تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-01-2019

کم علمی کا خوف …(1)

اس دنیا میں زندگی گزارنے کے دو انداز ہیں ۔ایک انداز تویہ ہے کہ بندہ reflexesپر چلتا ہے ۔ مثلاً آپ ایک گاڑی کو برق رفتاری سے اپنی طرف بڑھتا دیکھتے ہیں توچھلانگ لگا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں ۔ گرم چیز کو ہاتھ لگتاہے تو آپ ایک سیکنڈ میں اسے پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ بندہ یہ سب کچھ غیر ارادی طور پر کرتاہے۔ اسے reflexکہتے ہیں ۔جو گرم چیز اور جو تیز گاڑی آپ کی طرف بڑھ رہی ہے ‘ اسے stimulusکہتے ہیں ۔سب جانور مکمل طور پر ان reflexesپر ہی منحصر ہوتے ہیں ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلی اور چمپینزی جس تیز رفتاری سے خطرے سے دور بھاگتے ہیں ‘ انسان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ انسان کافی سست ہے ۔ 
زندگی گزارنے کا دوسرا انداز یہ ہوتاہے‘ جو صرف انسانوں میں ہے اور انسانوں میں سے بھی فقط ایک فیصد میں ۔ وہ یہ ہے کہ بندہ stimulusکو respondتو کرتاہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا ہے کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں ؟یہ چیز انسانوں میں unique ہے۔ اس کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان کا دل چاہ تو کچھ اور رہا ہوتاہے لیکن وہ اپنی خواہش کے برعکس‘ reflex کے برعکس ایک عمل کر ڈالتا ہے ۔ یہی وہ چیز ہے ‘ جس کے لیے انسان کو تخلیق کیا گیا ہے ۔ اس کے دل میں ایک خواہش رکھی گئی ہے اور اسے منع کر دیا گیا ہے کہ وہ اسے respondکرے ۔ یہ ایک ایسی uniqueچیز ہے ‘ جو خدا ہی تخلیق کر سکتا تھا۔ اس لیے کہ انسان بھی کائنات میں قدرتی طور پر پائے جانے والے 92عناصر میں سے کچھ کے آپس میں ملنے سے بنا ہے ۔ ان عناصر کی مخصوص (fixed) خصوصیات ہیں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک عنصر دو چیزوں میں سے ایک کا فیصلہ کرنے لگ جائے کہ میں یہ کروں یا وہ کروں ؟ ہائیڈروجن کو تیلی لگے گی تو اس نے بہرحال بھڑک کر جلنا ہے ۔وہ نہ جلنے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ انسان میں یہ منفرد خصوصیت رکھی گئی ہے کہ وہ نہ جلنے کا یہ فیصلہ کر سکتاہے ۔ 
جائیداد پر جھگڑوں سمیت جو کچھ بھی دنیا میں ہو رہے‘ وہ stimulusکو respondکرنے کی وجہ سے ہے ۔ انسان اس responseکا اتنا عادی ہوتاہے کہ چند لمحے اپنے ردّعمل کو روک نہیں سکتا اور ہمیشہ باقی رہنے والا نقصان کر بیٹھتا ہے ۔اگر آپ اس پر غور کرنا شروع کر یں کہ ساس بہو کے جھگڑوں سمیت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ وہ کیوں ہو رہا ہے تو پھر آپ جانوروں کی سطح سے اوپر اٹھ سکتے ہیں ۔ پھر آپ پر عجیب عجیب انکشافات ہونے لگتے ہیں ۔ 
آپ پیسوں کا معاملہ لے لیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ پیسے دنیا میں existہی نہیں کرتے تو یہ بات کتنی عجیب لگے گی‘ لیکن یہ بہت بڑی حقیقت ہے ۔آپ یہ دیکھیں کہ دن بھر میں آپ گندم کی روٹی کھاتے ہیں ۔ یہ گندم زمین سے اگی ہے ۔ آپ گاڑی میں سفر کرتے ہیں ۔ گاڑی لوہے سے بنی ہے ۔ لوہا زمین کے نیچے سے نکلا ہے ۔گاڑی کے انجن میں تیل جلتا ہے ۔ یہ تیل زمین کے نیچے سے نکلا ہے ۔ گاڑی کے ٹائر ربڑ سے بنے ہیں ۔ ربڑ ایک درخت سے نکلتاہے ۔ آپ پھل کھاتے ہیں ۔ پھل زمین میں اگنے والے درختوں پر لگتے ہیں ۔ آپ بال ترشواتے ہیں۔ حجام قینچی استعمال کرتاہے ۔ قینچی لوہے سے بنی ہے ۔ آپ لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں ۔ اس میں سلیکان کے پرزے استعمال ہوئے ہیں ۔ سلیکان زمین میں سے نکلا ہے ۔ آپ جس چیز کی تہہ میں بھی اتریں گے‘ وہ زمین کے اوپر یا اس کے اندر سے قدرتی طور پر نکلی ہوگی ۔ پھر یہ کاغذ کے نوٹ کہاں سے بیچ میں آگئے ؟ 
حقیقت یہ ہے کہ خدا نے زمین پر مخلوقات کو بسانا تھا تو اس نے انہیں پیدا کرنے سے پہلے خصوصی طور پر زمین میں گندم سمیت وہ سب چیزیں تخلیق کیں ‘ جن کی ان مخلوقات کواپنی زندگی میں ضرورت پڑنا تھی ۔''میرے جسم کی کیلشیم ‘‘ کے عنوان سے میں ایک کالم لکھوں گا تو آپ کو بہت زیادہ حیرت ہوگی ۔ خدا کو تو اس ایک ایک گندم کے دانے اور سیب تک کا علم ہے ‘ جو کہ آپ نے اپنی زندگی میں استعمال کرنا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اضطراب میں ہوں ۔مجھے نہیں پتہ کہ میں نے گندم کا کون سا دانہ کس وقت کھانا ہے ۔ اس کم علمی کی وجہ سے مجھے شدید خوف لاحق ہے ۔ اس خوف کی وجہ سے شروع میں انسان گندم جمع کر تا رہا۔ آج وہ پیسے جمع کرتا ہے ۔ اسے بھوکے مر جانے کا خوف ہے ۔ survivalکا شدید خوف ۔
سچ یہ ہے کہ کم علمی کا خوف انسان کو کھا گیا ہے ! 
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب پیسے existنہیں کرتے تو پھر کیا eixstکرتاہے ۔ جواب یہ ہے کہ barterسسٹمexistکرتاہے ۔ میں نے گندم اگائی اور ایک ڈاکٹر کو دے دی ۔ اس ڈاکٹر نے میرا گلا ٹھیک کر دیا ۔ ڈاکٹر نے بشیر کا گلا چیک کیا ۔ بشیر نے ڈاکٹر کو دودھ دے دیا۔ پیسے اس سارے عمل کو تیزی سے facilitateکرنے کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں لیکن پیسے آپ کھا نہیں سکتے ۔ آپ توگندم کھا سکتے ہیں ۔ 
دنیا میں زیادہ تر لوگ رات کو اس فکر کے ساتھ سوتے ہیں کہ اگلے دن کے اخراجات‘ کھانا‘ گھر کا کرایہ ‘ بچوں کی فیس کہاں سے ادا ہوگی۔ فرض کریں کہ ایک صبح آپ سو کر اٹھتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا جاتاہے کہ آج سے دنیا میں پیسے ختم ہو گئے ہیں ۔ آپ جہاں جائیں گے ‘ وہاں آپ کی ضرورت پوری کر دی جائے گی ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ کر پٹرول پمپ تک جاتے ہیں ۔ پٹرول ڈلواتے ہیں ۔ آپ سے پیسے نہیں لیے جاتے ۔ آپ ہوٹل پر کھانا کھاتے ہیں ‘ پیسے دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بدلے میں آپ سے کہا جاتاہے کہ د ن میں آٹھ گھنٹے لوگوں کے کام کریں ‘ جیسے وہ آپ کی خدمت کر رہے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت بھی یہی سسٹم چل رہا ہے ۔ آپ زمین پر پائی جانے والی چیزوں سے اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں ‘ جو اللہ نے آپ کے لیے پیدا کیں اور یہ جو آپ کو لگتا ہے کہ میں بڑی محنت سے کمائی کر رہا ہوں ‘ یہ ایک دھوکہ (illusion)ہے ۔ آپ کو اس دھوکے میں ڈالا گیا ہے ۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ جن کو پیٹ بھر جاتاہے اور جو survival میں سے نکل جاتے ہیں ‘ وہ پھر آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ۔رابعہ بصریؒ اور جنیدِ بغدادؒ جیسے جو صوفیا دنیا میں گزرے‘ انہیں معلوم تھا کہ میرا دانہ ء گندم کو ئی اور نہیںکھا سکتا ۔ اس لیے وہ مطمئن تھے بلکہ رابعہ بصریؒ سے تو واقعہ منسوب کیا جاتاہے کہ انہوں نے شدید بھوک کے باوجود ایک بار کھانا واپس کر دیا تھا کہ یہ میرا کھانا نہیں ۔ 
آپ اس معاملے کو ایک اور نظر سے دیکھیے۔ آپ کو لگتاہے کہ ایک خاص مقدار میں دولت مل جائے تو پھر آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایسا ہی ہے نا ؟ تو پھر جن لوگوں کے پاس زیادہ دولت موجود ہے ‘ کیا ان کے مسائل حل ہو چکے ہیں ؟ ان میں سے اکثر تو مزدور سے بھی زیادہ پریشان ہیں ۔ (جاری ) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved