تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-01-2019

سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے!!

سانحہ ساہیوال‘ وزیراعظم و وزیراعلیٰ استعفیٰ دیں: شہباز شریف
سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سانحہ ساہیوال پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ استعفیٰ دیں‘‘ جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر میں نے استعفیٰ اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں‘ بلکہ ہم دونوں بھائی عوام کی خدمت میں مصروف تھے اور میرے اس مستعفی ہونے کا وقت ہی نہیں تھا ‘ورنہ میں ضرور استعفیٰ دے دیتا اور اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ خدمت کا انجام یہ ہوتا ہے تو میں یہ خدمت دُگنا کر دیتا‘ کیونکہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے مطابق مرض کو بڑھانا ہی اس کا واحد علاج ہے‘ جبکہ بھائی صاحب بھی اسی فارمولے پر عمل پیرا تھے اور جب انہیں بھوک زیادہ لگنے کی شکایت ہوتی تو وہ کھانا ڈبل کر دیتے تھے‘ جو تیر بہدف ثابت ہوتا تھا‘ ورنہ تو ان کا تیر کبھی نشانے پر نہیں بیٹھا جو کہ اکثر ہوا میں تیر چلایا کرتے تھے؛ البتہ وہ ہوا کا رُخ ضرور دیکھ لیا کرتے تھے کہ کس قسم کی خدمت کیلئے موزوں وقت کون سا ہے اور وہ وقت کی بہت پابندی کرتے تھے‘ تاہم بُرا وقت آنے کا اندازہ نہ انہیں ہو سکا‘ نہ مجھے؛ چنانچہ اب اچھا وقت آنے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
نئے پاکستان میں قانون سے تجاوز کرنے 
والوں کی کوئی گنجائش نہیں: فیاض الحسن چوہان
وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''نئے پاکستان میں قانون سے تجاوز کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘‘ جبکہ گنجائش جہاں نہ ہو‘ وہاں کوشش کر کے پیدا کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ اللہ میاں کسی کی کوشش اور محنت ضائع نہیں کرتے‘ جبکہ ہم بھی کام سیکھنے میں کافی محنت کر رہے ہیں‘ اس لیے موجودہ دور کام سیکھنے کی کوشش کریں گے اور کام وغیرہ اگلے دور کے لیے اُٹھا رکھیں گے‘ کیونکہ جلد بازی شیطان کا کام ہے اور دستیاب روحانی طاقت کی وجہ سے شیطان ہمارے پاس سے بھی نہیں پھٹک سکتا اور دُور دُور ہی رہتا ہے اور اگر ہمیں یہ سہولت میسر نہ ہوتی تو وہ کب کا ہمارا کام کر چکا ہوتا‘ کیونکہ وہ ہماری طرح نہیں ہے اور اس نے کام اچھی طرح سے سیکھا ہوا ہے؛ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا یہ اس نے کتنی مدت میں سیکھا ہوگا؛ حالانکہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں اور ہر کوئی کر سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
جنگل میں رہتا اور لوگوں کے برتن بھی صاف کرتا رہا ہوں: مودی
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ''میں جنگل میں رہتا رہا ہوں اور لوگوں کے برتن بھی صاف کرتا رہا ہوں‘‘ اور اسی عادت کی بناء پر مسلمانوں کی طبیعت بھی صاف کرتا چلا آیا ہوں‘ کیونکہ صفائی انہیں بھی بہت پسند ہے ‘جسے وہ نصف ایمان سمجھتے ہیں اور اگرچہ میں ہاتھ کی صفائی میں بھی کافی جانکاری رکھتا ہوں‘ لیکن حالیہ ریاستی انتخابات میں میرا اپنا صفایا ہو گیا ہے اور آنے والے عام انتخابات کی فکر پڑی ہوئی ہے ‘جس کے لیے میں نے کنٹرول لائن پر اپنی حرکات و سکنات جاری رکھی ہوئی ہیں‘ جن حرکات زیادہ اور سکنات کم‘ بلکہ بالکل برائے نام ہیں اور وہ بھی پاکستان کی جوابی کارروائی کی وجہ سے ہی وجود میں آتی ہیںاور ہاں‘ پاکستان سے یاد آیا‘ وہاں میرے یارِ غار نواز شریف بھی میری طرح بیحد تکلیف میں ہیں‘ جس کی وجہ سے میری تکلیف بھی دو چند ہو گئی ہے‘ تاہم یہاں پر ان کے کاروبار کا کافی دھیان رکھا جا رہا ہے‘ جس کی انہیں کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم اسے اپنا ہی کاروبار سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز نئی دہلی میں فیس بک پیچ پر انٹرویو دے رہے تھے۔
فارورڈ بلاک‘ پی ٹی آئی کو مُنہ کی کھانا پڑی: ناصر حسین شاہ
وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ''فاورڈ بلاک پر پی ٹی آئی کو مُنہ کی کھانی پڑی‘‘ جبکہ ہمارے ہاں صرف مُنہ سے کھانے کا رواج نہیں ہے‘ بلکہ دیگر کئی اعضاء سے بھی اس ضمن میں کام لیا جاتا ہے‘ کیونکہ منی لانڈرنگ کیس میں جتنی خوراک کا ذکر آیا ہے‘ وہ صرف مُنہ سے نہیں کھائی جا سکتی اور جہاں تک یہاں فاورڈ بلاک بننے کا تعلق ہے تو وہ اگر کہیں بن رہا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن ابھی تک تو نہیں بنا ہے اور مختلف ارکان اسمبلی کی طرف سے جو اضافی مطالبات تھے‘ وہ بھی تسلیم کر لئے گئے ہیں۔ اور اگر اب بھی وہ فارورڈ بلاک بنا لیتے ہیںتو یہ صریح نمک حرامی ہوگی؛ حالانکہ یہ سمندری نمک نہیں ‘بلکہ خالصتاً کھیوڑہ کا نمک تھا اور یہی نمک وہ ہمارے زخموں پر چھڑکیں گے ‘جبکہ آج کل یہاں محاوروں پر ایسے بھی خاصا عمل کیا جا رہا ہے‘ جیسے زرداری صاحب کو گرفتار کیا جائے تو یہ مرے کو مارے شاہ مدار والے محاورے پر عمل ہوگا‘ جبکہ ہم لوگ ایسے بھی فعل کی بجائے عمل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کی تقریر کا 90فیصد حصہ سیاسی تھا: محمد زبیر
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''وزیر خزانہ اسد عمر کی تقریر کا 90فیصد حصہ سیاسی تھا‘‘ جبکہ ہمارے قائدین کی تقریروں کا زیادہ تر حصہ اخلاقی ہوا کرتا تھا اور سیاسی نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ماشاء اللہ کاروباری آدمی تھے‘ سیاست کے ساتھ تو ان کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہ تھا؛ چنانچہ انہوں نے کامیاب تاجروں کی طرح حکومت چلائی اور زیادہ سے زیادہ منافع کمایا ‘کیونکہ تاجر کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا؛ البتہ اب کافی عرصے سے حکومت کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح کچھ لے دے کر کوئی ڈیل وغیرہ ہو جائے اور اب تک کی شبانہ روز کوششوں کے بعد ڈیل تو نہیں ہو سکی؛ البتہ وغیرہ وغیرہ کافی مقدار میں ہو چکا ہے اور یہ بزرگ مقدار کے حوالے سے ہی مار کھا گئے‘ کیونکہ منافع کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں‘ جبکہ یہ حضرات پوری دلیری کے ساتھ حد سے گزرنے والے تھے اور کچھ ادارے ان کی نقل کرتے ہوئے نت نئے مقدمات بنا بنا کر اپنی حدوں سے گزر رہے ہیں‘ شیم‘ شیم۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
آج کا مطلع
چل دئیے بزم سے تیری دلِ تنہا لے کر
اب ہمیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved