تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-01-2019

مائنڈ سیٹ کا مسئلہ

کسی بھی صورتِ حال میں کوئی بھی اہم مثبت تبدیلی صرف اُس وقت رونما ہوتی ہے جب نئے زاویے سے‘ قدرے وسیع النظری کے ساتھ سوچا جاتا ہے۔ وسیع النظری کے ساتھ سوچنے کی صورت میں ذہن کا کینوس وسیع ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سوچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ 
ہم جس سانچے یا ڈھانچے کی حدود میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں ‘اُسے مائنڈ سیٹ کہتے ہیں۔ بالکل عمومی سطح پر کہیے تو مائنڈ سیٹ کا مطلب ہے سوچنے کا زاویہ یا انداز۔ ہر انسان ایک خاص زاویے یا انداز سے سوچنے کا عادی ہوتا ہے اور پھر یہ معاملہ ایسا پختہ ہو جاتا ہے کہ سوچ جامد ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کو کسی بھی نئے خیال کی قبولیت کے لیے تیار کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ 
جب ہم ایک سانچے میں رہتے ہوئے یا مخصوص فکری ڈھانچے کے ساتھ سوچنے کے عادی ہو جاتے ہیں تب بیشتر معاملات ایک خاص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم مثبت سوچنے کے عادی ہوں تو ماحول کا ہر معاملہ‘ ہر پہلو مثبت دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس منفی مائنڈ سیٹ ہمیں ہر معاملے کا منفی پہلو دکھاتا ہے۔ قابلِ غور (اور قابلِ افسوس) بات یہ ہے کہ لوگ اپنی سوچ میں پائی جانے والی نفی یا کجی کو جانتے اور سمجھتے بھی ہیں‘ مگر اصلاح پر مائل نہیں ہوتے۔ منفی سوچ رکھنے والے بیشتر افراد کو اپنی خامی کا احساس و اندازہ ہو جاتا ہے‘ مگر وہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ 
مائنڈ سیٹ بدلنے سے گریز کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ خوف ہے کہ سوچنے کا انداز یا طریقہ بدلنے سے کہیں کوئی بہت بڑا نقصان واقع نہ ہوجائے۔ لوگ جس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ساتھ عمر کا طویل حصہ گزار چکے ہوں ‘اُس سے الگ ہونے کا تصور اُن کے لیے سوہانِ روح ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ جذباتی وابستگی کے حوالے سے خلجان اور مخمصے میں مبتلا ہونے کا ہے۔ انسان بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس کی بہت سی بُری عادتیں خاص نقصان دہ ہوتی ہیں ‘مگر پھر بھی وہ اُنہیں اپنے وجود کا حصہ بنائے رکھتا ہے۔ کیوں؟ صرف اِس لیے کہ معاملہ جذباتی وابستگی تک آکر رک جاتا ہے۔ 
ہم زندگی بھر جو کچھ بھی کہتے ہیں اور کرتے ہیں وہ غیر محسوس طور پر ہمارے مائنڈ سیٹ کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ہم بہت سے لایعنی خیالات کو بھی ذہن میں ٹِکنے دیتے ہیں۔ بہت سے فضول تصوّرات ذہن کے پردے پر سایوں کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں۔ ایسا محض اِس لیے ہوتا ہے کہ ہم ایسا ہونے دیتے ہیں۔ 
بہت سے معاملات میں ہمیں یومیہ بنیاد پر یا پھر ایک خاص وقفے سے بہت کچھ درست کرنا پڑتا ہے۔ جس طور کسی گھر کو صفائی کی ضرورت پڑتی ہے ‘بالکل اُسی طور ہمارے ذہن کو بھی وقفے وقفے سے آرام کے ساتھ ساتھ صفائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ذہن کی صفائی کے بھی کئی طریقے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان باقاعدگی سے معیاری تحریریں پڑھتا رہے۔ صحت مند اور مدلّل بحث بھی ذہن کو تر و تازہ اور توانا رکھتی ہے۔ معیاری فلمیں دیکھنے سے بھی ذہن تازگی محسوس کرتا ہے اور بہتر سوچنے کے قابل ہو پاتا ہے؛ اگر ہم ذہن کو باقاعدگی سے معیاری خوراک دیتے رہیں تو بہت سے فضول معاملات اپنی موت آپ مرتے رہتے ہیں اور ذہن اُن معاملات میں خواہ مخواہ الجھے رہنے کی زحمت سے بچ جاتا ہے۔ 
مائنڈ سیٹ کی درستی ناگزیر ہے۔ مائنڈ سیٹ ہی ہمیں پار بھی لگاتا ہے اور ڈبو بھی دیتا ہے۔ مائنڈ ہی ہمیں پُرامید بھی بناتا ہے اور مایوسی کی طرف بھی دھکیلتا ہے۔ مائنڈ سیٹ ہی عمل کی راہ بھی ہموار کرتا ہے اور بے عملی کی نذر بھی کردیتا ہے۔ مائنڈ سیٹ آج انفرادی سطح کا معاملہ نہیں‘ بلکہ پوری قوم کا مسئلہ اور مخمصہ ہے۔ 
ویسے تو خیر ہر دور میں انسان کے لیے مائنڈ سیٹ ہی بنیادی مسئلہ رہا ہے‘ تاہم فی زمانہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہم آج جہاں بھی کھڑے ہیں وہ مائنڈ سیٹ ہی کا کرشمہ ہے۔ اگر ہم اچھی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ بہتری کی طرف مائل رہنا ہمارے لیے کچھ دشوار نہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنا مائنڈ سیٹ مزید توانا‘ مثبت اور مستحکم کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اور اگر ہمارے معاملات بُرے ہیں تو پھر سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے اور اصلاح کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ 
ماحول ہمیں راہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسے بہت سے معاملات پائے جاتے ہیں ‘جو ہمارے انہماک میں بار بار خلل ڈالتے ہیں۔ یہ عمل ہماری سوچ کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ سوچنے کا عمل متاثر ہو تو خیالات میں ترتیب باقی رہتی ہے‘ نہ توازن۔ ایسے میں ہم وہ سب کچھ بھی نہیں سوچ پاتے جو سوچنا ہمارے لیے فوری طور پر ناگزیر ہوتا ہے۔ ہمیں معمول کے معاملات درست رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ سوچنا ہوتا ہے؛ اگر مائنڈ سیٹ پیچیدگی کا شکار ہو تو معمول کا تفکر بھی ہمارے لیے ایک بڑے مرحلے میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ جس سے گزرنا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذہن اپنے اندر بہت کچھ سمونے کی گنجائش رکھتا ہے۔ ہم ذہن کی اس صفت کو خوب آزماتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کچھ خاص ہرج نہیں۔ ہرج ‘البتہ اس بات میں ہے کہ ذہن کو لاحاصل خیالات کی آماجگاہ بنادیا جائے۔ جب ذہن میں فضول خیالات اور تصوّرات سمائے رہتے ہیں تب معیاری تفکر کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ ذہن بیک وقت بہت سے کام نہیں کرسکتا۔ وہ کسی ایک سمت ہی جاسکتا ہے؛ اگر ہم فضول باتوں کو ذہن میں بھرلیں تو اُن سے جان چھڑانے یا اُنہیں غیر فعال رکھنے پر اچھی خاصی محنت کرنا پڑے گی۔ 
یاد رکھیے‘ ذہن بھی بالکل اُسی طور کام کرتا ہے جس طور ہماری بنائی ہوئی کوئی مشین کام کرتی ہے؛ اگر اس کا خیال رکھا جائے‘ صفائی کی جاتی رہے‘ پُرزے تبدیل کیے جاتے رہیں‘ تیل یا اور کوئی مطلوب چیز بروقت فراہم کی جاتی رہے تو اِس کی کارکردگی اچھی رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر ذہن اُسی طور جام ہو جاتا ہے جس طور کوئی مشین تیل نہ ڈالے جانے پر جام ہو جاتی ہے۔ ذہن میں بھی ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔ جو کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے اُسے ذہن سے نکال پھینکنا لازم ٹھہرتا ہے ‘تاکہ سوچنے کے عمل میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ آپ کے ذہن میں یومیہ بنیاد پر بہت کچھ داخل ہوتا ہے۔ اس میں کام کا مواد کم ہی ہوتا ہے۔ فضول یا بے سود مواد کو باقاعدگی کے ساتھ ذہن سے نکال باہر کرنا آپ کی چند بنیادی ذمہ داریوں اور ترجیحات میں سے شامل ہونا چاہیے۔ 
مائنڈ سیٹ کی درستی یقینی بنانے کے حوالے سے ماہرین کی آراء پر مبنی بہت سی کتب انٹر نیٹ پر مفت دستیاب ہیں؛ اگر آپ مطالعے کے شوقین ہیں‘ تو ان کتب کے عمیق مطالعے سے اپنا سوچنے کا انداز تبدیل کیجیے اور پھر دیکھیے کہ دنیا فی الواقع کس قدر حسین ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved