تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-01-2019

دھاندلی

ڈاکٹر طارق امین کا شمار برطانیہ میں آنکھوں کے بڑے سرجنوں میں ہوتا ہے۔ پچھلے پینتیس برسوں سے وہاں مقیم ہیں۔ وہیں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہیں نوکری کی اور وہیں پریکٹس شروع کر دی۔ اب یہ اتنے خوشحال ہیں کہ اپنی آمد و رفت کے لیے ایک ہوائی جہاز بھی ان کی ملکیت میں ہے۔ پاکستان سے تعلق کی وجہ سے ہر چند ہفتے بعد یہاں آ جاتے ہیں، دوستوں سے ملتے ہیں، خود گاتے بھی ہیں اور جب کوئی ٹی وی ان کا انٹرویو کرتا ہے تو اس پروگرام میں گانا بھی سناتے ہیں۔ دوستوں کی مجلس ہو، خاموشی کا کوئی وقفہ آ جائے تو کوئی نہ کوئی ان سے گانے کی فرمائش کر دیتا ہے اور محفل میں جان پڑ جاتی ہے۔ پاکستان میں انہوں نے نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کیا، اس کے بعد برطانیہ چلے گئے اور دنیا بھر میں آنکھوں کے علاج کا قبلہ کہلانے والے مُور فیلڈز آئی ہاسپٹل میں کام کرتے رہے۔ پھر اس ہسپتال کے رجسڑار ہو گئے۔ ان کی ذاتی ترقی کا یہ سفر برطانیہ میں بڑی تیزی سے جاری تھا‘ لیکن ان کے دل میں وطن واپسی کی امنگیں بھی انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ ان کے دوستوں ، خاندان والوں ، خیر خواہوں نے انہیں پاکستان واپسی سے باز رکھنے کی کوشش کی، دنیا کے بہترین ڈاکٹرز‘ جو مور فیلڈز میں کام کر رہے تھے‘ انہوں نے مستبقل کا احساس دلایا لیکن طارق امین نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔
بے پناہ امید سے بھرے ڈاکٹر صاحب نے انیس سو اٹھانوے میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا کہ وہ سرکاری شعبے میں عوام کی آنکھوںکی روشنی بنیں گے اور جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے یہاں سکھائیں گے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے انہیں انٹرویو کے لیے بلایا جہاں ایک ریٹائرڈ جرنیل صاحب نے ان کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو پینل میں موجود ڈاکٹر صاحبان تو ڈاکٹر طارق امین کے پیشہ ورانہ مرتبے سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے تو زیادہ سوالات نہیں کیے‘ مگر ریٹائرڈ جنرل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو دعائے قنوت سنانے کے لیے کہا۔ یہ سوال ڈاکٹر صاحب کے لیے عجیب تھا، انہوں نے اپنے ڈاکٹر ہونے کا بتایا، جب جنرل صاحب نے دوبارہ دعائے قنوت سنانے کے لیے کہا‘ تو طارق امین نے دعائے قنوت سنا دی۔ دعائے قنوت سنانے میں لیت و لعل سے کام لینے کی پاداش میں ڈاکٹر صاحب کو پاکستان نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر طارق امین نے ہمت نہ ہاری اور انیس سو ننانوے میں پھر امتحان دیا۔ انٹرویو لینے والوں نے پاکستان کے سیاسی حالات پر گفتگو فرمائی‘ اور سیاست سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو مسترد کر دیا۔ مور فیلڈ آئی ہسپتال کے رجسٹرار نے تیسری بار امتحان دو ہزار میں دیا‘ اب کی بار ان سے انٹرویو میں کہا گیا کہ پاکستان کی تاریخ کو دس دس سال میں تقسیم کر کے بتائیں کہ ہر دس سال میں پاکستان نے کیا کھویا کیا پایا۔ یہ سوال ڈاکٹر طارق امین کی برداشت سے باہر تھا۔ انہوں نے انٹرویو لینے والوں سے مؤدبانہ عرض کی، ''میں نے سیاسی تجزیہ کار یا مؤرخ کے طور پر نوکری کی درخواست نہیں دی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلے اور اگلی فلائیٹ پکڑ کر واپس برطانیہ چلے گئے، جہاں ایک روشن مستقبل ان کا انتظار کر رہا تھا۔ 
طارق امین تو پاکستان کے بھرتی کے نظام سے اٹھارہ برس پہلے ہی بیزار ہو کر یہاں سے مستقلاً چلے گئے تھے‘ لیکن وہ نظام جو دنیا کے بہترین ادارے میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر کو دعائے قنوت، تاریخ پاکستان اور حالات حاضرہ کے سوالات پوچھ کر مسترد کر دیتا ہے، مسلسل بھرتیاں کیے چلے جا رہا ہے۔ وفاق میں ہوں یا صوبے میں، بھرتی کے اس نظام میں بیٹھے ہوئے از کارِ رفتہ بزرجمہروں نے اپنی نالائقی اس طرح چھپا رکھی ہے کہ نائب قاصد سے لے کر اعلیٰ ترین افسر تک منتخب کرنے کے لیے یہ پیشہ ورانہ سوالات کرنے کی بجائے وہ لا یعنی اور لغو پہیلیاں بوجھنے کو کہتے ہیں‘ جن کے جواب صرف انہیں ہی معلوم ہیں۔ اس بے حکمتی کا نتیجہ یہ ہے کہ سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے والے اکثر لوگ ذہنی طور پر نائب قاصد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ جو ہم اپنی یونیورسٹیوں کی بربادی، اداروں کی تباہی اور تعلیمی معیار میں زوال کا مشاہد ہ کر رہے ہیں‘ دراصل یہ انہی لوگوں کا لایا ہوا ہے جن کے ذمے سرکاری ملازموں کا انتخاب ہے۔ ان لوگوں نے کسی قابل شخص کو نظام کے اندر آنے ہی نہیں دیا‘ اور اگر کوئی چکمہ دے کر آ گیا تو آخر کار نوکری چھوڑ کرچلا گیا‘ یا اپنی صلاحیتوں کو چھپا کر کام کرتا رہا۔ یہ انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے کہ اب کوئی با صلاحیت شخص سرکاری ملازمت میں آنا ہی نہیں چاہتا۔ بس نالائقی کا ایک سیلاب ہے جو سرکاری شعبے کو بہا لے جائے جا رہا ہے۔ اسی نظام سے گزر کر استاد بھی آ رہے ہیں جنہیں پڑھانا نہیں آتا، ڈاکٹر بھی آ رہے ہیں جو علاج کی ابجد سے بھی نا واقف ہیں، انجینئر بھی ہیں جو اینٹ پر اینٹ نہیں رکھ سکتے، ٹیکس اکٹھا کرنے والے بھی ہیں جنہیں معیشت کی الف بے بھی معلوم نہیں‘ اور پولیس والے بھی وہ جو نہتے اور بے گناہ لوگوں کو دن دیہاڑے سڑکوں پر مار ڈالتے ہیں۔ 
ایسے اداروں کے ذریعے سرکاری شعبے میں نالائقی کی مسلسل فراہمی کے ساتھ ساتھ جس عذاب میں ہم گرفتار ہیں وہ فی نفسہ سول سروس کا نظام ہے۔ اس نظام کے تحت ہم ایک ایسی عجیب و غریب مخلوق پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں‘ جو کہنے کو دنیا کا ہر کام کر سکتی ہے‘ مگر عملاً کوئی ایک کام بھی نہیں کر سکتی۔ جو شخص سی ایس ایس کا ایک مجہول امتحان پاس کر کے پبلک سروس کمیشن کے اس سے بھی زیادہ مجہول سوالات کا جواب دے لے تو وہ پاور پلانٹ لگانے سے لے کر پودے لگانے تک ہر کام کا اہل ہو جاتا ہے۔ پھر یہ شخص اپنے ادھورے تجربات کے کباڑ خانے کے زور پر پاور پلانٹ بھی لگانے کے قابل ہو جاتا ہے اور پودے لگانے کے بھی۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا کوئی پاور پلانٹ ٹھیک چلتا ہے نہ کوئی پودا ڈھنگ سے اگتا ہے۔ تعلیم درست ہوتی ہے نہ صحت، صنعت کا پہیہ چلتا ہے نہ بازارِ تجارت گرم ہوتا ہے۔ سفارت مناسب رہتی ہے نہ شہروں کا انتظام۔ گویا نا اہلوں کا ایک ہجوم ہے جو مزید نا اہلوں کی سرپرستی کیے چلے جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ اس کوشش کی حالت یہ ہے کہ نااہلی کے اس نظام کو بدلنے کی ذمہ داری ملی بھی تو کس کو؟ ڈاکٹر عشرت حسین کو جو ساری عمر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی کوچہ گردی کے بعد سرکاری خرچے پر ریٹائرمنٹ گزارنے پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے آپ سول سروس میں اصلاحات فرما رہے ہیں اور دھیلے کا کام نہیں کیا۔ 
یہ طے ہے کہ اپنے صلاحیت خور نظام کو بدلے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر واقعی کوئی پاکستان کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف دو کام کرنے ہیں؛ اوّل، پبلک سروس کمیشن کے طریقۂ امتحان کو بدلنا ہے اور دوم، پیشہ ورانہ تعلیم رکھنے والے کو متعلقہ محکمے کا سیکرٹری لگانا ہے۔ جب تک صحت کا شعبہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں، تعلیم کا شعبہ استاد کے ہاتھ میں اور زراعت کا محکمہ ماہر زراعت کے ہاتھ میں نہیں ہو گا، ہم نالائقی کی اس دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ با صلاحیت لوگوں کو نظام میں آنے سے روک دینا اور کم صلاحیت والوں کو بھرتی کیے چلے جانا ایسی دھاندلی ہے جو اگر روکی نہ گئی تو ہمارے سارے ڈاکٹر طارق امین دنیا کے دوسرے ملکوں میں چلے جائیں گے اور یہاں صرف نکمّے رہ جائیں گے۔ نکمّوں میں سے زیادہ نکمّے ہمارے افسر بن کر سب کچھ برباد کر دیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved