تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-01-2019

سانحہ اور ٹراما

ساہیوال سانحے نے کچھ ایسے سوالات کو جنم دیا ہے ‘ جن کا جواب کوئی نہیں ۔ جو لوگ بال بچّے دار ہیں ‘غیر ارادی طور پر وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ '' اگر میرے بچوں کے سامنے مجھے یوں قتل کر دیا جاتا تو ؟‘‘ ایک بچّے کے سامنے اس کے ماں باپ کو ایک تھپڑ بھی رسید کر دیا جائے‘ تو ننھا سا دماغ صدمے اور خوف کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ہر صاحبِ اولاد کو بچ جانے والے بچوں میں اپنی اولاد نظر آرہی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیاں ماریں ‘ کیا وہ سب خود بے اولاد تھے؟کیا ان کے کوئی جیتے جاگتے بیوی بچے‘ ماں باپ اور بہن بھائی دنیا میں موجود ہیں یا وہ آسمان سے نازل ہوئے ہیں ؟ ایک شخص گاڑی روکتا ہے ‘ اس میں سے بچوں کو اتارتا ہے اور پھران کے ماں باپ کو گولیاں مارکے قتل کر دیتاہے ۔ پھر وہ ان بچوں کو اٹھا کراپنی گاڑی میں لے جاتا ہے ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ انہیں پٹرول پمپ پر چھوڑ جاتا ہے ۔ وہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے ؟ایمان تو بہت دور کی بات‘ اگر اس میں انسانیت کی ایک رمق بھی موجودہو تو ایسے ظلم کے بعد اس کا ضمیر توباقی زندگی ایک لمحہ بھی اسے سکون سے رہنے نہیں دے گا؛ اگر اسے کوئی سزا نہ دی جائے تو بھی جب وہ گھر جا کر اپنے بچوں کا سامنا کرے گا تو کیا وہ اپنے ہو ش و حواس برقرار رکھ پائے گا؟ اگر رکھ پائے گا تو وہ ایک درندہ ہی ہو سکتاہے اور انسانوں کی آبادی میں درندوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ 
فرض کیجیے ‘قتل ہونے والے دہشت گرد تھے توپھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ قانون کے نرغے میں آنے کے بعد گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں پہ گولی چلانے کا کیا جواز تھا؟ یہ ایک ایسا واقعہ تھا‘ جس نے پورے معاشرے کو ہلا کے رکھ دیا ہے ۔ اللہ نے زندگی قصاص میں رکھی ہے ۔ قتل کرنے والوں کوجائز قانونی کارروائی کے بعد ریاست نے پھانسی پر نہ لٹکایا تو انارکی پھیل جائے گی ۔
میں نفسیات کا ایک طالبِ علم ہوں اور بالخصوص بچوں کے روّیے بہت غور سے observeکرتا ہوں ۔ میں یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ساہیوال سانحے میں بچ جانے والے بچّے غیر معمولی طور پر مضبوط اعصاب رکھتے ہیں‘ ورنہ ماں باپ کو قتل ہوتا دیکھنے کے بعد ایک عام بچّہ بات کرنے کے قابل کہاں رہ جاتا ہے ؟ کجا یہ کہ وہ سوالات کے ٹھیک جواب دے سکے ۔
آپ نے یہ سانحہ دیکھا‘ بچّوں کو traumaمیں دیکھا ‘ آپ خون کے آنسو روئے ‘ ہم سب روئے‘ لیکن ہم سب ایک بہت بڑی حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ آپ جب کوئی جنازہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں ''بیچارہ‘‘ ۔ ہم اسے بیچارہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مر گیا ۔ یہاں لاشعوری طور پر ہمارا نفس ہمیں مکمل یقین دلا دیتاہے کہ ہم کبھی نہیں مریں گے ۔ اسی طرح میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا زندگی میں آپ کو سانحات سے نہیں گزرنا پڑے گا؟ آپ کے ماں باپ‘ بیوی بچے اور بہن بھائی کبھی نہیں مریں گے ؟ ظاہر ہے کہ ان سب کو مر جانا ہے ۔ اس کے باوجود جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں تو ہمیں کبھی بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن انہیں لازماً مر جانا ہے ۔ ہمارا نفس ہمیں یقین دلا دیتاہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ ہمارا نفس ہمیں خوش رکھنے کے لیے ہر لمحہ دھوکے Generateکرنے میں لگا رہتا ہے ‘ورنہ انسان کبھی اس صدمے سے ہی نہ نکل سکتا کہ اس کے پیاروں کو ایک روز مرجانا ہے ۔ 
یہ سب وہ سائنسز ہیں ‘وہ طریقِ کار ہیں ‘ جن کی مدد سے خدا اس دنیا کو Governکر رہا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نے نفس میں اپنی شدید ترین محبت پیدا کی‘ جسم میں درد کا میکنزم پیدا کیا ‘تاکہ ہر جاندار ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا رہے ‘ پھر اس نے اولاد کی شدید ترین محبت دلوں میں پیدا کی‘ تاکہ سب جاندار اپنی اولاد کی حفاظت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے نفس میں شدید خواہشات پیدا کیں ‘ جن میں ڈوب کر انسان مستقبل میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کی موت کے خوف سے آنکھیں چرانے کے قابل ہو جاتا ہے ۔ 
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خصوصی مہربانی جو خدا نے اپنی مخلوق پہ کی ‘ وہ یہ ہے کہ دماغ کو صدمے سے نکلنے کی صلاحیت دی۔ ہر آنے والے لمحے میں صدمہ کم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ وہ آدمی اپنے بچّے کی موت پر جس کے آنسو نہیں رک رہے ہوتے ‘ وہ دوبارہ سے ہنسنا کھیلنا شروع کر دیتا ہے ۔ اصل میں دماغ میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ وہ جس بھی چیز سے واقف ہو جاتا ہے ‘ آہستہ آہستہ پھر اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔پھر اس بات پہ مختلف جذبات متحرک ہونا بند ہو جاتے ہیں ۔ آپ یہ دیکھیں کہ جس لطیفے پر انسان ہنس ہنس کر پاگل ہو رہا ہوتاہے ‘ چار پانچ دفعہ repeatہونے کے بعد اس پر ہنسی آنی بند ہو جاتا ہے ۔کسی کی موت کا صدمہ کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے ؛ اگر بتدریج صدمے سے نکلنے کی یہ صلاحیت دماغ میں نہ رکھی جاتی تو دنیا کا ہر انسان اس وقت ماضی کے صدمات میں اوندھے منہ پڑا ہوتا ۔ 
جو شخص بھی پیدا ہوا ہے ‘ اسے بہرصورت صدمات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ وہ غریب ہو یا امیر۔ حکمرانوں کو دیکھ لیجیے ۔بھٹو خاندان کو پہنچنے والے صدمات کا جائزہ لیجیے ۔ شریف خاندان کے عروج و زوال کی داستان عبرتناک ہے ۔ معمر قذافی کا خاندان ہمارے سامنے ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ جب ماں باپ پہلے دن بچے کو سکول چھوڑنے جاتے ہیں تو وہ ان سے الگ ہوتے ہوئے کس طرح غم سے بلک رہا ہوتاہے ۔ میں شرطیہ آپ سے کہتا ہوں کہ اگر دماغ میں صدمے کو جان لینے کے بعد اس کا عادی ہونے کا رجحان نہ ہوتا تو آج تک آپ سکول کے پہلے دن ماں باپ سے جدائی کے صدمے میں ہی پڑے ہوتے ۔ 
دو دن پہلے حب میں ایک فلائنگ کوچ اور ٹرک میں تصادم سے 27افراد زندہ جل گئے ۔ ظاہر ہے کہ وہ چھوٹے بچوں سمیت اپنے پیچھے رونے بلکنے والے 27خاندان چھوڑ گئے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 60ہزار افراد شہید ہوئے ہیں ۔ 60ہزار خاندان اپنے پیاروں کی موت کے صدمے سے گزرے ہیں ۔ میں ساتویں جماعت میں تھا‘ جب ہماری سکول ٹیچر وجیہہ صاحبہ کو خبر ملی کہ ان کی نانی فوت ہو گئی ہیں ۔ صدمے کی شدت سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس کام کرنے والے چاچا سرور دہشت گردی میں شہید ہوئے تو استاد کو سخت صدمہ ہوا۔ کہنے لگے کہ دوبارہ کسی شخص کو اتنے قریب نہیں آنے دوں گا کہ اس کی جدائی اس قدر تکلیف دے ۔ فرق یہ ہے کہ اللہ سے تعلق رکھنے والے صدمے میں ہوش و حواس کھو نہیں دیتے ۔ 
آپ بچّے ہیں یا بڑے‘ امیر ہیں یا غریب ‘ دنیا دار ہیں یا اللہ والے ‘ مقتدر ہیں یا رعایا ‘ بہرحال اس دنیا میں صدمات سے آپ کو گزرنا ہی پڑے گا ۔ساہیوال کے پھول جیسے بچّے اس عظیم سانحے کے باوجود اپنے حواس قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کے پیارے حادثے میں نہیں مریں گے ‘تو بڑھاپے اور بیماری سے فوت ہو جائیں گے ۔ آپ کو سانحات میں بہرحال اپنے حواس قائم رکھنا ہوں گے ۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved