تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-01-2019

… رہنما چاہیے!

بہت کچھ ہے جو بہت واضح دکھائی دیتا ہے مگر پھر ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ یہ محض آج کا مسئلہ نہیں۔ ہر دور میں معاشروں کو ایسی شخصیات کی ضرورت رہی ہے جو ایسا بہت کچھ دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہوں‘ جو بالکل واضح ہونے کی صورت میں بھی عام آدمی کو دکھائی نہ دیتا ہو۔ 
قیادت کا منصب صرف اِس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ جو کچھ عام آدمی کی نظر میں اہمیت نہ رکھتا ہو اُسے واضح طور پر یوں بیان کرے کہ لوگ اُس کی اہمیت تسلیم کرنے پر مائل ہوں اور اپنے فکر و عمل میں وہ بلندی پیدا کریں جو معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ 
قائدانہ کردار بہت کچھ مانگتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں اور کسی بھی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال کا درجہ اختیار کرنا چاہیے۔ اُس کے فکر و عمل سے لوگوں کو نیا سوچنے اور اُس کے مطابق عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کی تحریک ملنی چاہیے۔ 
آج ہمارے ہاں ہر شعبے میں قیادت کا بحران ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ بحران اس لیے ہے کہ پورا معاشرہ تلپٹ ہوچکا ہے‘ خرابیوں کی زد میں ہے۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی قائدین بھی پائے جائیں گے کیونکہ قائدین بھی معاشرے ہی سے آتے ہیں۔ اگر معاشرہ مجموعی طور پر غیر معمولی خرابیوں کی لپیٹ میں ہو تو قائدانہ صلاحیتوں کے حامل اور قائدانہ کردار ادا کرنے کی بھرپور خواہش رکھنے والوں کو تربیت کے مرحلے میں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایک طرف تو اُنہیں اپنی اصلاح پر زیادہ متوجہ ہونا پڑتا ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی اُن کے حصے کا کام بڑھادیتی ہے کہ معاشرہ بگڑا ہوا ہے یعنی لوگوں کو راہ دکھانا آسان نہیں۔ 
قائدانہ کردار کے کئی بنیادی تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نبھانا ہی پڑتا ہے۔ قائد کو جذبات اور اعصاب کی سطح پر بہت مضبوط ہونا چاہیے۔ اُس کے کردار اور نظر میں بلندی ہونی چاہیے۔ معاملات کو تیزی سے سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ظاہر کی آنکھ سے کم اور دیدۂ دِل کی مدد سے زیادہ دیکھنے کی عادت زیادہ پختہ ہونی چاہیے۔ مزاج ایسا نہ ہو کہ بات بات پر بھڑک اٹھے اور تمام ہی معاملات کو تلپٹ کر بیٹھے۔ فیصلے خود کرتا ہو مگر مشاورت سے گریز نہ کرتا ہو۔ جو سوچ لیا ہو اُس پر عمل کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتا ہو۔ حالات پر ایسی نظر ہو کہ کوئی بھی اہم معاملہ پوشیدہ اور ''بے سمجھا‘‘ نہ رہے۔ 
اِن تمام بنیادی صفات پر غور کیجیے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج ہمارے ہاں ہر شعبے میں قائدین کس سطح پر کھڑے ہیں۔ جنہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اُنہی میں بہت حد تک کھوٹ پائی جاتی ہو تو کسی بھی حوالے سے بہتری کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو تو کیسے ہو؟ یہی سبب ہے کہ آج وطن کا ہر شعبہ رُو بہ زوال ہے۔ جنہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے وہ اپنی ذمہ داری سے بہ طریقِ احسن سبکدوش ہونے کے بجائے غیر متعلق معاملات اور سرگرمیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ 
انتھونی پیگینو نے قائدانہ کردار کے حوالے سے خوب کہا ہے کہ قائد کو کسی نہ کسی چیز کے لیے ڈٹ جانا پڑے گا۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو کسی بھی چیز کے لیے لڑھک سکتا ہے! کسی بھی شعبے میں قیادت کے فرائض سنبھالنے والے ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ بھی درست سمجھے اُسے بیان کرے اور اُس پر ڈٹ جائے۔ یہ ثابت قدمی ہی طے کرتی ہے کہ جسے قیادت سونپی گئی ہے وہ کس حد تک جائے گا اور جن کی قیادت وہ کر رہا ہے اُنہیں کہاں تک لے جاسکے گا۔ 
کسی بھی شعبے کے قائد کے لیے بنیادی کام ہے ثابت قدم رہنا۔ اگر اُس میں ثابت قدمی ہوگی تو اُن سب میں بھی ثابت قدمی پائی جائے گی جن کی قیادت کا فریضہ وہ انجام دے رہا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ڈٹ جانے کے حوالے سے سب سے پہلے قائد کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ شدید بحرانی حالت میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے ہی کی بنیاد پر قائد کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ قائد کو بہت سی صلاحیتوں اور صفات کا مجموعہ ہونا چاہیے مگر سب سے بڑھ کر اُس میں ثابت قدمی ہونی چاہیے۔ اگر قائد ہی اپنی جگہ نہ رہے تو دوسروں سے ڈٹے رہنے کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟ 
ہمارے ہاں قیادت کے حوالے سے ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ سیاست‘ معیشت‘ تجارت‘ صنعت و حرفت‘ تدریس‘ کھیل‘ شوبز‘ میڈیا اور دیگر بہت سے شعبوں میں معاملات اِس قدر بگڑے ہوئے ہیں کہ قدم قدم پر خرابی دکھائی دیتی ہے۔ جنہیں قیادت کا منصب سونپا جاتا ہے وہ اس حوالے سے خود کو پوری طرح تیار نہیں کرتے۔ جیسے ہی بحرانی کیفیت نمودار ہوتی ہے اُن کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ لوگ جن کی طرف راہ نمائی کے لیے دیکھتے ہیں اُنہی کے قدم اکھڑ جاتے ہیں! ایسے میں کوئی بھی بڑی تبدیلی ممکن بنائی جائے تو کیونکر؟ 
سیاست اور معیشت کے حوالے سے معاملات زیادہ خراب ہیں۔ ایک زمانے سے مارکیٹ میں معیاری سیاسی و معاشی قائدین نہیں آرہے! مجبوری کا سودا ہے‘ دستیاب سٹاک پر گزارا ہے! سیاست ہی کو لیجیے۔ ایک زمانے سے قوم منتظر ہے کہ کوئی آئے جو راہ دکھائے۔ قوم کا معاملہ یہ ہے کہ منزل تو دکھائی یا سُجھائی دے جاتی ہے‘ راہ نہیں ملتی۔ ؎ 
منزلوں سے گزرتی جاتی ہے 
زندگی راہ پر نہیں آتی! 
قائد وہ ہے جو منزل تک پہنچنے والی راہ کی بروقت اور بھرپور نشاندہی کرے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ منزل ہمیشہ قائد سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ''ہم کو منزل نہیں‘ رہنما چاہیے‘‘ ایک لایعنی نعرہ ہے۔ کوئی بھی قائد کبھی منزل سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔ قائد کی شخصیت مختلف پہلوؤں سے پُرکشش اور دل فریب ہوتی ہے۔ عام آدمی جب کسی کو اپنا قائد تسلیم کرتا ہے تو کسی نہ کسی اعتبار سے اُس کی شخصیت کے سِحر میں گرفتار بھی ہو جاتا ہے۔ یہ سِحر ہی انسان کو مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ کسی سے بہت متاثر ہونے پر شخصیت پرستی شروع ہوتی ہے۔ انسان جسے قائد قرار دیتا ہے اُسے‘ غیر محسوس طور پر‘ پُوجنے بھی لگتا ہے۔ پھر جب قائد کی خامیاں اور کوتاہیاں سامنے آتی ہیں تب من مندر میں رکھی ہوئی مُورت ٹوٹتی ہے اور اِنسان شدید رنج و غم سے دوچار ہوتا ہے۔ 
ہمارے نصیب کا عالم یہ ہے کہ ہمیں سیاست میں وہ قائدین میسر ہیں جو اپنے منصب کے تقاضوں کے سوا سب کچھ جانتے ہیں۔ سیاسی قائدین کی اکثریت چونکہ بہتر تربیت کی حامل نہیں اِس لیے کسی چیز کے لیے ڈٹ جانے پر کسی بھی چیز کے لیے لڑھکنے کو ترجیح دیتی رہتی ہے اور اِس کے نتیجے میں قائدانہ منصب کا وقار دُھول چاٹتا رہتا ہے۔ 
آج ہمیں ہر شعبے میں ایسے قائدین درکار ہیں جو اس منصب کے حوالے سے موزوں اور جامع تربیت کے حامل ہوں۔ ہر شعبہ ایسے قائدین کے لیے ترس رہا ہے جو اپنی بات پر قائم رہنا جانتے ہوں‘ ثابت قدمی سے عمل کی دنیا میں خود کو منوانے کی اہلیت رکھتے ہوں‘ اپنے ساتھ ساتھ اُن سب کا بھلا کرنا جانتے اور چاہتے ہوں جن کی قیادت کا فریضہ سونپا گیا ہو۔ ''قائد ساز‘‘ اداروں کو اس حوالے سے غیر معمولی سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved