نظریہ پاکستان پر بحث ہمارے ہاں چلتی ہی رہتی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں اپنے آپ کو لبرل کہلانا پسند کرتے ہیں ان کا نظریہ پاکستان کے بارے نقطہ نظر، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے اس بارے میں موقف سے جب ٹکراتا ہے تو چنگاریاں نہیں بلکہ شعلے نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دونوں گروپ اب ایک دوسرے کو بڑے واضح انداز میں فاشسٹ کہتے ہیں۔ اس جنگ میں عام سیدھے سادھے پاکستانیوں کی اکثریت پھنسی ہوئی ہے۔ یہ دونوں گروپ ان کو ایسے ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ نظریہ پاکستان کا مطلب ہے کہ اس ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک خالص اسلامی ریاست بنانا ہوگا جبکہ دوسرے گروپ کا موقف ہے کہ پاکستان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایک لبرل اور سیکولر ملک ہونا چاہیے۔ جب ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے قیام کے وقت بھی یہ برصغیر کے دو تہائی مسلمانوں کا ملک تھا اور بھارت میں پیچھے رہ جانے والے برصغیر کے ایک تہائی مسلمانوں کے حوالے سے پاکستان زیادہ سے زیادہ بھارت سے یہ مطالبہ کرسکتا تھا کہ وہ اپنے ہاں بکھرے ہوئے ان مسلمانوں کے حصے کی زمین اور اپنے ہاں مسلمان آبادی پاکستان کے حوالے کرے۔ مطالبہ تو کسی شے کا بھی کیا جاسکتا ہے نا۔ لیکن اس کے بعد 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان ہوگیا اور ہم مغربی پاکستان میں برصغیر میں مسلمانوں کی کل آبادی کا ایک تہائی رہ گئے۔ اب اس کے بعد صورت یہ ہے کہ ہم پہلے بنگلہ دیش سے مطالبہ کریں کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے اور اس کے بعد پھر بھارت سے وہاں کے مسلمانوں اور ان کے حصے کی زمین کا مطالبہ داغا جائے۔ یہ مطالبات اگر کر بھی دیے جائیں تو ان کے پورے ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔ ان کا انداز، لگانا مشکل نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کا علیحدہ ملک کہتے ہیں اور تحریک پاکستان کے وقت جو نعرے لگتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ، ان کو نظریہ پاکستان کے ترجمان نعرے باور کرتے ہیں تو پھر ہمارے لیے یہی لائحہ عمل رہ جاتا ہے‘ جو اوپر بیان کیا گیا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کے اور بھارت کے مسلمان بھی لا الہٰ الا اللہ پر ویسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا ہم لوگ پاکستان میں رکھتے ہیں۔ اب اس وقت اگر ہم الگ سے برصغیر کی ایک تہائی مسلمان آبادی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک خالص اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو اس وقت جو آبادی موجود ہے اس میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ کوئی کوشش اس طرف تو ہوتی ہی نہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے کہ جب دلائل ماضی سے لیے جاتے ہیں جبکہ ہماری ماضی قریب کی تاریخ ایسے کوئی دلائل فراہم ہی نہیں کرتی۔ تفصیل میں نے اوپر بیان کردی ہے کہ ماضی کی تاریخ سے دلیل تو اس وقت فراہم ہوگی جب برصغیر کے تمام مسلمانوں کی بات ہوگی۔ ہم تو ایک تہائی سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارے ہاں نظریہ پاکستان کے ان حامیوں کے لیے صرف یہ راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ موجودہ پاکستان میں اپنے حق میں اتفاق رائے نہ سہی تو اکثریت کو تو لائیں۔پاکستان میں بھاری اکثریت اب بھی اسلامی اقدار کی روشنی میں جدید پاکستان بنانے کی قائل ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامی پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی اکثریت میں ہیں جبکہ انتہا پسند دونوں طرف اقلیت میں ہیں۔ بانیِ پاکستان نے اگرچہ اپنی بہت سی تقریروں میں اسلام کے اصولوں کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا مگر کہیں بھی اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جو جدید دور کی سچائیوں کو اپنے اندر سمونے کے قابل نہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم کے کسی فرمان یا تقریر سے یہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ پاکستان مغربی دنیا کی جدید جمہوریتوںکی طرز پر ایک ایسے آزاد خیال معاشرے کو جنم دے گا کہ اس ملک کی اسلامی اساس ہی ختم ہوجائے۔ 11اگست 1947ء کی جس تقریر کا ہمارے ہاں بہت حوالہ دیا جاتا ہے اس میں تمام مذاہب کے لوگوں کے ایک ساتھ مل جل کر اپنے اور برابر کے حقوق حاصل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے اسلامی اصولوں کی اگر تنگ نظروں سے تشریح نہ کی جائے تو سب اقلیتوں کو وہ تمام حقوق ملتے ہیں جو اکثریتی مسلمان آبادی کو حاصل ہیں۔ جھگڑا وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ہمارے ہاں کا آزاد خیال طبقہ جو لبرل کہلاتا ہے‘ حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی انداز میں جیسے کٹر مذہبی رجحان کے لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بعض اوقات مذہب کے نام پر مذہب ہی کی حدود سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں جو گروپ بن چکے ہیں وہ اپنی حدود کے اندر نہیں رہتے۔ آج کے دور میں اگر آپ تصویر کو حرام سمجھتے ہیں یا موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں تو ظاہر ہے اس کا آپ کو حق ہے لیکن خدارا! اپنے اردگرد دنیا کو بھی دیکھیں اور جو لوگ تصویر اور موسیقی کو حرام نہیں سمجھتے ان کا معاملہ ان کے اور رب کے درمیان رہنے دیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے معاشرے میں جو تصویر اور موسیقی کو جائز سمجھتے ہیں تو ان کو اس میں لازماً تمیز کرنا ہوگی کہ ہر تصویر اور ہر موسیقی ہماری اسلامی اقدار میں فٹ نہیں ہوسکتی۔ ٹی وی چینلز پر جو ننگ دھڑنگ تصویریں اور موسیقی چلتی ہے اس کو ہم کبھی بھی اپنی ثقافت میں شامل نہیں کرسکتے۔ ان کی حیثیت جب تک یہ رہیںگی، وہی ہوگی جو ہمارے شہروں میں بدنام قسم کے علاقوں کی ہوتی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں لبرل معاشرے اور سیکولرازم کے نام پر مغرب کی وہ ثقافت رائج کرنا چاہتے ہیں جو مغربی دنیا میں بھی تعفن زدہ ہے تو ان کو بھی اس ملک کے لوگوں پر ایک نگاہ ڈالنی چاہیے۔ یہ لوگ مغربی دنیا کے لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔ ان میں لاکھ خرابیاں سہی لیکن اب بھی اپنے مذہب کے خلاف گستاخی برداشت نہیں کرتے۔ ان کے گھروں میں اب بھی ایسا ماحول پایا جاتا ہے کہ باہر بڑے سے بڑا غنڈہ بدمعاش ہو‘ گھرمیں آ کرماں سے جوتے کھا لیتا ہے۔ ان میں اتنی غیرت ہے کہ کسی مفرور ملزم کے گھر والوں کو اگر تھانے میں بٹھا لیا جائے تو وہ مفرور ملزم فوراً گرفتاری دے دیتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے قصوں کو تو بہت زیادہ پبلسٹی دی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے کے بھائی بہنوں کے لیے کس کس طرح قربانیاں دیتے ہیں اس کا بھی علم ہونا چاہیے۔ لہٰذا عرض یہ ہے کہ جس طرح تصویر اورموسیقی کو حرام سمجھنے والے اگر اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھیں تو کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح ہمارے ہاں لبرل خیالات کے داعی اپنے معمولات پر قائم رہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مگر دونوں گروپ اپنے اردگرد کھلی آنکھوں سے ضرور دیکھیں اوراپنی اپنی حدود کے اندر رہیں کیونکہ ہمارے ہاں کی اکثریت ان دونوں گروپوں سے مختلف ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved