تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-01-2019

کمبوڈیا اور پاکستان… کل اور آج

ایئر پورٹ سے نکلتے ہی دل خوش ہو گیا۔ ٹریفک پاکستان کی طرح چل رہی تھی۔ گو کہ ٹریفک کا رخ الٹا تھا یعنی ڈرائیور دائیں ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ بیٹھتا تھا اور ٹریفک کا بہاؤ بائیں کے بجائے دائیں ہاتھ تھا۔ جو ممالک تاج برطانیہ کے تحت محکوم رہے ہیں وہاں ٹریفک کا نظام پاکستان جیسا ہے اور جہاں یورپ یا امریکہ کا نظام چلتا رہا ہے وہاں یہ نظام بالکل الٹ ہے۔ کمبوڈیا کسی زمانے میں فرانس کے زیرتسلط رہا ہے اس لیے وہاں ٹریفک کا نظام ہم سے الٹ ہے۔ البتہ اس فرق کے علاوہ باقی سب کچھ تقریباً ایک جیسا تھا۔ ٹریفک بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور اس کی بنیادی وجہ افراتفری‘ جلد بازی اور قواعد کی ایسی تیسی تھی۔ سکوٹیوں والے اور والیاں دائیں بائیں کا دھیان کیے بغیر رواں دواں تھے حتیٰ کہ کئی ایک تو فٹ پاتھ پر اپنی اپنی سکوٹی چلا رہے تھے۔
یہ سکوٹی موٹر سائیکل اور مرحوم سکوٹر کی درمیانی چیز ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری سڑکوں پر سکوٹر چلا کرتے تھے۔ پچانوے فیصد ''ویسپا‘‘ کمپنی کے سکوٹر تھے‘پانچ فیصد سکوٹر ''لمبریٹا‘‘ کے ہوتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ ویسپا کے سکوٹر کی ''سٹپنی‘‘ یعنی فالتو ٹائر مسافر سیٹ کے پیچھے کھڑے رخ لگا ہوتا تھا اور لمبریٹا کا لیٹے رخ لگا ہوتا تھا۔ ابا جی مرحوم نے 1963ء میں جب ویسپا سکوٹر خریدا تو غالباً یہ ستائیس سو روپے کا تھا۔ تب یہ بھی بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ سکوٹر حسین آگاہی کی کسی دوکان پر بلکہ سکوٹر کی ایجنسی پر بک کروایا تھا۔ ابا جی کے ساتھ ان کے دوست ڈاکٹر عزیز الرحمان نے بھی سکوٹر وہیں بک کروایا تھا۔ عزیز الرحمان ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے اور ان کی رہائش ان کے کلینک کے اوپر ہی تھی جو چوک شہیداں کے عین چوک کے کارنر پر تھا۔ سکوٹر ڈرائیور کے آگے خالی جگہ ہوتی تھی جہاں چھوٹے بچے کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں تب ساڑھے تین سال کا تھا اور بڑے مزے سے آگے کھڑا ہو جاتا تھا۔ پہلے لمبریٹا سکوٹر سڑکوں سے غائب ہوا پھر ویسپا بھی تقریباً عنقا ہو گیا۔ اب کبھی کبھار کسی بزرگ قسم کے ویسپا سے ملاقات ہو جائے تو عجیب خوشی سی ہوتی ہے۔ کیا کیا چیزیں تھیں جو وقت کے ساتھ اڑن چھو ہو گئیں۔
کمبوڈیا میں موٹر سائیکل اور سکوٹر کی یہی درمیانی شے ''سکوٹی‘‘ سب سے پاپولر سواری ہے۔ کیا مردکیا عورتیں۔ کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں۔ سب کے پاس سکوٹیاں ہیں۔ جاپان کی بنی ہوئی۔ لوکل صرف ''ٹک ٹک‘‘ کی پچھلی باڈی ہے۔ کسی چھوٹی بگھی جیسی آمنے سامنے لگی ہوئی دو سیٹوں والی۔ اس بگھی نما سواری کے آگے بھی جاپانی ساختہ سکوٹی لگی ہوئی ہے۔ ٹک ٹک یہاں کی قومی سواری ہے۔ کسی کو ہماری طرح سٹیٹس کی فکر نہیں۔ ایئر پورٹ پر بین الاقوامی پرواز سے اتریں اور ٹک ٹک پر چڑھ جائیں۔ کوئی حیرت یا استعجاب سے نہیں دیکھتا۔ سڑکوں پر سکوٹیاں ہیں‘ ٹک ٹک ہیں اور بے تحاشا گاڑیاں۔ گاڑیاں بھی ایسی ایسی کہ پاکستان میں کم از کم اس طرح ہرگز دکھائی نہیں دیتیں جیسے یہاں نام پنہہ میں نظر آتی ہیں۔ دو تین فراری دیکھیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کئی بار رولز رائس‘ بنٹلے اور بوگاٹی جیسی گاڑیاں رواں دواں نظر آئیں۔ امیر اور غریب میں باہمی فرق پاکستان سے زیادہ نظر آیا۔پولیس کا حال بھی ہم سے بہتر تھا۔ یعنی وہ تھوڑے پیسوں پر بھی راضی ہو جاتی ہے اور رقم پکڑتے وقت ٹریفک کا اہلکار نہ تو شرماتا ہے اور نہ ہی جھجکتا ہے۔
ویت نام نے پول پاٹ سے نجات دلانے کے بہانے کمبوڈیا پر حملہ کر دیا اور سات جنوری 1979ء کو نام پنہہ پر قبضہ کر کے پول پاٹ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اگلے دس سال تک ویت نام نے کمبوڈیا پر قبضہ کیے رکھا ۔ ویت نام سے آزادی کے لیے بھی دو سال جنگ ہوئی۔ پھر اقوام متحدہ نے ایک سال انتظامی معاملات سنبھالے۔ پہلا الیکشن 1993ء میں ہوا۔ اسی سال جلا وطن شاہ سہانوک چین سے واپس آ گیا۔ ملک کا نام ''پیپلز ریپبلک آف کمپوچیا‘‘ سے بدل کر ''کنگڈم آف کمبوڈیا‘‘ رکھ دیا گیا۔ سوشلزم اور کمیونزم کا کمبوڈیا میں محض پونے چار سال ہی میں مکمل جنازہ نکل گیا۔ 1993ء کا الیکشن ''کمبوڈین پیپلز پارٹی‘‘ نے جیتا اور اس کے سربراہ ہُن سین نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ تب سے اب تک یہی صاحب وزیراعظم ہیں اور گزشتہ پچیس سالوں میں اپنے سارے سیاسوں مخالفین کا تختہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ہم سی اَم رِپ میں بورائی انگکور ریزورٹ میں ٹھہرے تھے۔ یہ فائیو سٹار ہوٹل تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر رہائش پذیر لوگ ٹک ٹک پر آتے اور جاتے تھے۔ ہمارے ہاں کسی فائیو سٹار ہوٹل میں رکشہ شاید داخل بھی نہ ہونے دیں مگر اُدھر یہ عالم تھا کہ پارکنگ لاٹ میں ٹک ٹک والے سواری کے منتظر کھڑے ہوتے تھے اور داخلی دروازے پر کھڑے گارڈ نہ صرف ہوٹل سے روانگی کے لیے ٹک ٹک والے کو اشارے سے بلا کر دیتے تھے بلکہ واپس آنے والے مہمان کو بڑی عزت سے ٹک ٹک سے اتارتے بھی تھے۔ سی اَم رِپ میں ٹک ٹک کارپٹ تقریباً طے تھا۔ شہر کے اندر کہیں بھی جائیں دو ڈالر فکس تھے۔ کوئی تین یا چار ڈالر مانگتا تو ہم آگے چل پڑتے وہ فوراً کہتا اچھا دو ڈالر دے دیں۔ ہر جگہ بھاؤ تاؤ ہوتا تھا۔ پندرہ ڈالر کی چیز آٹھ نو ڈالر میں آسانی سے مل جاتی تھی۔ اوپر سے یہ ملال بھی رہتا تھا کہ شا ید اب بھی لوٹ لیا گیا ہوں۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میرے پاس کمبوڈیا جاتے ہی کروڑ پتی بننے کا بڑا سنہری موقعہ تھا۔ میں اگر چاہتا تو پہلے ہی روز کروڑ پتی بن جاتا لیکن صرف اور صرف اس لیے دل اس آمادہ نہ ہوا کہ ممکن ہے اس امارت کے بعد دل میں تکبر نہ پیدا ہو جائے۔ صرف اس تکبر سے بچنے کی غرض سے زندگی میں پہلی بار کروڑ پتی بننے کا موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ میں صرف اپنے اڑھائی ہزار ڈالروں کو کمبوڈیا کی کرنسی ''رئیل‘‘ میں تبدیل کروا لیتا تو مبلغ ایک کروڑ رئیل جیب میں آ جاتے اور یہ مسافر کروڑ پتی بن جاتا مگر پھر یہ ارادہ ترک کر دیا۔ ویسے بھی اتنے پیسوں کو سنبھالنے سے زیادہ خرچ کرنے اور ان کا حساب رکھنے کے لئے حساب کتاب میں جو مہارت چاہیے تھی وہ صرف اور صرف مفرور اسحاق ڈار میں ہی پائی جاتی تھی۔ یہ عاجز تو اس معاملے میں بالکل چوپٹ شخص ہے۔
کمبوڈیا کی کرنسی کا برا حال ہے‘ ایک ڈالر کے چار ہزار رئیل مل جاتے ہیں۔ وہاں جا کر روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری کا احساس ختم تو نہ ہوا مگر قدرے کم ضرور ہوا۔ چھوٹے سے چھوٹا نوٹ ایک سو رئیل کا ہے۔ سکے ندارد ہیں۔ سو رئیل کے نوٹ سے کیا چیز خریدی جا سکتی ہے اس کا کم از کم اس دس روزہ دورے میں تو معلوم نہیں ہو سکا البتہ اس نوٹ کو لین دین کے بقایا میں اپنی جیب میں آتے اور واپس جاتے ضرور دیکھا تھا۔ پیزا کمپنی سے ویجیٹیبل پیزا لیا بل بائیس ڈالر اور پندرہ سینٹ بنا۔ پچیس ڈالر دیے انہوں نے دو ڈالر اور چونتیس سو رئیل واپس کر دیے۔ تین ہزار ہزار روپے والے اور چار سو سو والے نوٹ واپس مل گئے۔ اس کے علاوہ فدوی سو رئیل کا نوٹ از خود کہیں استعمال کرنے میں مکمل ناکام رہا۔
بڑے سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رئیل کا ہے۔ اس کے بعد پچاس ہزار رئیل‘ پھر دس ہزار‘ پانچ ہزار‘ دو ہزار‘ ایک ہزار‘ پانچ سو اور آخر کار سو رئیل کے نوٹ کی باری آتی ہے۔ اسد سکے اور نوٹ جمع کرتا ہے۔ اسے وہاں سے سکے تو نہ مل سکے البتہ نوٹ ضرور مل گئے۔ اس نے اپنے جیب خرچ میں سے وہاں سے دس ہزار رئیل تک کے نئے نوٹ جیب میں رکھ لئے۔ سیاحت زوروں پر ہے اور سال میں پچاس لاکھ سے زائد سیاح کمبوڈیا آتے ہیں۔ ان کے طفیل ڈالر دوسری نہیں بلکہ پہلی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ فون وغیرہ ہاتھ سے چھین کر بھاگ جانے اور جیب کاٹنے سے بڑا جرم شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بہت ہی اچھی ہے‘ خاص طور پر جبکہ وہاں محض پچیس سال پہلے پرائیویٹ آرمی اور ذاتی اسلحہ بردار فورس معمول کی بات تھی۔ لیکن اب صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ گورے ٹورسٹ مہینوں یہاں پڑے رہتے ہیں۔
کبھی پاکستان میں بھی یہی حال تھا۔ ملتان کے عزیز ہوٹل میں گورے سائیکلوں پر‘ موٹر سائیکلوں پر چڑھ کر آتے تھے اور ہفتہ ہفتہ شہر میں گھومتے تھے۔ پھر خدا جانے کس کی نظر لگی؟ بلکہ سچ تو یہ ہے ادارے ہی برباد ہو گئے۔ اور فی الوقت ان کی بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved