ممتاز احمد شیخ کی ادارت میں راولپنڈی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلہ ''لوح‘‘ شائع ہو گیا ہے‘ جو صحیح معنوں میں کتابی سلسلہ ہے‘ یعنی محض رسالہ نہیں ‘بلکہ بڑی تقطیع پر 668 صفحات پر مشتمل ہارڈ بائونڈ کتاب۔ یہ شمارہ نہم دہم جون‘ دسمبر 2018ء ہے اور بیک وقت کئی کتابوں کو محیط۔ سر ورق دید زیب ہے اور کاغذ سفید۔ ابتداء منیر نیازی کے اس مصرعے 'شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو‘ حمد و نعت سے کی گئی ہے‘ جن میں سلیم کوثر ‘ خالد اقبال یاسر‘ نیلم احمد بشیر‘ شاہد حسن‘ احسان اکبر و دیگران شامل ہیں۔ اس کے بعد پطرس بخاری کی غیر مطبوعہ تحریر ہے ‘جو ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے شکریہ کے ساتھ شامل کی گئی ہے۔
اس کے بعد نجم الحسن رضوی کی یاد میں رشید امجد‘ ڈاکٹر اختر شمار اور صدف مرزا کے مضامین ہیں۔ جس کے بعد اسد محمد خاں کے لیے گوشہ ہے ‘جس میں موصوف کی تحریروں کے علاوہ مبین مرزا اور دیگران کے مضامین ہیں۔ افسانوں کے حصے میں رشید امجد‘ سمیع آہوجا‘ اے خیام‘ انور زاہدی‘ محمد حمید شاہد‘ مشرف عالم ذوقی‘ محمد حامد سراج‘ خالد فتح محمد‘ نیم احمد بشیر اور دیگران شامل ہیں۔ حصۂ نظم خاصا طویل ہے‘ جس میں عبدالرشید‘ احسان اکبر‘ امجد اسلام امجد‘ اقبال فہیم جوزی‘ سعادت سعید‘ ابرار احمد‘ ایوب خاور‘ علی محمد فرشی‘ انوار فطرت‘ اقتدار جاوید‘ کرامت بخاری‘ جواد جعفری‘ مقصود وفا‘ فہیم شناس کاظمی‘ ناہید قمر‘ الیاس بابر اعوان‘ شائستہ مفتی اور بے شمار دیگران کی نگارشات شامل کی گئی ہیں۔
حصۂ مضامین میں شمس الرحمن فاروقی‘ فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ ڈاکٹر رئوف پاریکھ‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر‘ ڈاکٹر امجد طفیل‘ مسلم شمیم‘ سلمیٰ اعوان‘ ڈاکٹر محمد افتخارشفیع‘ ڈاکٹر رابعہ سرفراز‘ غافر شہزاد‘ ڈاکٹر ناہید قمر‘ قاسم یعقوب‘ عمر فرحت‘ ڈاکٹر نزہت عباس‘ قندیل بدر اور سعدیہ ممتاز کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ یاد گیری میں ذوالفقار علی بھٹو پر ڈاکٹر قاسم بُگھیو کا مضمون ہے‘ جس کے بعد غزلوں کا ایک طویل سلسلہ ہے‘ جس میں توصیف تبسم‘ انور شعور‘ شمیم صنفی‘ امجد اسلام امجد‘ سرمد صہبائی‘ سلیم کوثر‘ صابر ظفر‘ خالد اقبال یاسر‘ غلام حسین ساجد‘ عباس تابش‘ ناصر کاظمی‘ خالد شریف‘ اجمل سراج‘ منظر بھوپالی‘ طارق نعیم‘ ضیاء الحسن‘ سعد اللہ شاہ‘ احمد سلمان‘ شاہدہ حسن‘ واجد امیر‘ افضل گوہر‘ دانیال طریر‘ کرامت بخاری‘ ریحانہ رُومی‘ الیاس بابر اعوان‘ اشرف سلیم‘ طاہر شیرازی اور دیگر ان شامل ہیں۔
اس کے بعد مستنصر حسین تارڑ کے تازہ ناول کا ایک باب اور محمد الیاس کے ناول کا باب۔ اس کے علاوہ سلسلۂ تراجم ہے اور طنز و مزاح میں ڈاکٹر ایس ایم معین اور ڈاکٹر عزیز رحمن کے مضامین‘ موسیقی پر ڈاکٹر امجد پرویز کا مضمون‘ جبکہ خاکوں میں محبوب ظفر پر محمد عارف کا مضمون ہے‘ جس کے بعد سرمد صہبائی کی کافیاں ہیں اور علی محمد فرشی کے اردوماہیے ہیں‘ جو خاصے کی چیزیں ہیں۔
حصۂ غزل خاصا مایوس کن ہے اور اس ضمن میں کم و بیش تمام جریدوں میں یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ میں نے شاید پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ غزل پر یہ پیغمبری وقت ہے اور خاکسار سمیت ایک یبوست ہر طرف چھائی نظر آتی ہے۔ اس حصے سے میں نے یہ چند شعر نکالے ہیں:
وہ جو اک شے کہیں پڑی ہوئی تھی
پھر جو دیکھا نہیں پڑی ہوئی تھی
آج مل ہی نہیں رہی دنیا
کل تلک تو یہیں پڑی ہوئی تھی (طارق نعیم)
روانہ ہی نہ ہوں گے قافلے اور ہم یہ سوچیں گے
یہاں تک آ چکے ہوں گے‘ یہاں تک آ چکے ہوں گے
خلائے وقت جو پھیلا ہوا ہے چاروں طرف
اگر کسی نے اسے ناگہاں لپیٹ دیا (ضیاء الحسن)
کسی کی نسبت سے سوچنے میں دل اپنی حد سے گزر رہا ہے
کہیں نبھانے میں اک تعلق‘ کوئی کمی ہو رہی ہے مجھ میں
مجھے تو لگتا ہے ہر تعلق کی کوئی توہین ہو رہی ہے
نہ دشمنی ہو رہی ہے مجھ سے نہ دوستی ہو رہی ہے مجھ میں (شاہدہ حسن)
کیوں نہ کہیں اک اور نئی بنوا لی جائے
ایک ہی قبر پہ کتنی مٹی ڈالی جائے
ہر مٹّی کا اپنا وزن ہوا کرتا ہے
اک ٹھوکر سے کتنی خاک اچھالی جائے (افضل گوہر)
نہیں ہے تو مرا تو ہرج کیا ہے
تجھے پا کر بھلا میں کیا کروں گا (طاہر شیرازی)
اور‘ اب آخر میں سرمد صہبائی کی یہ کافی:تیرا سپنا امر سمے تک!
اپنی نیند ادھوری‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ کالے پنکھ کھلے کوئل کے/ کوکی بن میں دُوری‘سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ تیرے تن کا کیسر مہکے/ خوشبو اُڑے سندھوری‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ میرا عشق زمیں کی مٹی/ ناںناری ناں نوری/ سائیں‘ اپنی نیند ادھوری/ سزا جزا مالک کا حصہ/ بندے کی مزدوری/ سائیں اپنی نیند ادھوری/ تیرا ہجر رُتوں کی ہجرت/ تیرا وصل حضوری‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ تیری مشک بدن کا موسم/ جوبن رس انگوری ‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ بوسی بوسہ انگ انگ میں/ کس نے گوندھی چوری سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ تیرا کِبر‘ تری یکتائی/ اپنا من منصوری‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری/ تن کو چیر کے پھُوٹی خواہش/ کیا ظاہر مستوری‘ سائیں/ اپنی نیند ادھوری۔
نظموں کا حصہ خاصا مضبوط ہے‘ تنگیٔ جا کی وجہ سے مزید کوئی نظم شامل نہیں کر سکا‘ پھر کبھی سہی۔ آرٹ پیپر پر مختلف مشاہیر ادب کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں ‘جن میں خود مدیر‘ راوئین سرمد صہبائی اور گورنمنٹ کالج لاہورکی دو تصویریں بھی ہیں۔ پرچے کی قیمت 800 روپے ہے۔
آج کا مطلع
فغاں بھی چھوڑ دی‘ فریاد بھی نہیں کریں گے
جو وہ کہے تو اسے یاد بھی نہیں کریں گے