تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     18-04-2013

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جمہوریت جب اپنی اکثریت کی آمریت نافذ کرتی ہے تو اقلیت کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ سیاسی مفکرین نے اسے Tyranny of Majority کا نام دیا ہے۔ اکثریت کے خوابوں میں بسنے والے جمہوری رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا خوفناک تجربہ پاکستان کی اقلیتی پارٹیوں اور گروہوں نے پانچ سال بھگتا۔ پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر سے وزیراعظم بننے والے بھٹو سے اختلاف ِ رائے تو دُور کی بات ہے پارٹی کے ساتھیوں سے ذرا سی ناراضگی بھی ا نہیں بدترین انجام تک پہنچا دیتی تھی۔ جے اے رحیم سے لے کر معراج محمد خان تک جس ذلت کا شکار کیے گئے، وہ ان کارکنوں کیلئے انقلابی رہنما کی جانب سے وفاداریوں کا صلہ تھا۔ غلام مصطفیٰ کھر کو اپنے لاپتہ افراد کا دلائی کیمپ میں کئی سال گذارنا بھی یا د ہوگا اور شادباغ لاہور کے جلسے میں سانپ چھوڑے جانے کا واقعہ بھی۔ بھٹو کے مخالفین تو اس دور میں صرف لاشیں اٹھاتے رہے یا بدترین ریاستی تشدد برداشت کرتے رہے۔ نیشنل عوامی پارٹی اسی دور میں کالعدم قرار دی گئی اور آج بھی کالعدم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سپاہ صحابہ کی طرح اس کی قیادت نے پہلے این ڈی پی بنائی اور آج کل یہ عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ اس بھٹو مخالف سیاسی جماعت کا جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد تھا اور اُس زمانے کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ان کی حکومتیں تھیں۔ صرف نو ماہ تک بھٹو صاحب نے ان حکومتوں کو برداشت کیا‘ پھر انہیں غدار کا لقب دے کر فارغ کر دیا گیا۔ ان پر حیدر آباد جیل میں بغاوت کا مقدمہ چلا۔ حبیب جالب جیسا شاعر بھی غدار اور باغی کہلایا۔ بلوچستان میں پہلا بڑا فوجی آپریشن ہوا جس میں ہزاروں بلوچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ملکی تاریخ میں اخبارات پر اتنی بار کبھی پابندی نہیں لگی جتنی اس دور میں لگی۔ آئے روز کسی نہ کسی اخبار یا رسالے کا ڈیکلریشن منسوخ کردیا جاتا۔ توانا آوازیں خاموش کرنے کا سلسلہ چاروں صوبوں تک پھیلا ہوا تھا۔ بلوچستان سے محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی رکن صوبائی اسمبلی اور مولوی شمس الدین ڈپٹی سپیکر قتل کیے گئے۔ پنجاب میں خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق اور جماعت اسلامی کے درویش صفت رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن اس ساری وحشت و بربریت کے باوجود بھٹو عوام اکثریت کے دلوں میں بستا تھا اور وہ اُس کے گُن گاتے تھے۔ ان کے نزدیک بھٹو جو بھی کر رہا تھا جائز تھا۔ انہیں اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک فوجی آمر جب ظلم کرتا ہے تو اُس کے دفاع کے لیے چند لاکھ لوگ میسر ہوتے ہیں لیکن جب ایک جمہوری آمر بربریت کا مظاہرہ کرے تو اکثریت اُس کا ساتھ دیتی ہے جس کا کم از کم جمہوری نظام میں کوئی علاج دستیاب نہیں۔ اُس زمانے میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ معتوب اور غضب کا شکار تھی ۔ مولانا مودودی کی زیر قیادت‘ جمہوریت پر کارمند جماعت‘ روزانہ اپنے کارکنوں پر تشدد کے زخم دیکھتی تھی۔ جاوید ہاشمی کو شاہی قلعے لے جایا گیا اور کہا گیا کہ اس سے ’’کالا باغ‘‘ جیسا سلوک کرو۔ سیاسی قائدین پر بدترین تشدد کی دو مثالیں ملک قاسم اور جماعتِ اسلامی کے ا میر میاں طفیل محمد کی ہیں۔ میاں طفیل محمد کے ساتھ اس قدر بہیمانہ سلوک کیا گیا کہ وہ عدالت میں اسکی رو داد سناتے ہوئے رو پڑے۔ جماعت کا کوئی نہ کوئی کارکن روزانہ اپنے زخم مولانا مودودی کی رہائش گاہ ذیلدار پارک اچھرہ آ کر دکھاتا۔ اس ظلم کے باعث غم و غصہ تھا لیکن جمہوری سیاست اور پرامن جدوجہد کرنے والی جماعتِ اسلامی کو تیس برس بعد کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا تھا کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ کی حاکمیت کی جانب کیسے لے جایا جائے۔ مولانا مودودی اس دور میں عصر کی نماز کے بعد اپنی قیام گاہ پر سوالات کا جواب دیا کرتے۔ جمہوری مظالم سے ستائے ہوئے لوگوں کے سوال بہت تلخ ہوتے۔ لوگ عملاً جمہوری جدوجہد سے مایوس تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر 37سال سے جمہوری راستے پر گامزن سید مودودی نے1976ء کے اپریل کی ایک شام کہا: ’’اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے انتخابات ہی واحد راستہ نہیں ہیںبلکہ اور بھی بہت سے ذرائع ہیں جن سے کام لیا جا سکتا ہے‘‘۔ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر کہا: ’’آبادی کی کثیر تعداد آپ کی ہم خیال ہو تو اسلامی نظام کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ حکمران رکاوٹ بنیں تو ان پر موثر دبائو ڈال کر جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب میں انگریز کو عوامی رابطے (Mass Contact) کے ذریعے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ صرف انتخاب پر ہی انحصار نہیں کیا گیا‘‘۔ یہ انہوں نے ایک دفعہ نہیں بار بار کہا۔ اس دور کے نوجوان صحافی مجیب الرحمن شامی جو ہفت روزہ’’زندگی‘‘ کے مدیر تھے اور جن کے رسالوں کا ڈیکلریشن بار بار منسوخ کیا جاتا تھا اور وہ خود بھی کلمہ حق بلند کرنے پر قید کاٹ چکے تھے، انہوں نے مولانا مودودی کی اسی بات پر 5 اپریل 1976ء کو ایک مضمون تحریر کیا جس کا عنوان تھا ’’سید مودودی نے… یہ کیا کہہ دیا‘‘۔ سرمایہ دارانہ اور مغربی جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والی پاکستانی جمہوریت کے باعث اسلامی انقلاب سے مایوسی اور مکمل طور پر بے یقینی سب پر واضح تھی‘ لیکن جمہوری نظام میں چاشنی اس قدر زیادہ ہے کہ ہر اُس سیاسی جماعت میں جو اسلام کا نفاذ چاہتی ہے ، اُس میں اقتدار اور پارلیمنٹ کی رکنیت کے دیوانے اور پروانے جمع ہو جاتے ہیں۔ اُن کا اوڑھنا اور بچھونا اصلاح معاشرہ یا دین کی ترویج نہیں بلکہ اپنے مخصوص حلقے میں عوامی مقبولیت کے اہداف پر کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سوتے جاگتے صرف اسی کا خواب دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب جمہوریت کی گاڑی سرمائے کے تیل سے چلتی اور میڈیا کی پالش سے چمکتی ہے۔ یہ میڈیا جن کے سرمائے پر چلتا ہے، انہی کے اشارے پر صالح اور نیک شخص پر جیسا چاہے ویسا کیچڑ اچھال دے۔ اُدھر پوری کی پوری پارٹی اس جھوٹے پراپیگنڈے کے جواب میں ساری توانائیاں خرچ کرتی رہتی ہے۔ سو سال سے بھی پرانی اسلامی سیاسی پارٹیوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے دفاع میں اتنی توانائیاں صرف نہیں کیں جتنی اپنے قائدین کے خیالات اور ان کے لکھے ہوئے جملوں کے دفاع میں خرچ کی ہیں۔ جب ترازو کے ایک پلڑے میں چور اُچکے، ڈاکو، لٹیرے،شرابی اور زانی ہوں گے اور دوسرے پلڑے میں ایماندار ، نیک اور سچے تو تاریخ گواہ ہے کہ ایماندار اور سچے لوگوں کا پلڑا صرف اللہ ہی کے ہاں بھاری ہوتا ہے۔ اکثریت تو ان کی جان کی دشمن ہوتی ہے۔ جمہوری سیاست کا ایک اور طمانچہ اسلامی نظام کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے یہ ہے کہ وہ ملک جس کے قائد نے اسلام کے نام پر ووٹ مانگے اور نعرہ لگایا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اور کلمہ طیبہ پڑھنے والوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا، اس ملک کے الیکشن کمیشن نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دے دیا ہے۔ اس راستے کے مسافروں کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا۔ صالح اور ایماندار لوگوں کی تعداد دنیا کے ہر معاشرے میں کم ہوتی ہے۔ لیکن ان کا معاشرے پر اس قدر رعب ہوتا ہے کہ اگر وہ اکٹھے ہو کر آواز بلند کر دیں تو کسی میں اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ ان کا مقابلہ کر سکے، پورا معاشرہ اُن کا ساتھ دیتا ہے۔ لوگوں کو جب یقین ہو جائے کہ یہ شخص ہر لالچ سے پاک ہے‘ رکن اسمبلی،وزارت، سفارت ، گورنری اور صدارت جیسے عہدوں کے لیے سرگرداں نہیں تو پھر وہ اسے احترام کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔ اگر صرف ایک سارتر پورے فرانس کی حکومت پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو نیک اور صالح لوگوں کا ایک منظم گروہ پاکستان کی غاصب قوتوں کو کیوں خوفزدہ نہیں کرسکتا۔ لیکن خوف اُس سے کھایا جاتا ہے جس کا مقصد، نصب العین اور منزل پاک، واضح اور لالچ سے مبرا ہو۔ جب سب کی منزل ایک ہی طرح کی انتخابی ریس جیتنا ہو تو پھر سب برابر، سب ایک جیسے، سب ایک حمام میں ننگے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved