تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     22-01-2019

دعوتِ حق کی ذمہ دار امت!

دعوت حق ایک فریضہ ہے‘ مگر یہ آسان نہیں کٹھن کام ہے۔ یہ اصل میں کارِ انبیا ہے۔ انبیا نے اپنے اپنے دور میں اس کا حق ادا کیا۔ اکثر انبیا کی امتوں نے ان کی دعوت کا انکار کیا۔ انبیا کے سلسلۂ زریں کی آخری کڑی ختمی مرتبت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپؐ اللہ کے دین کو غالب کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ اب یہ مشکل فریضہ اس امت کی ذمہ داری ہے۔ اس راستے کی مشکلات کا نقشہ اقبالؔ نے یوں کھینچا تھا:
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لَا اِلٰہ را
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو خالصتاً اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ قرآن میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات۵۱:۵۶) میں نے جنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ 
انسانوں اور جنّوں کو آزادی دی گئی کہ وہ شعوری طور پر اللہ کی اطاعت کے راستے پر چلنا چاہیں تو چلیں‘ اس کا انجام اللہ کی رضا اور جنت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرنا چاہیں تو زبردستی ان کو ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ وہ نافرمانی کا راستہ اپنائیں تو یہ سمجھ لیں کہ اس کا انجام اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ ہوگا۔ اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ تمام انبیائے کرام نے ایک اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اور شریعت کی تکمیل ہوئی تو آپؐ نے بھی اللہ کا یہ حکم لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ آپؐ اور آپؐ کے پیروکار روشنی میں ہیں‘ اندھیرے میں نہیں اور وہ کسی اور جانب دعوت نہیں دیتے‘ بلکہ خالصتاً اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ ہَـذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓ إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَآ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یوسف۱۲:۱۰۸)
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں‘ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمدشفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ''مطلب یہ ہے کہ میری یہ دعوت کسی سرسری نظر پر مبنی نہیں بلکہ پوری بصیرت اور عقل وحکمت کا ثمرہ ہے۔ اس دعوت وبصیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین اور پیروؤں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد صحابہ کرامؓ ہیں جو علومِ رسالت کے خزانے اور خداوند سبحانہ وتعالیٰ کے سپاہی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس تمام امت کے بہترین افراد ہیں جن کے قلوب پاک اور علم گہرا ہے‘ تکلف کا ان میں نام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی صحبت وخدمت اور اقامت کے لیے منتخب فرمالیا ہے‘ تم انھی کے اخلاق وعادات اور طریقوں کو سیکھو‘ کیونکہ وہی سیدھے راستے پر ہیں۔ 
اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مَنِ اتَّبَعَنِیْ عام ہوہر اس شخص کے لیے جو قیامت تک دعوتِ رسولؐ کو امت تک پہنچانے کی خدمت میں مشغول ہو‘ کلبی اور ابن زید نے فرمایا کہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت کو لوگوں میں پھیلائے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرے۔ (مظہری)
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَآ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یعنی شرک سے پاک ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ اوپر چونکہ یہ ذکر آیا تھا کہ اکثر لوگ جب اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں‘ تو اس کے ساتھ شرک جلی یا خفی ملادیتے ہیں‘ اس لیے شرک سے اپنی بالکل برأت کا اعلان فرمایا‘ خلاصہ یہ ہے کہ میری دعوت کا یہ مطلب نہیں کہ میں لوگوں کو اپنا بندہ بناؤں‘ بلکہ میں خود بھی اللہ کا بندہ ہوں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں؛ البتہ بحیثیت داعی مجھ پر ایمان لانا فرض ہے۔‘‘ (معارف القرآن‘ ج۵‘ ص۱۴۴-۱۴۵)
دعوتِ اسلامی کارِ انبیا ہے۔ انبیا ورسل کی بعثت اور وحی کے ذریعے نزول کتب کا مقصد انسانوں کے سامنے حق وباطل کو واضح کرنا اور راہِ راست پہ چلنے کی تعلیم دینا تھا۔ اس عظیم منبع رشد وہدایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے انسان کے اندر ضمیر کی شمع بھی روشن کی۔ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ نفسِ لوّامہ ہے۔ یہ شمع بلاشبہ بڑی قیمتی اور موثر ہے‘ مگر یہ بذات خود کافی اور کامل نہیں ہے۔ ربِّ کائنات نے اس شمع کے ساتھ ساتھ آفتابِ ہدایت بصورت وحی انسانیت کو عطا کرکے ضلالت کے اندھیروں کو مستقل طو رپر دور کردیا تاکہ وہ نفسِ مطمئنّہ کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔ انبیاؑ نے اپنے فرائض بطریق احسن ادا کیے اور حق وباطل کو کھول کر بیان کردیا۔ چونکہ انسان کو نفسِ لوّامہ کے ساتھ ساتھ نفسِ امّارہ کی آزمایش سے بھی دوچار کیا گیا ہے‘ اس لیے انسانوں کی قلیل تعداد ہی نے حق کا ساتھ دیا اور اکثریت نے نفسِ امّارہ کے زیر اثر روگردانی‘ بے اعتنائی‘ بغاوت اور عداوت کا راستہ اپنایا۔ 
سلسلہ انبیاحضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوچکا ہے۔ آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول۔ آپؐ پر نبوت ختم ہوئی ہے اور امت مسلمہ پر تمام امتوں کا اختتام ہوا ہے۔ جس طرح کوئی نیا نبی نہیں آئے گا‘ اسی طرح کوئی نئی امت بھی نہیں آسکتی۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے‘ وہ ملعون‘ جھوٹا‘ کافر اور جہنمی ہے۔ یہی نہیں اسے جھوٹا نہ کہنے والا بھی اسلام سے خارج ہوتا ہے‘ کیونکہ یہ مسئلہ قرآن وسنت میں بالکل واضح طور پر بیان کردیا گیا اور اس پر پوری امت میں روز اول سے لے کر آج تک مکمل اجماع ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا تھا: 
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
اْو رْسل را ختم و ما اقوام را
رسولِ رحمتؐ نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں ؛البتہ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں ایسے لوگ اس امت میں اٹھاتا رہے گا‘ جو تجدیدِ دین کا کام سرانجام دیں گے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے‘ جو سنن ابوداؤد میں نقل ہوئی ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: ان اللّٰہ یبعث لہٰذہ الامۃ علٰی رأس کل مأۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا۔ (سنن ابوداؤد‘ کتاب الملاحم‘ باب۱‘ ح۴۲۹۱) اللہ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لیے ایسے لوگ اٹھاتا رہے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو تازہ کریں گے۔ 
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی معرکہ آرا کتاب تجدید واحیائے دین میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
''اس حدیث سے بعض لوگوں نے تجدید اور مجدّدین کا بالکل ہی ایک غلط تصور اخذ کر لیا۔ انھوں نے علٰی رأس کل مأۃ سے صدی کا آغاز یا اختتام مراد لے لیا‘ اور یجدد لہا کا مطلب یہ سمجھا کہ اس سے مراد لازماً کوئی ایک ہی شخص ہے۔ اس بنا پر انہوں نے تلاش کرنا شروع کردیا کہ اسلام کی پچھلی تاریخوں میں کون کون ایسے اشخاص ملتے ہیں جو ایک ایک صدی کے آغاز یا اختتام پر پیدا ہوئے یا مرے ہوں اور انھوں نے تجدید دین کا کام بھی کیا ہو؛ حالانکہ نہ رأس کے معنی سر کے ہیں اور صدی کے سر پر کسی شخص یا گروہ کے اٹھائے جانے کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وہ اپنے دَور کے علوم‘ افکار اور رفتارِ عمل پر نمایاں اثر ڈالے گا اور مَنْ کا لفظ عربی زبان میں واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے مَن سے مراد ایک شخص بھی ہوسکتا ہے‘ بہت سے اشخاص بھی ہوسکتے ہیں اور پورے پورے ادارے اور گروہ بھی ہوسکتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبردی ہے اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ان شاء اللہ اسلامی تاریخ کی کوئی صدی ایسے لوگوں سے خالی نہ گزرے گی جو طوفانِ جاہلیت کے مقابلے میں اٹھیں گے اور اسلام کو اس کی اصلی روح اور صورت میں ازسرِنو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخض ہو۔ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔‘‘ (تجدید واحیائے دین‘ ص۴۲-۴۳‘ طبع۱۹۸۶ئ)
دعوت حق کا اہم فریضہ آپؐ کی امت کے سپرد کیا گیا ہے۔ امت نے زوال پذیری کے تحت بحیثیت مجموعی‘ عمومی طورپر اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں تساہل ہی نہیں برتا‘ بلکہ ایک کثیر تعداد نے اس کے ساتھ معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ اس کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس امت میں ہر دور اور ہر ملک اور علاقے میں کچھ لوگ ہمیشہ ایسے موجود رہے ہیں‘ جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی یہ فریضہ انجام دیا۔ یہ لوگ نبی اور رسول نہیں ہوتے‘ بلکہ مجد دین یا ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والے مخلص مومنین ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved