تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     27-01-2019

سیاست مفاہمت کا آرٹ ہے!

عالمی حالات کے تقاضے جنوبی ایشیا میں دھیرے سے رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے روایتی عمل کو مہمیز دے کر برق رفتار بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ کی افغان وار سے دامن چھڑانے کی حکمت عملی افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی جغرافیائی، سیاسی اور معاشی پالیسیوں میں دور رس تبدیلیوں کی محرک بن سکتی ہے۔ یہ بجا کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کئی مسائل خود بخود ختم جائیں گے‘ لیکن جہاں تازہ امکانات کے دروازے کھلتے ہیں‘ وہاں لا محالہ کچھ نئے ایشوز بھی سر اٹھا لیتے ہیں‘ جنہیں نمٹانے کی خاطر ایشیا کے تمام ممالک کو مشترکہ سٹریٹیجی اپنانے کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو اس علاقائی اتحاد کے نتیجے میں قومی مفادات کے تناظر بدلیں گے‘ جو سیاسی حرکیات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جس طرح حالات کے جبر نے ہمیں روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پہ مجبور کیا‘ بعینہٖ اسی طرح وقت کی بے رحم گردشیں بھارت کو بھی ہمارے ساتھ دیرینہ تلخیاں ختم کرنے پہ بھی آمادہ کر لیں گی۔ حالات کا یہی الٹ پھیر ملک کی داخلی سیاسی صورت حال کو تبدیل کر کے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے از سر نو ابھرنے کا موقعہ دے سکتا ہے، جس سے پیپلز پارٹی کے علاوہ بائیں بازو کی وہ نظریاتی قوتیں بھی فائدہ اٹھائیں گی‘ جنہیں افغان جہاد کے تقاضوں نے معدوم کر دیا تھا۔ بد قسمتی سے وسیع پیمانے پہ سیاسی، معاشی اور جغرافیائی تغیرات کے اس اہم مرحلہ پہ ہماری مملکت کی عنان ایسی نا پختہ کار قیادت کے ہاتھ آئی‘ جو فکری تناظر سے محروم اور تاریخی شعور سے عاری نکلی، سیاسی تجربہ سے نا بلد اور آئینہ ایام میں مستقبل کے حوادث کو دیکھنے کی اہلیت سے محروم ہونے کی وجہ سے ملکی امور پہ ان کی گرفت مضبوط نہیں ہو رہی۔ اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو بہت جلد فیصلہ سازی کا عمل سیاسی فورم سے، طاقت کے مراکز کی طرف شفٹ ہو جائے گا۔ ارسطو نے کہا تھا ''سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘ لیکن حکمراں جماعت میں اتحادیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے نہ وہ اپوزیشن کو انگیج رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی صفوں میں نظم و ضبط رکھ پائی نہ کسی مربوط مساعی کے ذریعے ملکی معاملات چلانے میں کامیاب ہوئی‘ اور ان کا عہد احتساب کی دہشت انگیزیوں سے داغ دار ہوتا جا رہا ہے۔ انہیں ہمہ وقت داخلی طور پہ اتحادیوں اور خارجی محاذ پہ اپوزیشن کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی کھینچا تانی نے حکمران اشرافیہ کے لہجہ کی تلخی بڑھا دی، جس کے نتیجہ میں اپوزیشن کی منقسم لیڈر شپ میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا‘ جو بالآخر انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے پہ منتج ہوا۔ 
پنجاب کی مانند بلوچستان کی مخلوط حکومت میں بھی اختلافات کی دراڑیں گہری ہیں۔ وہاں دبے قدموں کسی بھی وقت تبدیلی آ سکتی ہے۔ مجموعی سیاسی نظام میں توازن کی خاطر عمران خان نے بی این پی مینگل کو شریک اقتدار بنانے کے لیے جتنے عہد و پیمان کئے وہ پورے نہیں ہو سکے۔ اختر مینگل کو اگلی بار بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی‘ لیکن بوجوہ بلوچ رہنما حکمران ایلیٹ کے طرز عمل سے مایوس نظر آتے ہیں؛ چنانچہ آصف علی زرداری کی وساطت سے اختر مینگل کو جب رواں دورانیہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان بنانے کی پیشکش کی گئی‘ تو وہ اپوزیشن کے قریب آ گئے۔ صرف چوہدری برادران ہی نہیں گورنر پنجاب چوہدری سرور، علیم خان اور جہانگیر ترین کی بھی عمران خان صاحب سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں؛ چنانچہ ہر آنے والے دن پنجاب کے حکمراں اتحاد میں خلیج بڑھتی جائے گی‘ اور یہی تضادات گرینڈ اپوزیشن کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا جواز بنیںگے۔ اگر اس ہمہ جہت اضطراب پہ بر وقت قابو نہ پایا گیا‘ تو اپوزیشن پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر کے اس ڈھیلے ڈھالے بندوبست کے تارپود بکھیر دے گی‘ لیکن اس تجزیے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بہت جلد ملک میںکسی بڑی سیاسی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے بلکہ یہ پیچیدہ اور تکمیل پذیر حالات کی صورت ہے۔ ہمارے ادارہ جاتی نظم اور سیاسی کلچر کو پختہ ہونے میں کچھ وقت درکار ہو گا۔ جوڈیشل ایکٹو ازم نے جہاں پارلیمنٹ اور حکومت کی کوتاہیوں کو طشت از بام کیا‘ وہاں عدالتی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر کے جوڈیشل سسٹم میں با مقصد اصلاحات کی ضرورت کو بڑھا دیا۔ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کے خطاب میں پچھلے بیس سالوں کے تجربات کے بعد عدالتی دانش میں رونما ہونے والے فطری تغیرات کی جھلک اور ججز کے تلخ تجربات کو زندگی کے مفید ادراک سے ملانے کا احساس جھلک رہا تھا۔ قومی دھارے کا الیکٹرانک میڈیا عہد طفلیت سے نکل کے پیشہ ورانہ پختگی کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے‘ اور پرنٹ میڈیا کا بڑا حصہ ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانے کی صلاحیت پا چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت عام لوگوں کے اذہان میں جتنی تبدیلی رونما ہونا تھی ہو چکی، ہمارے سماج کے ذہن میں جتنے خیالات اور دل میں جتنی خواہشات مچل رہی تھیں، وہ ساری فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے باہر آ گئیں، ذہنی استعداد کے تبادلہ کے ذریعے ہمیں جتنا کچھ ملنا تھا مل گیا، کوئی تصویر، منظر، قول، خیال، نصیحت، رجحان، شعر، نظم اور مضمون ایسا نہیں بچا جسے فیس بک یا ٹویٹر نے وائرل نہ کر دیا ہو؛ تاہم سوشل میڈیا نے طاقت کے مراکز کے علاوہ ہمارے باہمی اعتماد کے رشتوں اور سوچوں کو پراگندہ کر کے معاشرتی نظم کو کمزورکر دیا ہے۔ اب سوشل میڈیا پہ فقط بے مقصد مبحث، بے لذت یارانے اور بے ہنگم شور شرابہ باقی رہ گیا ہے۔ گویا سوشل میڈیا کے سماجی رابطوںکی افادیت صفر اور اثر پذیری بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ رچرڈ نکسن نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ''ٹی وی کی سکرین ذہن کی تازگی اور درخشندگی کو چوس کے اسے بنجر بنا دیتی ہے اور کتاب ذہن انسانی کو سیراب کر کے اس میں دائمی زرخیزی پیدا کرتی ہے‘‘۔ سوشل میڈیا ہماری سرشت میں چھپے منفی و مثبت رجحانات کی تسکین کا سامان مہیا ضرورکرتا رہا‘ لیکن وسیع پیمانے پہ اس کا استعمال بالآخر اذہان کو بیکار بنانے کا سبب بنا۔ بلا شبہ تغیر و تبدّل کے ابدی عمل کو روکنا ممکن نہیں جو ہر عہد میں نئی ایجادات کے وسیلے پنپتا رہتا ہے اور انسانی سوچ کے دھارے کو زنجیر پہنانا بھی ان خرابیوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہے جو ٹیکنالوجیکل تغیرات کے نتیجے میں پھلتی پھولتی ہیں۔ سابق گورنر پنجاب نواب مشتاق گورمانی کہا کرتے تھے ''جب جھکڑ چلتے ہیں تو عقل مند دیواروں سے لگ جاتے ہیں‘‘ ہمیں بھی سائبر ٹیکنالوجی کے ذریعے برپا طوفان کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑے گا، لیکن اس جدلیات سے ڈرنے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ ہیگل نے کہا تھا: کشمکش ضدین حالات کو محو رقص رکھتی ہیں، اسی جدلیات کی بدولت انسانی افکار کا دھارا ارتقا پذیر رہتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمیں امید ہے اگر کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہوا تو تحریک انصاف کی قیادت رفتہ رفتہ پاور پالیٹکس کی حرکیات سے واقف‘ اور اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔ انہیں جلد احساس ہو جائے گا کہ پارلیمنٹ میں موجود قوتوں کے ذہنی اضطراب اور ملکی سیاست میں انتشار کے سب سے مہلک اثرات خود اقتدار کے مراکز پہ پڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اپوزیشن کے رومانس سے نکلنا اور یہ سمجھنا ہو گا کہ تسکین یافتہ خواہش کو رومانوی رنگ دینا ممکن نہیں۔ اقتدار کو رومانوی بنانے کی بجائے عمران خان صاحب اپنی ٹیم کو منظم کریں اور شریک اقتدار جماعتوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ دیں، ان کی گورنمنٹ کا مستقبل وزرا کے رویّوں اور اتحادیوں کے طرز عمل سے معلق ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved