تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     26-01-2019

پی ایم ایل (ق)‘ پی ٹی آئی کا اتحاد خطرے میں ہے؟

ایک خبر کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کے اسلام آباد میں منعقدہ ایک حالیہ اجلاس میں شرکاء نے پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اتحاد کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار، پارٹی کے صدر چودھری شجاعت حسین کو دے دیا ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اس اجلاس کی صدارت چودھری شجاعت حسین کر رہے تھے‘ اور اس میں شرکت کرنے والوں میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے موجودہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی، چودھری مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور حال ہی میں مستعفی ہونے والے صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر شامل تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں شریک پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے رویے کے بارے میں شکایات کیں اور اعلیٰ قیادت کو بتایا کہ انہیں اپنے حلقوں میں کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر عمار یاسر کے استعفے کے بارے میں بھی شرکاء نے اظہار خیال کیا۔ اگرچہ اجلاس کی بیشتر کارروائی مرکز اور پنجاب کی حکومت کے گرد ہی گھومتی رہی؛ تاہم صوبہ خیبر پختون خوا سے ایم پی اے مفتی عبیدالرحمن کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے رہنماؤں کو پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپنی حلیف جماعت پی ٹی آئی سے شکایات ہیں۔ یاد رہے کہ چند دن پیشتر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے پنجاب کی صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر نے بھی اس قسم کی شکایات کرتے ہوئے بغیر نام لیے اپنی حلیف سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اُن کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور ق لیگ میں ایک فارورڈ بلاک بنایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں سانحہ ساہیوال اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جرائم کے حوالے سے جو قراردادیں منظور کی گئیں‘ اُن میں جو الفاظ اور لہجہ استعمال کیا گیا، وہ نہ صرف مرکزی بلکہ پنجاب کی حکومت کی پالیسی اور موقف سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ مثلاً ساہیوال میں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے ہاتھوں چار افراد کے قتل پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا گیا‘ جبکہ پنجاب حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ آپریشن سو فیصد درست تھا۔ تین افراد یعنی خلیل، اُن کی بیوی اور بیٹی تو شاید ناحق مارے گئے، مگر ڈرائیور ذیشان کے بارے میں دعویٰ کیا جا ر ہا تھا کہ اُس کے ملک میں سرگرم خطرناک دہشت گردوں کے ساتھ رابطے تھے۔ اس کے برعکس ق لیگ کے اجلاس میں اس واقعہ پر منظور کی گئی قرارداد میں، حکومت پنجاب کے موقف کی تائید نہیں کی گئی‘ بلکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جرائم کی شرح پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے الفاظ اور لہجے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان قراردادوں کو پی ٹی آئی کی حلیف نہیں‘ بلکہ حریف پارٹی نے منظور کیا ہے۔ اگرچہ ان قراردادوں میں مرکزی اور پنجاب کی صوبائی‘ دونوں حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اُن کی مذمت نہیں کی گئی؛ تاہم ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیاں بدستور قائم ہیں‘ اور حکومتِ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے اس دعوے میں کوئی جان نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعظم عمران خان سے ق لیگ کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد باہمی رنجشیں اور غلط فہمیاں ختم ہو گئی ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے اس مسئلے پر حتمی فیصلے کا اختیار، چودھری شجاعت کے سپرد کرنے کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اس پر ایک متفقہ موقف ہے‘ لیکن وہ ابھی اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتی‘ بلکہ یہ فیصلہ چودھری شجاعت پر چھوڑنا چاہتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات کرکے کوئی حتمی رائے قائم کر سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے کی کیا قیمت چاہتی ہے؟ اور حافظ عمار یاسر کے استعفے کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رویے کے بارے میں شکایات کا اظہار کرکے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اس سلسلے میں ہمیں صحیح جواب کے لیے چند حقائق کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
پی ایم ایل (کیو) اور پی ٹی آئی کے اتحاد میں رخنے کی اطلاعات نئی نہیں ہیں۔ اس سے قبل جناب پرویز الٰہی اور طارق بشیر چیمہ‘ جہانگیر ترین سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے خلاف شکایت کر چکے ہیں‘ اور اُس وقت بھی اول الذکر کو موخرالذکر سے وہی شکایت تھی کہ بعض حلقوں میں اُن کے مفادات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مگر گورنر پنجاب اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی طرف سے پی ایم ایل (کیو) کے ساتھ کسی قسم کے اختلافات کی تردید کی گئی تھی۔ تازہ ترین دراڑ خاصی گہری معلوم ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پی ایم ایل (کیو) کا یہ احساس ہے کہ مخلوط حکومت خصوصاً پنجاب میں انہیں اقتدار اور اختیارات کا اتنا حصہ نہیں مل رہا، جتنا اُس کا حق بنتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اسمبلی میں پی ایم ایل (کیو) کی صرف 8 نشستیں ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے مقابلے میں پی ایم ایل (کیو) کا صوبہ پنجاب میں اثر و رسوخ کہیں زیادہ ہے‘ اور اس کا اثر پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے عہدے کیلئے انتخاب میں چودھری پرویز الٰہی کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی صورت میں صاف نظر آیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ پی ایم ایل (ن) کے کئی ارکان کا چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ ہے۔ 
حال ہی میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹیوں‘ خصوصاً پی ایم ایل (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرف سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر حکومت کا مقابلہ کرنے، بلکہ مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کو گرانے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں، انہوں باتوں نے پی ایم ایل (کیو) کیلئے ایک اچھا موقعہ فراہم کیا ہے کیونکہ مرکز اور پنجاب‘ دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ووٹوں کی معمولی تعداد کی برتری سے اقتدار پر قائم ہیں‘ اور اگر دونوں سطح پر یعنی ارکان نیشنل اسمبلی اور پنجاب اسمبلی اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں، تو پی ٹی آئی کی حکومتیں دھڑام سے نیچے گر سکتی ہیں۔ پنجاب کی 297 جنرل نشستوں میں سے پی ایم ایل (ن) نے پی ٹی آئی کی 123 کے مقابلے میں 129 نشستیں حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی‘ مگر پی ٹی آئی نے پی ایم ایل (کیو) اور آزاد ارکان کی حمایت سے وزیراعلیٰ کا انتخاب جیت کر اپنی حکومت تشکیل دی تھی۔ چودھری پرویز الٰہی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا اقتدار نہ صرف اُن کے 8 بلکہ آزاد ارکان کی حمایت سے قائم ہے اور اگر وہ اپنے ارکان کے علاوہ اُن آزاد ارکان کا بھی پی ٹی آئی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تو پی ٹی آئی کی حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ پی ایم ایل (ق) کیلئے چنانچہ پی ٹی آئی سے مزید مراعات حاصل کرنے کا یہ سنہری موقعہ ہے۔ یہ مراعات مرکز اور پنجاب میں مزید وزارتوں کی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں‘ اور صوبہ پنجاب میں انہیں بلا روک ٹوک اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے میں مکمل آزادی کی صورت میں بھی۔ پی ایم ایل (کیو) نیب کی ممکنہ کارروائیوں سے بھی خوف زدہ ہے کیونکہ نیب کی طرف سے جن افراد کے خلاف انکوائری شروع کرنے کا کچھ عرصہ پہلے اعلان کیا گیا تھا، اُن میں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے نام بھی شامل تھے۔ پی ایم ایل (کیو) 2000 میں پرویز مشرف کی کوششوں سے معرضِ وجود میں آئی تھی‘ اس لیے اسے کنگز پارٹی کا نام دیا جاتا تھا۔ اس نسبت سے وہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی زیادہ مستحق سمجھتی ہے۔ پی ایم ایل (کیو) اور پی ٹی آئی کے درمیان موجودہ اختلافات یا رنجشیں بے شک پہلے کے مقابلے میں زیادہ گہری ہیں‘ لیکن ان کا اتحاد ٹوٹنے کے خدشات کم ہیں‘ کیونکہ دونوں کو پی ایم ایل (ن) کا دوبارہ اقتدار میں آنا قابل قبول نہیں؛ البتہ اگر یہ اختلافات دور نہ ہوئے اور ق لیگ کی طرف سے پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کے آثار نمایاں ہوئے، تو میرے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت ق لیگ کی بلیک میلنگ کا شکار ہونے کی بجائے قبل از وقت انتخابات کو ترجیح دے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved