تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-01-2019

سرخیاں، متن اور عامر سہیل کی تازہ غزل

صوبائی حکومت میں شامل ہر کوئی نیک نیتی سے کام کر رہا ہے: عثمان ڈار
پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل ہر شخص نیک نیتی سے کام کر رہا ہے‘‘ بلکہ حکومت میں جو شامل نہیں‘ وہ بھی پوری نیک نیتی سے کام کر رہا ہے‘ کیونکہ ہم سب ابھی کام سیکھ رہے ہیں ‘جبکہ سکھلائی کا کام بھی نیک نیتی کے بغیر نہیں ہو سکتا ؛حتیٰ کہ نالائقی اور نااہلی کا مظاہرہ بھی پوری نیک نیتی سے کیا جا رہا ہے اور اُمید ہے کہ جوں جوں کام سیکھنے میں ترقی ہوگی‘ نالائقی اور نااہلی میں بھی کمی واقع ہوتی جائے گی ‘کیونکہ ہر کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھا ہوا نہیں آتا اور اُس دوران صرف رونا ہی سیکھتا ہے‘ اسی لیے پیدا ہوتے ہی بچہ رو رو کر آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے؛ حالانکہ آسمان کوئی ہلکی پھلکی چیز نہیں ہوتی‘ لیکن نوزائیدہ بچے میں اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ آسمان کو سر پر اُٹھا سکے اور جوں جوں عمر گزرتی ہے‘ وہ نالائق نااہل اور ناقابلِ کار ہوتا جاتا ہے؛ حتیٰ کہ سب کچھ سیکھنا شروع کر دینا ہے اور اس سے تو بہتر ہے کہ وہ بچہ ہی رہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان پنجاب کو اچھی حکومت نہیں دے سکے: پرویز رشید
مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عمران خان پنجاب کو اچھی حکومت نہیں دے سکے‘‘ اور صرف اچھی وفاقی حکومت دینے پر ہی اکتفاء کر لیا‘ جس نے ہمارا پُوچھل اُٹھوایا ہوا ہے‘ اوپر سے عطا الحق قاسمی کیس میں عدالت کی طرف سے مجھے بھی کئی کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے؛ حالانکہ اب تو کروڑ چھوڑ‘ سینکڑے کی بھی کبھی شکل نہیں دیکھی‘ جبکہ ہمارے قائد کی ترقی کے زمانے میں سبھی کروڑوں میں کھیلتے تھے اور ہمارے قائدین روپوں کے انبار میں چھپے نظر ہی نہیں آتے تھے اور روپیہ باہر بھیج کر ہی یہ گنجائش نکالی جاتی تھی کہ کہیں اُن کی شکل مبارک نظر آئے‘ جبکہ صرف نیب وغیرہ کو اُن کی شکلیں اُس انبار میں بھی صاف نظر آ رہی ہوتی تھیں‘ جس کی وجہ صرف اُن کی نظر کی تیزی تھی‘ ورنہ پیسے کی زیادتی تو ویسے ہی آدمی کو اندھا کر دیتی ہے اور وہ ساری ریوڑیاں اپنوں ہی میں بانٹنے لگتا ہے‘ لیکن اپنا حصہ رکھ کر‘ کیونکہ وہ اتنا بھی اندھا نہیں ہوتا اور سارا کام اندھا دُھند ہی کرتا چلا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
بد دُعاؤں سے حکومت کا بوکاٹا ہو چکا ہے: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''بد دعاؤں سے حکومت کا بوکاٹا ہو چکا ہے‘‘ کیونکہ ہماری بد دُعا لگتی بھی بہت ہے اور اکثر حضرات کالی زبان والے ہیں‘ جبکہ اب خاکسار نے اداروں کو بد دُعائیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے؛ اگرچہ بعض اوقات بد دُعا الٹی بھی پڑ جاتی ہے‘ تاہم میرا کام پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے اور اس کے طلب کرنے پر ہی میں اسی اُمید میں پیش بھی نہیں ہوا کہ شاید بد دُعائیں ہی کام کر جائیں ‘ورنہ یہ کم بخت گرفتار بھی کر سکتے ہیں‘ جو یقینی طور پر ایک انتقامی کارروائی ہوگی‘ جس کی اسے عادت پڑی ہوئی ہے‘ جبکہ اسی طرح ہماری کئی عادتیں بھی اس قدر پختہ ہو چکی تھیں کہ ایسا لگتا تھا کہ باقاعدہ پتھر کی ہو چکی ہیں؛ حتیٰ کہ ہماری طبیعتیں بھی خاصی پتھریلی ہو گئی تھیں‘ بلکہ پتھر کے زمانے میں پہنچ چکی تھیں۔ آپ اگلے روز فٹ بال میچ میں تقسیم انعامات کے موقعہ پر گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں: مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''ملک کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘ کیونکہ اگر میں اور زرداری صاحب ڈوبتے ہیں تو یہ ملک ہی کے ڈوبنے کے مترادف ہے‘ اور اسی لیے ‘ تو میرا کہنا ہے کہ اگر ملک کو ڈوبنے سے بچانا ہے‘ تو ہم دونوں کو بچائے بغیر ملک نہیں بچ سکتا‘ کیونکہ میں نے خود اسے ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے ‘جو بس تھوڑا ہی باقی رہ گیا تھا‘ بلکہ میرے ساتھ ساتھ منظور وسان صاحب کا بھی یہی خیال ہے ‘کیونکہ اُن کی بھی یہی پیشگوئی ہے‘ لیکن وہ خوفِ فساد خلق سے اس کا اعلان نہیں کر رہے‘ اور میں یہ دلیری اس لیے دکھا رہا ہوں کہ زرداری یہ مصرعہ گنگناتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ؎
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
اس لیے ضروری ہے کہ کم از کم زرداری صاحب کو ضرور بچا لیا جائے‘ تاکہ ساتھ ہی میرا بھی کام ہو جائے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ تازہ غزل:
رات ہے فجر کے چھینٹوں سے پرانی عامرؔ
اور حبشہ کی طرف نقل مکانی عامرؔ
اور گھوڑوں کی وہ ٹاپیں جو چراغاں کر دیں
اور مٹی کی گلی اور کہانی عامرؔ
سرخ جاڑے کی کشش تھی کہ ترے چہرے کی
رات ہم بھول گئے آگ جلانی عامرؔ
جیسے تنہائی کی روٹی میں یتیمی کا نمک
جیسے مشکیزے میں افسوس کا پانی عامرؔ
میں نے اس بینچ پہ کھولی تھی محبت کی زبور
میں نے اس ڈیسک پہ رکھے تھے معانی عامرؔ
جیسے کعبے میں کسی بُت کی حجاب آرائی
جیسے ترتیب سے سانسوں کی روانی عامرؔ
بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے انسانوں پر
ہم نے سیکھی نہیں بندوق چلانی عامرؔ
اک پیمبر کی طرح سب سے الگ بیٹھا ہوں
مجھ پہ نازل ہو محبت کی کہانی عامرؔ
اور وہ گیسو جو طائف کی طرف اُڑتے ہیں
اور مکّہ کی وہ رُت جو نہیں فانی عامرؔ
کوئی کُوفہ ہو‘ کوئی صوفہ ہو کیلوں والا
جیسے دجلے کی قضا ہوتی جوانی عامرؔ
آج کا مطلع
حالِ رنجِ دلِ ناکام نہیں جائے گا
اب اِدھر سے کوئی پیغام نہیں جائے گا

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved