تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-01-2019

کیا کابل میں پشتون نہیں ؟

مملکت خداداد پاکستان کو اس کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے عرصے سے چاروں جانب سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ان میں ایک جانب اگراقتدار سے محروم کچھ طاقتیں ہیں تو کہیں مذہب اور فرقوں کے نام سے کام کرنے والی ایسی مذہبی جماعتیں ہیں‘ جو وزیر اعظم عمران خان اورقومی اداروںسے نفرت میںاندھی ہو کر اپنے بدن کے حصوں کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہی ہیں ۔جیسے جیسے امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے تیزی دکھا رہا ہے‘ پاکستان پر مختلف ناموں اور زاویوں سے حملہ آوروںکے پائوں تلے سے زمین کھسکنا شروع ہو گئی ہے‘ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر طالبان کی شرائط پر پاکستان میں امریکی حکومت اور طالبان میں پر امن اور بامقصد مذاکرات کامیاب ہو گئے تو پھر ان کیلئے افغانستان میں کہیں بھی کوئی جگہ نہیں ہو گی‘ پی ٹی ایم کے سر پرست بھارت کو بھی خوف لاحق ہو چکا کہ طالبان کبھی بھی اسے پاکستان کے اندر قتل وغارت پھیلانے کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
دنیا بھر کے تجزیہ کار وں نے کئی برس پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ بھارت ‘جس طرح افغانستان میں داعش کی مدد کر رہا ہے‘ اس کا سب سے زیا دہ نقصان پشتونوں کو ہو گا‘ لیکن ان کی اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا ۔ اب چند ماہ سے داعش نے جس طرح کابل‘ قندھار سمیت اس کے گردو نواح میں پشتون قتل عام شروع کر رکھا ہے‘ اسے امریکی حکومت اور اس کی ایجنسیاں تو جان گئی ہیں‘ لیکن افغانستان کیNDS نے معنی خیزخاموشی اختیار کر رکھی ہے‘ کیونکہ وہ اس Genocide کی ذمہ داری طالبان پر ڈال کر پاکستان کے خلاف اپنے اور بھارتی مشن کی تکمیل کر رہی ہے ؛حالانکہ کسی بھی ملک کی خفیہ ایجنسی کا سب سے اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی عوام اور املاک کو دشمن سے محفوظ رکھے‘ لیکن یہ کیسیNDS ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کی سپانسرڈ داعش چند ماہ سے افغانستان کے پشتونوں کا قتل عام کئے جا رہی ہے‘ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے تماشا دیکھے جا رہی ہے۔ 
افغانستان کی اسی بدلتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پرپشتون تحفظ موومنٹ کے اندرون اور بیرون ملک پھیلے میڈیا سیل کی ‘پاکستان مخالف مہم اس قدر بڑھ جائے گی‘ یہ سب کیلئے حیران کن ہے۔ پی ٹی ایم کے نام سے سوشل میڈیا پر پاکستان کی عوام اور اس کے قومی اداروں میں فاصلے پیدا کرنے کیلئے نت نئی کہانیوں اور واقعات کی جعلی اور سرکٹی ویڈیوزکی بھر مار نے واضح کر دیا ہے کہ دشمن ایک جانب سے نہیں ‘بلکہ پینترے بدل بدل کر چاروں جانب سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں کودا ہوا ہے۔ اب بات سرحدوں اورچوکیوں کی حفاظت سے کہیں آگے نکل کر ' ' ذہنوں اور دماغوں‘‘ پر قبضے تک پہنچ چکی ہے ‘کیونکہ دشمن شاید جان چکا کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو اب وہ اپنی فوجی طاقت سے مغلوب نہیں کر سکتا‘ اسے اب اس کی بنیادوں سے ہلانے کیلئے اسے قبیلوں‘ فرقوں اور قوموں میں بانٹتے ہوئے ایک دوسرے کے مقابل لانا ہو گا۔ فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام دشمن کی بہت بڑی شکست تھی ‘جس پر وہ مسلسل کانٹوں پر رینگ رہا ہے۔ اب میں ہر پاکستانی سے جو یہ سطور پڑھ رہاہے‘ سوال کرہا ہوں کہ پاکستان میں کون سی سیا سی اور مذہبی طاقتیں ہیں‘ جو فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی شدت سے مخالف ہیں؟ کون ہیں‘ جنہوں نے افغانیہ نام کے نئے ملک کی سیا ست شروع کر رکھی ہے۔
میں آئی ایس پی آر کا کبھی بھی مداح نہیں رہا‘ کیونکہ گزشتہ کئی برس سے اس ادارے کے کچھ لوگ‘ محب وطن صحافیوں اور لکھاریوں کی ملکی ا فواج اور اس کے اداروں سے ہمدردیاں ختم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ اس پر چاہئے تو یہ تھا کہ ہمارے جیسے لوگ خاموش رہتے ‘لیکن وطن کے شہدا کی روحیں اور سرحدوں پر ٹھٹھرتے ہوئے غازیوں کے چہرے مجبور کر دیتے ہیں کہ قلم کے محاذ پر ایسے دشمنوںکا مقابلہ کروں۔ میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس کے جواب میں پشتون تحفظ موومنٹ نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جس قسم کی زبان اور گفتگو کی ہے‘ وہ ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی ایم نے بظاہر تو خود کو پاکستان مخالف سرگرمیوں سے علیحدہ کر لیا ہے‘ لیکن کمال مہارت سے وہ ایک نئے زاویئے سے سالمیت پاکستان کے در پے ہو چکی ہے‘ جس نے ابتدا میں تو ان کا ظاہر اور باطن چھپائے رکھا‘ لیکن جلد ہی اس کے اثرات اس طرح سامنے آنا شروع ہو گئے کہ ان کے نعروں اور تشریحات سے شروع میں دھوکہ کھانے والے پشتون ان کی سرگرمیوں سے چکرا کر رہ گئے ۔
کل تک پاکستان کو دنیا بھر میں مذہب کے نام پر تنہااور ناپسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے جو فتنہ برپا کیا جا رہا تھا‘ اب پشتون تحفظ موومنٹ نے اچانک پینترا بدلتے ہوئے پاکستان کی بنیادوں کو کھودنے کا وہی فریضہ اب زبان اور قومیت کے نام سے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کا سلسلہ اس شدت سے شروع کر دیا ہے کہ فاٹا سمیت کے پی کے میں محب وطن پاکستانیوں کی جانب سے دبائو بڑھنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر پنجاب بھر میں اس تحریک اور اس کے طاقتور سر پرستوں کے ہاتھوں کھیلنے والوں کے خلاف آپریشن رد الفساد کی طرز پر سول حکومتی ادارے کارروائی کر سکتے ہیں‘ تو اس نئے فتنہ گروں کے خلاف کیوں نہیں‘ جو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے امن کو پارہ پارہ کرنے اور ملکی اداروں میںEthnicity کے نام سے تفرقہ اور نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔
19 جنوری کی رات ساہیوال میں سی ٹی ڈی پنجاب کے ہاتھوں جو بھی کارروائی کی گئی‘ اس کی رپورٹ آنی باقی ہے‘ لیکن جو کچھ بھی ہوا اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا۔ سب نے دیکھا کہ تحریک کے لوگوں نے پی پی پی‘ جماعت اسلامی‘ مولانا فضل الرحمان اور نواز لیگ کے ساتھ شامل ہو کر جگہ جگہ ناکے اور دھرنے دیتے ہوئے لاہور اور اس سے باہر جانے والے تمام رستے بند کرانے شروع کر دیئے اور ایسا کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ابھی دو تین ماہ پیشتر ان کے دھرنوں کے دوران صرف شیخو پورہ انٹر چینج کے قریب ان کے لوگوں نے مذہب کے نام پر جب شہریوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو توڑنا اور جلا نا شروع کیا‘ تو ایک ایسی گاڑی کے شیشے توڑے ‘جس کے اندر ایک پانچ ماہ کا معصوم بچہ اپنی ماںکی گود میں بلک رہا تھا اور ان کے مارے گئے ایک ڈنڈے سے گاڑی کا شیشہ ٹوٹ کر اس معصوم کی آنکھ میں گھس گیا‘ جس سے وہ عمر بھر کیلئے ایک آنکھ سے محروم ہو گیا۔ اس کی ماں بچے کے علاج کیلئے راستہ دینے کی منتیں کرتی رہی۔ وہ با پردہ روتی ہوئی ماں تحریک والوں کے پائوں میں گر گئی‘ ان کو اﷲ اور اللہ کے رسول ﷺ کے واسطے دیتی رہی‘ لیکن بظاہرمذہب کا روپ دھارے ان سفاکوں کو اس پر ذرا بھر بھی رحم نہ آیا تھا۔
میر حاصل بزنجو‘ محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے جس قدر خلاف ہیں‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ‘لیکن اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان سمیت خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی علا قوں میں پشتونوں کے حقوق کے نام سے آئے روز جلوس نکالنے والوں کیلئے پاکستان کے ہرغیور پٹھان بھائی کے سامنے یہ سوال چھوڑے جا رہا ہوں ؛ اگر پشتون تحفظ موومنٹ کو پشتونوں کا اتنا ہی خیال ہے ‘تو پھر اس نے آج تک کابل میں پشتونوں کے حق میں کوئی جلوس کیوں نہیں نکالا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved