یہ تازہ شمارہ ہے جس کے مدیر اختر رضا سلیمی‘ نگران سید جنید اخلاق اور مدیر منتظم ڈاکٹر راشد حمید ہیں۔ اندرونی سرورق پر شمارے کے مصور تنویر فاروقی کی تصویر اور تعارف ہے جو حمزہ حیدرنے لکھا ہے۔ حمد و نعت کے بعد غزلوں سے ابتدا کی گئی ہے جن کی تعداد 40ہے۔ شعرا کے نام درج کرنے لگوں تو سارا کالم ہی تمام ہو جائے گا۔ اس لیے منتخب اشعار پر ہی گزارہ کیجیے:
وہ لب کُشا جو ہُوا تھا تو چھا گیا تھا سکوت
وہ چُپ ہُوا تو خموشی کلام کرنے لگی (عباس رضوی)
وہ جو اک شے کہیں پڑی ہوئی تھی
پھر جو دیکھا نہیں پڑی ہوئی تھی
آج مل ہی نہیں رہی دنیا
کل تلک تو یہیں پڑی ہوئی تھی
میں اُسے دیکھ ہی نہیں پایا
میرے اتنے قریں پڑی ہوئی تھی (طارق نعیم)
دیکھنے والے کی آنکھوں میں بڑھاپا آ گیا
دیکھتے ہی دیکھتے صورت پرانی ہو گئی (نسیم عباسی)
وہ رکھ رکھاؤ عجب تھا کہ خلق آتی تھی
ہمارے ہاں ادب آداب دیکھنے کے لیے (اختر عثمان)
اور ہی کچھ ہے یہاں موجودگی
جو بھی ہے موجود ناموجود ہے (ڈاکٹر ضیاء الحسن)
کچھ وہاں واقعی تھا لیکن
کچھ وہاں واقعی نہیں تھا
سب مناظر بدل رہے تھے
ان میں بھی وُہی نہیں تھا (سحر تاب رومانی)
کیا پہلا شخص ہوں جو اس جگہ سے گزرا ہوں
یقین کر کہ یہاں کوئی راستا نہیں تھا
عجیب لوگ تھے مُردوں سے بات کرتے تھے
جو مر رہے تھے اُنہیں کوئی پوچھتا نہیں تھا (مظہر حسین سید)
جو ترے خواب کو راستا دے سکے
کوئی ایسا دریچہ نہیں ہے بہن (عنبرین صلاح الدین)
اک ہجر جس میں مہکا رہے لمس کا کنول
اک وصل جس میں قُرب کا کوئی گزر نہ ہو (احمد فرہاد)
تُم کو کیا معلوم کہ کتنی مشکل سے
تھوڑی سی آسانی پیدا کرتا ہوں (اسامہ امیر)
نظم گوؤں میں آفتاب اقبال شمیم‘ ناصر زیدی‘ نصیر احمد ناصر‘ علی محمد فرشی‘ عزیز اعجاز‘ طاہر شیرازی‘ عاطف علیم‘ عبید بازخ ‘ نینا عادل‘ امجد بابر‘ کنیز فاطمہ سیماب‘ عین نقوی‘ شیراز بشارت خاں جبکہ افسانہ نگاروں میں محمود احمد قاضی‘ محمد الیاس‘ خالد فتح محمد‘ آغا گُل‘ شعیب خالق‘ زیب اذکار حسین‘ بلال احمد‘ ارشد مُرشد‘ سید ماجد شاہ‘ سجاد بلوچ‘ عثمان عالم اور دیگران شامل ہیں۔ ان کے علاوہ احمد حسین مجاہد کے ناول کا ایک باب۔ یاد داشتیں فریدہ حفیظ نے قلمبند کی ہیں۔ اس کے بعد خاکسار اور مبین مرزا کا ایک ایک مضمون جبکہ یادِ رفتگاں کے عنوان کے تحت ڈاکٹر آصف فرخی کا انتظار حسین پر مضمون ہے اور محمد عاصم بٹ اور ادریس بابر کے مضامین۔
اس کے بعد تراجم ہیں انگریزی‘ ہندی اور روسی وغیرہ سے۔ اس کے بعد اختر عثمان کا فارسی شاعری کے حوالے سے امیر خسرو پر مضمون اور منیر فیاض کے ٹریسی پر دو مضمون اور امرتا پریتم کی دو پنجابی نظموں کا ترجمہ اختر رضا سلیمی کے قلم سے۔ اس کے بعد پاکستانی زبانوں سے تراجم ہیں جو بلوچی‘ پشتو‘ پنجابی‘ پوٹھوہاری‘ سرائیکی‘ سندھی‘ کشمیری اور ہند کو سے ہیں۔
اور‘ اب حصۂ نظم میں سے:
نظم ایک عورت کا پرس ہے
نظم خطوں میں لکھی ہوئی محبت تھی/ جسے دیمک کھا گئی/ نظم بادلوں کا درخت تھی/ اور بارش کا پھول/ جسے ہوا لے اُڑی/ نظم ایک لڑکی کے ہاتھ کا لمس تھی/ جسے ایک شاعر نے چھو لیا/ اور وہ پرندہ بن گئی/ نظم اے ٹی ایم سے نکلی ہوئی رقم تھی/ جسے ایک عورت کا پرس کھا گیا (نصیر احمد ناصر)
عجب خاں
عجب خاں جو مصّور ہے/ عجب خاں وہ مصور ہے/ بہت سے گم شدہ دریا ہیں/ جن کے پانیوں کی کھوج میں/ معلوم صحراؤں کی جانب جا نکلتا ہے/ عجب خاں جب شبینہ کینوس پر/ متشر کرتا ہے رنگوں کو/ سُنا ہے چاندنی اُس دم/ نچھاور ہوتی جاتی ہے/ کہیں پانی کہیں کائی/ کوئی کشتی کوئی راہی/ سب اُس کے ساتھ ہوتے ہیں/ عجب کی سوجتی آنکھوں میں جب دن رات ہوتے ہیں/ وہ ست رنگی کمانوں کا/ جہانوں کا مصور ہے/ وہ خوشبو کو گلابوں سے بھی پہلے/ دُودھیا کاغذ پہ جب تخلیق کرتا ہے/ کمالِ فیض کی تصدیق کرتا ہے/ وہ جب ویرانیاں/ حیرت کدوں میں ڈھال دیتا ہے/ وہ جب منظر بناتا ہے/ اگر وہ گھر بناتا ہے/ تو اندر کی طرف کھلتے ہوئے کچھ در بناتا ہے/ پرانی بے تمازت کھڑکیوں میں رنگ بھرتا ہے/ تو جیسے اپنے سارے خواب وہ تصویر کرتا ہے/ بہت اوجھل ہوئے جاتے زمانوں کو وہ دل آویز کرتا ہے/ عجب خاں اپنی تنہائی کو رنگ آمیز کرتا ہے (طاہر شیرازی) پرچے کی قیمت 100روپے ہے۔
آج کا مقطع:
وقت اچھا گزر رہا ہے، ظفر
بُرے لوگوں کے درمیان میں بھی