گری کی جاتی رہی‘ مگر قومی لیڈر شپ خاموش رہی۔
آمریت کے بحران بڑھنے پہ لوگوں نے ایک بار پھر جمہوریت کی کوتاہیاں بھلا دیں‘ آمریت کے خاتمہ کی خواہش کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو 1988ء میں ایک بار پھر جمہوری دور کا آغاز ہوا جس میں قانون سازی کے پہلو بہ پہلو ایک نامطلوب کشمکش نے فکری ارتقاکو روک کے ہمیں جمہوری آزادیوں کی لذت سے ناآشنا رکھا۔اس چینی ضرب المثل کے مصداق کہ جو قوم بہت سے قوانین بنانا شروع کر دے سمجھ لو اس پہ بڑھاپا آ رہا ہے‘ہم قوانین بناتے بناتے بوڑھے ہو گئے‘ مگر ہمیں احساسِ تحفظ ملا نہ ریاستی نظم و ضبط کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے۔اب بھی پورا آئینی نظام اور ہر قانونی پیشقدمی سکیورٹی میکانزم کے محور میں گھومنے پہ مجبور نظر آتی ہے اور آج بھی ہم بنیادی حقوق کی فراہمی اور بہتر طرزِ حکمرانی کے لئے آر ٹی آئی اور رائٹ ٹو سروسز ایکٹ متعارف کرانے میں مشغول ہیں۔وسیع علم کے باوجود ہم اپنے مقاصد اپنی اقدار اور منصوبوں کے متعلق کوئی پختہ یقین نہیں رکھتے‘آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں‘چودہ اگست1947ء کو جہاں سے اجتماعی سفر کی ابتدا کی تھی‘آج بھی ہمیں انہیں سوالات کا سامنا ہے جو آزادی کے پہلے دن درپیش تھے۔سوال وہی ہیں جو اہلِ دانش نے 1956ء اور 1962ء کے آئین سے نجات کے لئے اٹھائے۔1973ء کا آئین تھک چکا ہے‘اسے کچھ آرام کرنے دیا جائے؟پارلیمانی نظام حکومت کامیاب نہیں ہو سکا‘ ایک بار پھر صدارتی طرز حکومت کو آزمایا جائے؟سیاسی آزادیوں کی حدود و قیود کے ازسرنو تعین کے علاوہ میڈیا کی آزادی کو ری ڈیفائین کرنے کی بحث چھڑ گئی۔یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر‘وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved