کوئی جائے اور جا کر کپتان کو بتائے کہ وقت کا فرمان جو نہیں پڑھتا‘ اسے وہ روند کر گزر جایا کرتا ہے۔ غلطی سے نہیں‘ آدمی اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں: ع اٹھو‘ وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی جہاں تک اس ناچیز کا تعلق ہے‘ اللہ کے بھروسے پر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شہادت دے گا اور پوری شہادت۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ شرک کے بعد جھوٹی گواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ ایک دوسرے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ ظلم اور جرم پر خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔ امید یہ تھی کہ کپتان کو دو کروڑ ووٹ ملیں گے۔ خود اس نے کہا تھا: بشرطیکہ بہترین امیدوار منتخب کیے گئے۔ امید تھی کہ پھر لُوٹ مار کا بازار گرم نہ رہے گا۔ سرکاری کارپوریشنوں میں چار سو ارب روپے اور ٹھیکیداری نظام میں برباد ہونے والا دو تین سو ارب روپیہ بچ جایا کرے گا۔ سیاسی رسوخ سے پولیس آزاد ہوگی اور امن قائم ہوگا۔ سیاسی استحکام جنم لے گا اور معاشی نمو کا آغاز ہو جائے گا۔ ٹیکس وصولی میں کم از کم چھ سات سو ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ بارہ تیرہ سو ارب سالانہ بچ رہیں گے۔ سمندر پار پاکستانی بتدریج سرمایہ کاری کا آغاز کریں گے تو آزاد خارجہ پالیسی کی ابتدا ہو جائے گی۔ عدالتی نظام کی تشکیل نو‘ پٹواریوں سے نجات اور سرکاری دفاتر میں نگرانی کا ایسا نظام قائم کر کے‘ بھارتی ریاست بہار میں جس کا تجربہ کامیاب رہا‘ عام آدمی کی زندگی بہتر ہونے لگے گی: تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ آنکھ جب کھلی تو زیاں تھا نہ سود تھا پنج ستارہ ہوٹل کے ہال میں تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جاری تھا کہ ناچیز وہاں پہنچا۔ کھانے کا وقفہ تھا اور معزز ارکان خوش گپیوں میں مصروف۔ جس سے بات کی‘ وہ شاکی تھا۔ دفتری زندگی کے چار عشروں کا تجربہ یہ ہے کہ باقاعدہ اجلاسوں میں پوری بات کہنے سے گریز کیا جاتا ہے‘ خوف زدگی! راہداریوں میں داخل ہوتے ہی اوّل لہجہ بدلتا ہے‘ پھر موقف۔ یہی حال تھا۔ کپتان کے جاتے ہی زبانیں کھل گئیں اور شکایات کے دفتر۔ پارلیمانی پارٹی کے معزز ارکان سے عرض کیا: آپ کو کھل کر بات کرنی چاہیے۔ خوف کا روّیہ اس شاندار پارٹی کو تباہ کردے گاکروڑوں انسانوں کے مستقبل کا جس پر انحصار ہے… وسوسہ! اللہ کے آخری رسولؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور جس چیز سے وہ روکے‘ لازماً وہ کر ڈالنی چاہیے۔ اکثر کو صرف اپنے پسندیدہ امیدواروں کی فکر لاحق تھی‘ معیار اور اصول کی شاذ ہی کسی کو۔ افسوس کہ اچھے لوگ سیاست میں آتے نہیں اور معمولی مسلّط ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ اس معاشرے کے بڑے بڑوں میں احساسِ کمتری پایا جاتا ہے اور افسوس کہ اکثر مدّعی توکُّل سے محروم۔ راولپنڈی کے ایک معزز ماہر تعلیم راحت قدوسی کے بارے میں‘ ان میں سے ایک نے نہایت غیر ذمہ دارانہ بات کی۔ راحت قدوسی فرشتہ نہیں مگر معقول آدمی ہیں۔ اس آدمی نے یہ جسارت کیسے کی؟ ایک نو آموز‘ جسے اندازہ ہی نہ تھا کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ کس نے اسے سکھایا تھا‘ پڑھایا تھا؟ عمران خان کو راولپنڈی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ہے۔ اس کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے امیدوار ایسے ہونے چاہئیں جو مددگار ہوں۔ اگر پارٹی کا سربراہ ایفی ڈرین کی سمگلنگ کے ملزم حنیف عباسی سے ہار گیا؟ قطعاً اس شخص کو پروا نہ تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مرکزی دفتر کے دو اور اہلکار اس کے پشت پناہ تھے۔ ایک آدھ نہیں درجنوں سیٹوں پر ایسے لوگوں کے لیے وہ مصر رہے جن کے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں سے کچھ امیدوار ناتجربہ کار، بعض بدنام اور بعض پرلے درجے کے ابن الوقت ہیں۔ ممکن ہے کچھ دوسری پارٹیوں کے کارندے بھی ہوں۔ غالباً انہی لوگوں نے یقینی بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے‘ عشروں سے یرغمال شہر میں جماعت اسلامی سے مفاہمت نہ ہونے پائے۔ ایک طرف منظم، متحرک اور تجربہ کار ایم کیو ایم ہے اور دوسری طرف دس جماعتوں کا متحدہ محاذ۔ تحریکِ انصاف کراچی کی دوسری مقبول ترین پارٹی ہے۔ پھر اس کے حامیوں میں ایسا جوش و خروش کہ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ عام کپتان کرسکا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشترکہ محاذ بنانے میں تحریکِ انصاف سب سے زیادہ سرگرم ہوتی۔ چار پانچ سیٹیں وہ لے مرتی۔ اب بھی لے سکتی ہے‘ اگر ہوش مندی سے کام لے۔ اس کی صفوں میں گھسے کارندوں نے جلوہ دکھایا یا مناصب کے لیے دیوانے امیدواروں نے جو مفاہمت کے لیے‘ کوئی سیٹ چھوڑنے پر آمادہ نہیں؟ ٹیم کی خاطر نہیں‘ فتح کے لیے ہرگز نہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے لیے کھیل رہا ہے؟ عمران خان کے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے ایک نعیم الحق نے مجھے بتایا کہ صداقت عباسی نے ووٹروں کی جعلی فہرستیں بنائیں۔ مکرّم اسد عمر نے رنج اور حیرت سے کہا: وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سندھ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ آخر کیوں؟ پارٹی کو بتائے بغیر کیوں؟ چار ہفتے ہوتے ہیں‘ کپتان نے مجھ سے کہاتھا: اسے معاف کردو‘ غدار نہیں‘ وہ کمزور آدمی ہے۔ جواب یہ تھا: کمزور آدمی اگر مفاد پرست بھی ہو تو غدار بننے میں اسے دیر کیا لگتی ہے۔ کبھی جاوید ہاشمی کے خلاف اس نے سازش کی تھی‘ اب دونوں نے مل کر رانا محبوب اختر کے خلاف۔ وہ آدمی جو سونے میں تولنے کے قابل ہے۔ ایک رشتہ دار کو انہوں نے ٹکٹ دلوا دیا جس کا عوامی نام تھگڑی قریشی ہے۔ کراچی ہی نہیں‘ صوبہ سرحد اور پنجاب میں اٹک سے رحیم یار خان تک کتنے ہی ادنیٰ لوگ گوارا ہوئے اور معزز مایوس ہوئے۔ کارکن خود روتے اور مجھے رلاتے رہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ علیم خان ایسے شخص کو لاہور میں انتخابی مہم کا انچارج بنا دیا گیا۔ کس لیے؟ آخر کس لیے؟… چندہ ہی اگر معیار ہے تو شوکت خانم میں مریض داخل کرانے کے لیے بھی کیوں نہ یہی طریق اختیار کر لیا جائے؟ نمل یونیورسٹی میں داخلوں کی خاطر بھی؟ گوجرانوالہ ڈویژن پر رانا نعیم الرحمن کی حکمرانی ہے اور ہر ایک سے وہ ذاتی وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کوئی انہیں اپنا رویّہ بہتر بنانے کی تلقین کیوں نہیں کرتا۔ امریکہ‘ مغربی ممالک اور عربوں کے منصوبے میں اب کون سی رکاوٹ باقی ہے کہ نوازشریف کو غیر معمولی تزویراتی اہمیت کے اس ملک پر مسلّط کردیا جائے۔ پانچ سال کے لیے پاکستان کو ایک بار پھر اس شخص کی چراگاہ بنا دیا جائے جو پانچ بار پنجاب اور دو بار پورے ملک کا حکمران رہا‘ ہر بار بری طرح ناکام! نوازشریف اگر جیت گئے تو وہ صدر زرداری کو تحفظ دیں گے اور ممکن ہے کہ شریکِ اقتدار بھی کر لیں۔ تماشا ہے تماشا کہ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور ان سے زیادہ اے این پی دہشت گردوں کی زد میں ہیں کہ امریکہ نوازی کا الزام ہے۔ امریکی سفیر سے مدد کی بھیک مانگنے والے مولانا فضل الرحمن اور انکل سام کے نئے حلیف نوازشریف سے دہشت گردوں کو ایسا حسنِ ظن کہ ثالث مانتے ہیں۔ عدلیہ متحرک ہے۔ مگر کیا نون لیگ کے باب میں بھی؟ حدیبیہ شوگر ملز؟ 8 ارب کے قرضے؟ منی لانڈرنگ؟ لندن کی جائیداد؟ حامد میر کے ساتھ ایک انٹرویو میں نوازشریف نے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ فلم کے فیتے پر ان کی گواہی رقم ہے۔ امریکہ ملک کو اغوا کرنے پر تلا ہے اور معاشرے کے فعال طبقات تماشا دیکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف خودکشی پر کیوں آمادہ ہے۔ کوئی جائے اور جا کر کپتان سے کہے: اب بھی وقت ہے۔ جتنی اصلاح ممکن ہے‘ کر لی جائے۔ کوئی اسے بتائے کہ وقت کا فرمان جو نہیں پڑھتا‘ اسے وہ روند کر گزر جایا کرتا ہے۔ غلطی سے نہیں‘ آدمی اپنی غلطیوں پر اصرار سے برباد ہوتے ہیں: ع اٹھو‘ وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved