سانحہ ساہیوال کو سات روز گزر چکے‘ لیکن اس کے خلاف غم و غصہ ابھی تک کم نہیں ہوا۔ اِس سانحے کو واردات کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ ایک بے گناہ شہری اور اُس کے خاندان کے کئی افراد کو اُس کے بچوں کے سامنے بھون کر رکھ دینا ایسی بات ہے بھی نہیں‘ جسے بآسانی بھلا دیا جائے۔ کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے تربیت یافتہ افسروں اور اہلکاروں نے اس گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیسے اور کیوں کیا؟ اِس سوال کا جواب ابھی تک مل نہیں پا رہا۔ اِس آپریشن پر معافی مانگ لی گئی ہے۔ پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری برائے داخلہ نے میڈیا کے سامنے ہلاک کیے جانے والے خلیل اور اس کی فیملی کے ارکان کو شہید قرار دیا، اور گفتگو کے آغاز سے پہلے ایصالِ ثواب کے لیے دُعا بھی کرائی۔ یہ بھی کہا کہ جو آپریشن کیا گیا، وہ انتہائی ناقص تھا، منصوبہ بندی اور عملدرآمد دونوں میں نقص تھا۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ کار چلانے والا نوجوان ''ذیشان‘‘ داعش کا حصہ تھا، اس کے موبائل فون سے حاصل ہونے والی تفصیلات کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اِس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ ذیشان کے خلاف شواہد اُس کی ہلاکت کے بعد سامنے آئے، یا اِس سے پہلے اس پر سرخ نشان لگا ہوا تھا۔
جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ ابھی تک مرتب نہیں ہوئی، چند روز اس میں مزید لگیںگے۔ اس کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ ذیشان کے بارے میں کیے جانے والے دعوے میں کتنا وزن ہے، اور اسے قانون کی عدالت میں ثابت کیا جا سکے گا یا نہیں۔ آئی جی پنجاب نے سینیٹ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس سانحے نے سی ٹی ڈی کی کمر توڑ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مذکورہ ادارے کی خدمات کی تفصیلات بھی بیان کرنا شروع کر دیں۔ اس میں شک نہیں کہ سی ٹی ڈی نے پنجاب میں دہشت گردوں کا تعاقب بڑی کامیابی سے کیا، اور پنجاب کو محفوظ بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ پولیس کا کوئی عام سا شعبہ نہیں ہے، اس کے اہلکاروں کی بھرتی، تربیت اور شرائط ملازمت سب کچھ خاص ہے، پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف اسے اپنے تاج کا ایک ہیرا سمجھتے تھے، اور اس پر نازاں رہتے تھے۔ اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ چند اہلکاروں کی غفلت یا حرکت کی سزا پورے ادارے کو نہ دی جا سکتی ہے نہ دی جانی چاہیے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سی ٹی ڈی کے رویّوں سے شہریوں کو شکایات پہلے بھی رہی ہیں، لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو پائی۔ میڈیا بھی ان پر توجہ نہیں کرتا کہ دہشت گردی کی وبا جب پھیلی ہوئی ہو، تو اس کا مقابلہ کرنے والوں کی کسی بھول، چوک کو قابلِ معافی سمجھا جاتا ہے، اور اس کی سرخیاں لگانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہمارے دفتر میں بھی ایسی کئی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں، لیکن خصوصی ماحول کی ہی وجہ سے انہیں قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو حفصہ نامی ایک بیوہ کی طرف سے بھیجی گئی درخواست کی نقل کئی ماہ سے ہمارے پاس موجود ہے، لیکن فاضل جج صاحب نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ چک نمبر 126 گوجرہ والی، ہارون آباد کی رہائشی خاتون کی فریاد تھی کہ اس کا شوہر ابوبکر ساہیوال جیل میں تین سال قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ اس کے شریک مقدمہ حاجی عبدالغنی تھے، دونوں کی سزا پوری ہوئی تو حاجی صاحب رہا ہو گئے، لیکن ابوبکر کو جیل حکام نے رہا نہیں کیا۔ حفصہ ملنے گئی تو ملاقات بھی نہیں کرائی گئی، لیکن چند روز بعد یہ خبر ملی کہ اس کا شوہر جیل سے فرار ہو گیا تھا، اور ایک مقابلے میں مار ڈالا گیا۔ کئی روز اِدھر اُدھر دھکے کھانے کے بعد اس کی لاش میو ہسپتال کے مردہ خانے سے دستیاب ہوئی۔ اس خاتون کا سوال یہ تھا، اور ہے کہ سزا پوری کرنے والے شخص کو جیل سے فرار ہونے کی ضرورت کیا تھی؟ آخر کوئی تو تھا جس نے سزا کے بعد بھی اس کو معاف نہیں کیا، اور بڑی آسانی سے ہلاک کر ڈالا۔ اس خونِ ناحق پر کس کی گردن ماپی جائے، یہ وہ بے چاری کیسے جان سکتی ہے؟ کئی اور شکایات بھی وقتاً فوقتاً موصول ہوتی رہتی ہیں، ساہیوال کی واردات نے ان کی اہمیت دو چند کر دی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا لکھا ہو گا، اور متعلقہ اہلکاروں سے بالآخر قانون کی عدالت میں کس طرح نبٹا جائے گا، سی ٹی ڈی کے معاملات کا ایک مکمل آڈٹ کیا جانا چاہیے۔ گرفتار شدگان کے معاملات کی بھی چھان بین کی جائے اور دیکھا جائے کہ شک کی بنیاد پر کہاں کہاں قیامت ڈھائی جا چکی ہے۔ شکایات کی سماعت کے لیے بھی محکمانہ انتظام کیا جانا چاہئے۔ کسی کے ہاتھ میں جب بہت زیادہ طاقت دے دی جائے تو اس کے من مرضی استعمال کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔ ماورائے عدالت ہلاکت کو معمول بنا لینا، اور اس کی عام اجازت دے دینا مہذب معاشرے کے کسی بھی تصور سے لگاّ نہیں کھاتا۔
سانحہ ساہیوال کے بعد پولیس اور حکومت نے جس طرح اپنے بیانات بدلے، اور جھوٹ بول کر معاملے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی، اس کا جائزہ بھی وزیر اعظم عمران خان کو ضرور لینا چاہیے۔ اس سے جذبات مزید مشتعل ہوئے۔ غلط بیانی اور یاوہ گوئی کا ارتکاب کرنے والوں کی سرکوبی نہ کی گئی تو یہ آگ لگانے کو مشغلہ بنائے رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جب خلیل مرحوم کے بچوں کی عیادت کیلئے ہسپتال پہنچے تو پھولوں کا گلدستہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اِس حرکت کے ذمہ دار کا تعین بھی لازم ہے۔ مزید یہ کہ خلیل مرحوم کے لواحقین کو جناب صدرِ پاکستان اور چیئرمین سینیٹ نے ملاقات کیلئے اسلام آباد طلب کیا، لیکن دونوں حضرات وہاں موجود نہیں تھے۔ ہماری روایت تو یہ ہے کہ مرنے والے کے لواحقین کے پاس جا کر تعزیت کی جاتی ہے، اُنہیں اپنے حضور طلب نہیں کیا جاتا۔ جنابِ صدر، اور چیئرمین سینیٹ لاہور تشریف لاتے، اگر سکیورٹی کی وجہ سے مرحوم کے گھر نہیں جا سکتے تھے تو پسماندگان کو اپنے پاس بُلا لیتے‘ لیکن اسلام آباد بلانا، اور پھر وہاں موجود نہ ہونا انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدام بھی سوچے سمجھے بغیر کر ڈالا گیا۔ ایوانِ صدر اور سینیٹ سے اس کی وضاحت ہونی چاہیے، اور اگر ہمارا خدشہ درست ہے تو اس کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ سانحے کے بعد، اپنے آپ کو نہ سنبھال پانا، اور اظہارِ افسوس کے قرینے بھی بھول جانا، ہماری اجتماعی زندگی کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ یہ سانحے سے بڑا سانحہ ہے۔
دو الم ناک واقعات
گزشتہ چند روز کے دوران دُنیا کی بے ثباتی کے دو انتہائی دلخراش مناظر دیکھنے میں آئے۔ ایک شام پاکستان کے سینئر اور انتہائی ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے بڑے صاحبزادے طارق ظفر اِس طرح اچانک دُنیا سے رخصت ہوئے کہ دُنیا دیکھتی رہ گئی۔ وہ اپنے بھائی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی ظفر کے ساتھ اپنے والد کی مزاج پرسی کے لیے کراچی پہنچے تھے، جو وہاں آغا خان ہسپتال میں عارضہ قلب کے علاج کے لیے داخل تھے۔ ہوائی اڈے ہی پر فرشتۂ اجل نے ان کو آن لیا، اور وہ آناً فاناً اُس دُنیا میں جا پہنچے جہاں ہم سب کو جانا ہے، لیکن واپس کسی کو نہیں آنا۔ ایک روز بعد عزیز محترم محمد اجمل جامی کے سسر اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے والد اشفاق صاحب علی الصبح اِس طرح اللہ کو پیارے ہوئے کہ اپنے کاروباری دفتر جانے کے لیے تیار کھڑے تھے کہ دِل نے دھڑکنا بند کر دیا۔ ڈاکٹر عائشہ حصولِ تعلیم کے لیے امریکہ گئی ہوئی تھیں، رات کو واپس پہنچیں اور صبح اِس المیے سے دوچار ہو گئیں۔ مرحومین کے اہل خانہ کو اللہ تعالیٰ صبر دے، اور ان کی مغفرت فرمائے۔ بظاہر یہ دو الگ الگ خبریں ہیں، لیکن پیغام ایک ہی دے رہی ہیں۔ دُنیا کی بے ثباتی کا پیغام... کسی بھی وقت اُس زندگی کا آغاز ہو سکتا ہے، جو اِس زندگی کے اختتام کے بعد شروع ہوتی ہے، اس لیے ہر شخص ہر دم اُسے یاد رکھے... ایسا ہو تو ہماری سیاست، صحافت اور عدالت، سب کچھ یکسر بدل کر رہ جائے۔ احسان دانش مرحوم کیا بروقت یاد آئے ؎
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں، انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)