قانون کی عملداری کیلئے آخری حد تک جائیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے‘‘ اس لیے آخری حد کا پتا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ تاہم ابھی تو پہلی حد ہی کا کوئی اتنا پتا نہیں مل رہا‘ لیکن فی الحال یہ سارا کام روک رکھا ہے کہ کہیں حدود ایکٹ کی خلاف ورزی میں دھر نہ لیے جائیں یا اپنی حد سے گزر جانے کا الزام نہ لگ جائے‘ اس لیے ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے اور'' تیل دیکھو‘ تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے محاورے پر عمل کر رہے ہیں‘ پتا نہیں یہ مٹی کا تیل ہوگا‘ ڈیزل ہوگا یا پٹرول‘ اور چنبیلی کا بھی ہو سکتا ہے ‘جو صرف چھچھوندریں سر میں ڈالتی ہیں‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چھچھوندریں بھی کافی شوقین مزاج ہوتی ہیں؛ حالانکہ چنبیلی کا تیل خاصا مہنگا ہوتا ہے؛ چنانچہ یہ معلوم کرنا چاہیے کہ چھچھوندروں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ‘جبکہ ہم تو وزیر مشیر ہونے کے باوجود پیسے کی شکل دیکھنے کو ترس گئے ہیں اور ترقی بھی اس لیے نہیں کر رہے کہ یہ کرپشن کے بغیر ہوتی ہی نہیں ۔ آپ اگلے روز سرگودھا بار کے وکلاء سے ملاقات کر رہے تھے۔
سانحہ ساہیوال پر ہم نے کوئی سیاست نہیں کھیلی: فیاض چوہان
صوبائی وزیر پنجاب برائے اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''ہم نے سانحہ ساہیوال پر کوئی سیاست نہیں کھیلی‘‘ کیونکہ وہ تو ہمیں آتی ہی نہیں اور سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن ہماری سمجھ میں پھر بھی نہیں آ رہی؛ حالانکہ ہم کافی سمجھ دار لوگ ہیں‘ کم از کم ہمارا اپنا خیال یہی ہے ‘جبکہ ہم اپنے خیال کو کافی اہمیت دیتے ہیں‘ کیونکہ فی الحال ہمارے پاس صرف خیال ہی خیال ہے‘ عمل کا جس میں کوئی خاص دخل نہیں ہے‘ نہ ہی ہمیں دخل در معقولات کی عادت ہے؛ البتہ دخل درنا معقولات کا ذائقہ کبھی کبھی چکھ لیتے ہیں؛اگرچہ ہمارے مُنہ کا ذائقہ اکثر خراب ہی رہتا ہے‘ جبکہ صوبہ ویسے ہی خرابیوں سے بھرا پڑا ہے‘ جس کی صورت حال بھل صفائی جیسی ہی ہے‘ جبکہ ہمارے اپنے نالوں میں بھی کافی بھل اکٹھی ہو چکی ہے‘ اور سیکھنے سکھانے سے ذرا فرصت ملتی ہے تو اس کی طرف بھی توجہ دی جائے گی‘ جبکہ ہمارے ہاں توجہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
محکموں کی کارکردگی احسن انداز میں بہتر بنائی جائے: عبدالعلیم
پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''محکموں کی کارکردگی احسن انداز میں بہتر کی جائے‘‘ کیونکہ اگر وہ بہتر نہیں ہو سکتی تو کم از کم انداز تو مستحسن ہونا چاہیے‘ جس طرح کہ ہماری کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے‘ لیکن اس کا انداز بہتر‘ بلکہ بہترین ہے اور اللہ نے چاہا تو کارکردگی بھی چند سال میں بہتر ہو جائے گی اور اگر اللہ نے نہ چاہا تو ہم بندے بشر کیا کر سکتے ہیں‘ جبکہ ہم بندے کم اور بشر زیادہ ہیں جن کا کام ہی غلطی کرنا ہے اور اللہ کا کام اس سے درگزر کرنا ہے؛ چنانچہ ہم در گزر کرنے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ آخر ہمیں بھی اپنی عاقبت کی فکر ہے‘ جس کے لیے کوئی توشہ تو ہونا ہی چاہیے‘ تاہم محکمہ مال کے دفاتر میں جو توشہ خانے ہیں‘ فی الحال اُنہی پر گزارہ کر رہے ہیں‘ اس لیے عوام کو بھی چاہیے کہ ہمارے ساتھ گزارہ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
نااہل حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نااہل حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے‘‘ اور اس کا اندازہ لگانا ہو تو خاکسار کی حالتِ زار پر ایک نظر ڈال لی جائے‘ کیونکہ بے روزگاری کی وجہ سے اب تو مجھے پونجی‘ یعنی وہ پونجی جو میاں نواز شریف کے دور میں جمع کی تھی وہ بھی ختم ہونے کے قریب ہے ‘جبکہ ہر طرف سے ناکام ہو کر اب اے پی سی بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ شاید اس سے کوئی صورت نکل آئے؛ اگرچہ اس سلسلے میںخاکسار نے بھی کچھ نہ کچھ کرنے کاارادہ کر رکھا ہے‘ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ؎
بیکار مباش‘ کچھ کیا کر
کپڑے ہی اُدھیڑ کر سیا کر
آپ اگلے روز ٹانک میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل ؎
کام آئی نہ کچھ دانش و دانائی ہماری
ہاری ہے ترے جھوٹ سے سچائی ہماری
یوں ہے کہ یہاں نام و نشاں تک نہیں تیرا
اور‘ تجھ سے بھری رہتی ہے تنہائی ہماری
ہر شام تماشا سا کِیا کرتے تھے ہم‘ اور
اب ہوتی ہے ہر شام تماشائی ہماری
ہم اور تو ہر جگہ معزز رہے اب تک
نکلی ہی نہیں شہر سے رُسوائی ہماری
شرمندہ ہوئے آ کے یہاں ڈوبنے والے
کیا کیجیے‘ اتنی ہی تھی گہرائی ہماری
تھوڑے سے کہیں پر تھے تو تھوڑے سے کہیں اور
بکھری ہوئی اس طرح تھی یکجائی ہماری
آباد گلی کوچوں سے بیزار رہے ہم
تھی اپنی طبیعت ہی یہ صحرائی ہماری
تھا وہ بھی کچھ اُس شوخ کا بس ایک اشارہ
پھر دیکھنے ہی والی تھی پسپائی ہماری
ہم آنے ہی والے ہیں‘ ظفرؔ اپنے مقابل
کچھ دیر ہی اب اور ہے یکتائی ہماری
آج کا مقطع
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر‘ ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں