تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-01-2019

ماڈل ٹائون‘کراچی اور ساہیوال

تین روز سے پاکستان کے ارد گرد سیٹیلائٹ کے ذریعے محو ِسفر ہر ٹی وی سکرین پر ساہیوال میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے کم عمر بچے اور ان کے ماں باپ کی دردناک موت پر ہر گھر میں خون کے آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ پاکستان کی عوام اب کسی بھی ظلم اور زیا دتی کے خلاف خاموش رہنا اخلاقی جرم سمجھتی ہے۔ کسی بھی محفل میں چلے جائیں ‘جہاں بھی چار لوگ اکٹھے ہوں‘ چاردن قبل رونما ہونے والا ساہیوال کا واقعہ زیر بحث ہے اور ہونا بھی چاہئے‘ کیونکہ یہ زندہ معاشرے کی نشانی ہے‘ لیکن میرا ایک سوال ہے کہ کیا ماڈل ٹائون میں شہید کئے گئے14 افراد اور کراچی میں نقیب اﷲ محسود کی قبروں پر ڈالے گئے پھولوں کی پتیوں کو اپنے جوتوں تلے بے دردی سے روندنے والے ساہیوال کے واقعہ پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اچھے لگتے ہیں ؟
کیا ہم تنزیلہ اور شازیہ شہید کی چند انچ کے فاصلے سے حکم خاص کی تکمیل میں برسائی گئی گولیوں کی بارش سے پاک اور معصوم خواتین کے ادھڑے ہوئے چہرے بھول چکے ہیں ؟ کیا تنزیلہ شہید کی کوکھ میں دنیا میں آنے کی منتظر اس ننھی روح کے قاتلوں کو سب نے بھلا دیا ہے؟ حمزہ شہباز سے خورشید شاہ اور بلاول سے زرداری اور مریم سے رانا ثنا اﷲ اور شہباز شریف کس منہ سے پولیس کے ظلم کی داستانیں سنا رہے ہیں؟ ارے با با‘ یہ وہی پولیس ہے جسے آپ نے اپنے دس برسوں کی حکومت میں اپنی مرضی سے بھرتی کرنے کے بعد اپنے مقاصد کیلئے تیار کیا؟ لگتا ہے کہ ان کا یقین محکم ہے کہ پاکستان اور خاص طور پنجاب کی عوام کے حافظے انہوں نے اس قدر کمزور کر دیئے ہیں کہ وہ ان کی چند دن پہلے کے ہر کرتوت کو بھلا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عابد باکسر کا کیس بھی اپنے خصوصی افسران کے ذریعے دبا کر بیٹھ گئے ہیں جس میں نہ جانے سبزہ زار کے پانچ بھائیوں سمیت کتنے ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جنہیں خادم اعلیٰ نے جعلی پولیس مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتار نے کا رنجیت شاہی حکم دیا تھا۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ خورشید شاہ اور جناب بلاول زرداری جب ساہیوال واقعہ پر ٹسوے بہا رہے تھے‘ تو رائو انوار اس وقت ان کے بلاول ہائوس میں تازہ پھلوں کے جوس نوش فرما رہا تھا اور نقیب اﷲ محسود شہید کا باپ اپنی بیٹے کی کراچی پولیس کے ہاتھوں شہا دت پر آنسو بہا رہا تھا اور اسی و قت کراچی ‘بہادر آباد میں ایک نوجوان میاں بیوی پولیس کی گولیوں کا شکار ہونے کے بعد جناح ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں آپریشن تھیٹر پر لیٹے ہوئے تھے۔ ساہیوال واقعہ پر بلاول اور میاں شہباز شریف کی وزیر اعظم عمران خان کے طعنہ زنی کی گردان سنتے ہوئے بے ساختہ کہنا پڑا کہ ''کچھ شرم ہوتی ہے‘ کچھ حیا ہوتی ہے‘‘۔ 
کراچی سمیت سندھ بھر اور گزشتہ دس برس میں ہر روز کرائے جانے والے جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے اپنے تمام ذاتی ا ور سیا سی مخالفین کو موت کی نیند سلاکر اپنی مونچھوں کو فخریہ تائو دینے والے بہت سے مبینہ قاتل بھی ٹی وی سکرینوں کے گرد بیٹھے گلے پھاڑ پھاڑ کر پنجاب میں پولیس کی زیا دتی اورسفاکی کا رونا روتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کس منہ سے بولتے ہیں ؟ ساہیوال میں جو کچھ بے دردی سے کیا گیا ‘اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا‘ لیکن اس کی آڑ میں‘ اگر آپ ذاتی غصے اور انتقام کی پیاس بھجانے کیلئے راستے بلاک کریں گے‘ توڑ پھوڑ کریں گے‘ تو پھر سوال تو ہو گا کہ '' دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے دوران اب تک ایک سرکاری ریکارڈ کے مطا بق ؛پچاس سے زائد جعلی اور ذاتی پولیس مقابلے ہو چکے ہیں ‘جبکہ کراچی میں تو کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا‘ جب کسی نہ کسی کو کسی گلی‘ سڑک یا چوراہے یا کسی ویرانے میں گولیاں برسا کر مبینہ طور پر قتل نہ کیا جاتا ہو۔ پنجاب میں گزشتہ دس برس تک حکمرانی کرنے والے راجائوں نے سیالکوٹ ‘ لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں جو جعلی پولیس مقابلے کروائے‘ وہ کس سے پوشیدہ ہیں؟ 
ہنسی تو اس وقت آئی‘ جب رانا ثنا اﷲ ٹی وی کی سکرینوں پر جگہ جگہ گھومتے ہوئے پنجاب حکومت کی نا اہلی اور وزیر اعظم عمران خان پر ساہیوال کے حوالے سے تبرے بھیج رہے تھے۔ ان کو مونچھوں کو لہراتے ہوئے اور تبرے سنتے ہوئے ہمارے استاد محترم گوگا دانشور جو کم ہی بولتے ہی بے ساختہ پکار اٹھے یارو نواز لیگ سے کہو کہ پنجاب میں پولیس گردی یا جعلی پولیس مقابلوں پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بولنے کیلئے اسے کہیں کسی اور کو ان کی جگہ بھجوایا کریں‘ کیونکہ ماڈل ٹائون کی بات تو سب سے بڑا کلنک کا ٹیکہ ہے ہی‘ لیکن فیصل آباد میں نہ جانے کتنے جعلی پولیس مقابلے ریکارڈ پر لکھے جا چکے ہیں ۔ 
شریف برادران کے سب سے قریبی ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ سب کیلئے چونکا دینے والی ہے ‘جس میں فیصل آباد پولیس کے سابق انسپکٹر فرخ وحید نے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے اپنے ایک بیان کے ذریعے درخواست کی تھی کہ وہ فیصل آباد میں گزشتہ دس برس میں ہونے والے تمام پولیس مقابلوں کا ریکارڈ منگوانے کے بعد ایک با اختیار اور غیر جانبدار جے آئی ٹی بنائیں ‘میں اور میرے کچھ ساتھی ‘وہ تمام ریکارڈ پیش کریں گے‘ جس میں رانا ثنا اﷲ ‘ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب اور رانا افضل رکن قومی اسمبلی کی ملی بھگت سے کئے جانے والے تمام پولیس مقابلوں کے بارے میں ان کے احکامات اور کردار کو بے نقاب کریں گے۔ سابق انسپکٹر فرخ وحید نے اخبارسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں رانا ثنا اﷲ کی جانب سے قتل کی دھمکیاںمل رہی ہیں‘ کیونکہ میں ان کے ہر جرم سے واقف ہوں۔
نہ جانے کیا وجہ ہوئی کہ سابق چیف جسٹس نے رانا ثنا اﷲ کے خلاف انسپکٹر فرخ وحید کے اقبالیہ بیانات اور ان کو بھیجے گئے خط پر جے آئی ٹی کیوں نہ بنائی ‘جس کے متعلق مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کیلئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ان پر دبائو تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد آج21 جنوری کو ماڈل ٹائون قتل کیس پر قائم کی گئی جے آئی ٹی نے انہیں طلب کر رکھا ہے ‘لیکن اطلاعات کے مطا بق؛ وہ اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دامن پر جگہ جگہ لگے ہوئے خون کے وہ دھبے صاف کریں‘ جن میں نہ جانے کتنی تنزیلوںاور شازیوں کے خون کے ساتھ ساتھ چند ماہ کی ننھی روح کا خون بھی شامل ہے۔ 
نقیب اﷲ محسود شہید کے والد گرامی نے رائو انوار ٹولے کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی جعلی پولیس مقابلے میں شہا دت کے سلسلے میں چند دن ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں مقدمے کے موقع پر وہاں موجود میڈیا سے اپنی گفتگو میں منظور پشتین اور ولی خان گروپ کے افراسیاب خٹک کی ‘جس طرح خبر لی‘ اس سے ایسا لگا کہ وردی پہننے والے پاکستان کی فوج اور سکیورٹی فورسز کے کسی جوان اور افسر کے دشمن اور اس کے خریدے گئے دہشت گردوں کا صفایا کرتے ہوئے شہید ہونیوالے کا کسی فوجی کا باپ‘ اس کی میت پر کھڑا فخر سے اعلان کر رہا ہے کہ اس کا بیٹا مادرِ وطن کی حرمت اور عزت پر قربان ہو ا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved