تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     24-01-2019

فلاح و بہبود کی زندہ مثال

آج کا کالم ایک ایسے غیر معمولی شخص کے بارے میں ہے جو میرا بہت قریبی عزیز ہے۔ اور شاید اسی لیے مجھے لکھنا مشکل بھی ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں مقبول احمد بلاک کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس چار منزلہ عمارت میں دو لیکچر ہالز ہوں گے اور ہر ایک میں چار سو سٹوڈنٹ بیٹھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ کانفرنس ہال ہوگا اور جدلد ترین لیبارٹریز بھی۔ مئی 2020 تک پایۂ تکمیل پانے والے اس منصوبے سے کے ای میڈیکل یونیورسٹی کی تعلیمی سہولیات میں شاندار اضافہ ہوگا۔ منصوبے کی کل لاگت اڑسٹھ کروڑ روپے ہے جو ڈاکٹر مقبول احمد خود دے چکے ہیں۔ فلاح انسانیت کا یہ پہلا کام نہیں جو ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں۔ ان کے امریکہ، افریقہ اور پاکستان میں بہبود انسانیت کے کاموں کی فہرست طویل ہے۔
مجھے علم تھا کہ ڈاکٹر صاحب دس پندرہ سال سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اپنے گائوں اور موروثی پور سکول میں تعلیمی منصوبے چلا رہے ہیں، لیکن وہ تشہیر سے کوسوں میل دور رہتے ہیں۔ مجھے اتنا علم ضرور تھا کہ تقریباً دس سال پہلے وہ اپنے سکول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی لیبارٹری بنوا چکے تھے، لیکن اس بات کا مجھے اب پتہ چلا کہ وہ اپنے گائوں اور موروثی پور سکول میں آٹھ سو بچوں کو ماہانہ سکالر شپ بھی دیتے ہیں۔ جب کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی میں سنگ بنیاد رکھا جا چکا تو میں نے مبارک کے لیے فون کیا اور کہا: پاکستان میں لوگ آپ کی ذاتی جدوجہد اور فلاحی کاموں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ لہٰذا ایک یا دو کالم لکھنا ضروری ہیں اور مقصد آپ کی ذاتی تشہیر نہیں بلکہ لوگوں کو مزید کار ہائے خیر کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ جواب ملا کہ میں تو سنگ بنیادوالی تقریب کے بھی حق میں نہیں تھا لیکن شکاگوکے مشہور یورو لوجسٹ ڈاکٹر عارف آغا کا بھی آپ جیسا ہی استدلال تھا، وہ خود شکاگو سے اسی مقصدکے لیے لاہور گئے۔ پھر گویا ہوئے کہ ٹی وی چینلز نے اس منصوبے کے بارے میں کافی کچھ لوگوں کو بتا دیا ہے، لہٰذا جب 2020ء میں یہ پراجیکٹ مکمل ہو جائے تب کالم لکھ لینا، لیکن میں اپنے مؤقف پر قائم رہااور فیصلہ ہوا کہ صرف ایک کالم میں چند چیزوں کا سرسری ذکر ہو جائے۔ میں خود بھی اس حق میں تھا کہ قارئین کو سب درختوں اور پودوں کی تفصیل بتانے کی بجائے گلستان سے متعارف کرا دیا جائے۔ 
جولائی 2017ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں امریکہ میں تھا۔ امریکہ کے ہر وزٹ کے دوران ڈاکٹر صاحب اور اپنی بہن ثمینہ، جو ان کی شریکِ حیات ہیں، سے ملنا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ کی ریاست الی نوائے کے بالکل جنوب میں ایک قصبے میں رہتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ سے ایم بی بی ایس 1968ء میں کیا اور پھر میو ہسپتال کے آئی وارڈ میں ریزیڈنسی کی۔ یہاں معروف آئی سرجن ڈاکٹر لطیف چوہدری اُن کے کولیگ تھے۔ جب میں امریکہ میں تھا تو مشی گن سے میری بھانجی عظمیٰ احمد کا فون آیا کہ ماموں میں ویک اینڈ پر آپ کو بائی روڈ ملنے آ رہی ہوں۔ 
عظمیٰ بیٹی آئی تو رات کو کھانے کے بعد گپ شپ کا لمبا سیشن چلا۔ ڈاکٹر صاحب امریکی اصطلاح کے مطابق فیملی مین ہیں اور بچوں کے ساتھ ان کا رشتہ احترام کے علاوہ محبت کا بھی ہے۔ چار بچوں میں سے والدکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تین آئی سپیشلسٹ ہیں۔ کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سب سے کہا کہ اپنی زندگی کے اہم حقائق یا واقعات بتائیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ جب میں 1972ء کے اوائل میں امریکہ پہلی مرتبہ آیا تو میری جیب میں صرف پانچ ڈالر تھے۔ میں نے بچپن میں انتہائی غربت کو بہت قریب سے دیکھا اور اسی لیے مجھے غریبوں سے بہت ہمدردی ہے۔ میں حیران تھا کہ اتنا کامیاب شخص نہ اپنی دولت کا ذکر کر رہا ہے اور نہ ہی بے شمار کامیابیوں کا۔وہ اپنے نواسے، نواسیوں کو اپنی غربت کے قصّے سنا رہا ہے۔ اس شخص میں کوئی تصنّع نہیں، وہ دراصل بچوں کو پیغام دے رہا ہے کہ زندگی میں کچھ حاصل کرنا ہے تو محنت کرو اور مزید محنت۔ جو لوگ اپنے بچوں کو پدرم سلطان بود والے قصّے سناتے رہتے ہیں وہ اچھا نہیں کرتے۔ پچھلے ہفتے ہی مجھے پتہ چلا ہے کہ عظمیٰ اور ڈاکٹر شہزاد کے بڑے بیٹے زید کو ماشا اللہ ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ملا ہے یہ وہی زید ہے جو ڈیڑھ سال پہلے اپنے نانا ابو سے ان کے بچپن کے قصّے سُن رہا تھا۔
میں نے پوچھا کہ مقبول بھائی آپ کو خیراتی کاموں کی تحریک کیسے ہوئی۔ کہنے لگے کہ مجھے شروع سے مفلوک الحال لوگوں کو غربت سے نکالنے کا شوق تھا جو آہستہ آہستہ عزم میں تبدیل ہو گیا۔ مجھے سب سے زیادہ تحریک رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ سے ملتی ہے جب آپؐ کے پاس ایک انتہائی غریب شخص امداد کے لیے آیا تو آپؐ نے پوچھا کہ تمہارے پاس اس وقت کیا ہے۔ جواب دیا: یا رسول اللہؐ صرف یہ چادر ہے۔ دن کو اسے بچھا کر اس پر بیٹھ جاتا ہوں اور رات اسے سر پر تان کر سو جاتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ چادر بازار جا کر بیچ دو اور ایک کلہاڑا اور رسی خریدو، دن کو لکڑیاں کاٹو اور شام کو بازار میں بیچ دو۔ چند ہی ماہ میں اس شخص کے مالی حالات بہتر ہو گئے۔ ڈاکٹر مقبول اسی سال موروثی پور میں اپنے سکول کے قریب ایک ووکیشنل انسٹیٹیوٹ شروع کروا رہے ہیں، جہاں سینکڑوں نوجوان مختلف مہارات سیکھیں گے۔ کوئی الیکٹریشن بنے گا تو کوئی پلمبر، کوئی کار مکینک بن جائے گا تو کوئی میسن۔ نوجوان میٹرک کرنے کے بعد آوارہ گھومنے کی بجائے مفید ہنر سیکھیں گے۔ روزی روٹی کمانے کے اہل ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں: صدقہ، زکوٰۃ اور وقف جیسے تصورات اسلام نے متعارف کرائے تھے اور آج دوسرے مذاہب والے انفرادی اور اجتماعی خیراتی کاموں میں ہم سے آگے ہیں۔
مقبول بھائی ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں۔ اپنے ہی گھر کی بیسمنٹ میں صبح چار بجے جمنازیم میں ورزش کرتے ہیں۔ نہا دھو کر نماز فجر پڑھتے ہیں اور ناشتے کے بعد تقریباً چھ بجے کام کے لیے نکلتے ہیں۔ کاربن ڈیل، مرفس بورو اور مارین کے قصبوں میں اور ملحقہ علاقوں میں ان کے کئی آئی کلینک ہیں جہاں روزانہ سرجری ہوتی ہے اور مریضوں کو دیکھا بھی جاتا ہے۔ چند سال سے میرے بھانجے ڈاکٹر فیصل احمد اور ڈاکٹر عمر احمد پوری تندہی سے والد کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ دونوں Retina سرجن ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں اور علیحدہ رہتے ہیں۔ البتہ ویک اینڈ پر والدین اور خاص طور پر والدہ کو ملنے ضرور آتے ہیں اور صلوٰۃ کا وقت ہو جائے تو پوری فیملی با جماعت نماز پڑھتی ہے۔ صبح چھ بجے کے گئے ہوئے ڈاکٹر صاحب شام کو مغرب کے وقت واپس آتے ہیں۔ نماز کے فوراً بعد کھانا کھا لیتے ہیں اور اکثر ٹی وی لائونج میں صوفے پر سوتے پائے جاتے ہیں۔ تینوں ڈاکٹر صاحبان دن کو دوران عمل بھی ملتے رہتے ہیں کیونکہ کام سارا مشترکہ ہے۔ نماز جمعہ کے لیے پوری فیملی کاربن ڈیل اسلامک سنٹر جاتی ہے جہاں خواتین کے لیے نماز کا علیحدہ بندوبست ہے۔
کاربن ڈیل اسلامک سینٹر بہت بڑا کمیونٹی سنٹر ہے‘ جس کی تعمیر میں ڈاکٹر صاحب نے بھی حصہ لیا‘ لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ بین المذاہب رواداری اور مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے امریکہ میں اپنے علاقے کے مستحق طلباء کو سکالر شپ دے رہے ہیں۔ ایسے طلباء کی تعداد تیس ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ کیا امریکہ میں بھی مستحق طلباء ہوتے ہیں۔ جی ہاں امریکہ میں آج بھی بعض علاقوں میں غریب لوگ رہتے ہیں۔ یہ تیس سکالر شپ رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر ہر مذہب کا پیروکار لے سکتا ہے۔ بین المذاہب بھائی چارہ ڈاکٹر صاحب کے دل کے بہت قریب ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایک امریکن این جی او نے انہیں اپروچ کیا کہ ہم تینوں ادیانِ سماریہ کے درمیان مفاہمت اور خیر سگالی بڑھانے کیلئے ایک دستاویزی فلم بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فلم کو فنانس کرنے کی فوراً ہامی بھر لی۔
ڈاکٹر صاحب کو نہ ڈیزائنر سوٹ پہننے کا شوق ہے اور نہ ہی نئی نئی گاڑیوں کا۔ ویک اینڈ پر وہ اپنے گھر کے وسیع و عریض لان میں باغبانی کرتے نظر آتے ہیں۔ زندگی کے مقاصد پر غور کیا جائے تو تین چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں۔اولاً غربت سے نفرت مگر غریبوں سے محبت۔ دوئم علم کا اجالا عام کرنے کی لگن اور سوئم اسلام اور انسانیت دونوں سے قلبی رشتہ۔ ڈاکٹر صاحب عنقریب 75 سال کے ہونے والے ہیں لیکن ابھی ماشا اللہ جوان ہمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کارہائے خیر میں مزید برکت ڈالے، آمین۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved