انسان کی سرشت کئی حوالوں سے بہت عجیب ہے۔ ہر انسان تمام معاملات کو مثبت بھی دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے وجود کے منفی پہلوؤں سے دست کَش ہونے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ خواہش تو یہ ہے کہ دنیا جنت ہو جائے‘ مگر اپنے وجود کے اندر پنپنے والے کسی جہنّم سے نجات پانے کا ذرا بھی نہیں سوچا جاتا۔ ہم زندگی بھر یہی چاہتے ہیں کہ سب کچھ اچھا ہو جائے‘ مگر ہم خود ہی زندگی بھر اس دنیا کو زیادہ سے زیادہ بُرا اور منفی بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔
ایک شکایت تو آپ نے بھی اکثر سُنی ہوگی (اور شاید کی بھی ہوگی) کہ ہم بُرے دور میں جی رہے ہیں۔ انسانی مزاج کا یہ پہلو بہت ہی عجیب ہے کہ ہر گزرا ہوا زمانہ بہت اچھا لگتا ہے۔ لمحاتِ حاضر سے انسان کبھی خوش نہیں ہوتا۔ گزرے ہوئے تمام زمانے کسی بھی طور اچھے نہیں ہوسکتے۔ ہم نے جو زمانے گزارے ہیں وہ بھی سب کے سب بہت اچھے نہیں تھے۔ اور جو زمانے ہمارے منصۂ شہود پر آنے سے قبل واقع ہوئے ‘اُن کے بارے میں ہم پورے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اچھے ہی تھے‘ کامرانی سے مزیّن پُرمسرّت ہی تھے؟
بات کچھ یوں ہے کہ انسان بالعموم حقیقت سے فرار چاہتا ہے۔ حقیقت سے فرار کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ایک فطری سی اور سہل صورت یہ بھی ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کو یادگار قرار دے کر اُنہیں یاد کرتے ہوئے زمانۂ حاضر کو ذہن سے جھٹک دیا جائے۔ جس طور بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں موند لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا بالکل اُسی طور ہم بھی اپنی مشکلات کو اَن دیکھی کرکے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب وہ مشکلات نہیں رہیں۔ مشکلات اگر اِس طور دور ہوا کرتیں تو پھر گِلہ کس بات کا تھا؟
ہر دور کا انسان ایک ایسے دور کے خواب دیکھتا رہا ہے‘ جس میں پریشانیاں کم سے کم‘ بلکہ برائے نام ہوں اور سہولتیں اِتنی زیادہ ہوں کہ قدم قدم پر یہ محسوس ہو کہ جنت میں زندگی گزاری جارہی ہے۔ بالکل ویسا نہ سہی‘ مگر اُس سے ملتا جلتا دور البتہ آچکا ہے۔ ہر دور کے انسان نے جس دور کے خواب دیکھے ہیں‘ اُس دور میں سانس لینا خیر سے ہمیں نصیب ہوا ہے۔
سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی حالات کی خرابی کا رونا روتے رہنا آج ہم میں سے بیشتر کی عادت بن چکا ہے۔ ہماری فکری ساخت میں قنوطیت گھر کرچکی ہے۔ کسی بھی معاملے کے منفی پہلوؤں کو دیکھنا اور مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ہمارا مزاج ہے۔ آج دنیا بھر میں مجموعی طور پر صرف 5 سے 10 فیصد افراد اس خیال کے حامل ہیں کہ معاملات درست ہیں اور دنیا بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں ایسے افراد کی تعداد 5 فیصد ہے۔ امریکی عمومی سطح پر بہت خوش رہتے ہیں۔ آپ سوچیں گے شاید وہ زندگی اور دنیا کو مثبت طور پر لیتے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے۔ صرف 6 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ دنیا بہتری کی طرف جارہی ہے! جتنے امریکیوں کو ترقی کا یقین ہے ‘اُن سے کہیں زیادہ وہ ہیں‘ جو جیوتش اور تناسخ پر یقین رکھتے ہیں!
افلاس کا گراف نیچے آرہا ہے۔ دنیا بھر میں غذائیت کی کمی دور ہو رہی ہے۔ عام لوگوں کو غیر معمولی رفتار سے خواندہ بنایا جارہا ہے۔ شیر خوار بچوں میں شرحِ اموات بہت تیزی سے نیچے آئی ہے۔ بچوں سے مشقّت کا رجحان تیزی سے دم توڑ رہا ہے۔ کسی جنگ میں پھنسنے‘ آمریت کے سائے تلے جینے اور کسی بھی قدرتی آفت کے ہاتھوں مرنے کا خطرہ دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔ کوئی بتائے کہ سنہرا دور اور کیسا ہوتا ہے؟
پانچ ہزار سال یا اُس سے بھی بہت پہلے کا انسان سو طرح کے خطرات سے گِھرا رہتا تھا۔ ایک طرف درندوں کا خوف لاحق رہتا تھا اور دوسری طرف قدرتی آفات کا۔ اُس دور کے انسان کا بیشتر وقت خوش گوار موسم سے محظوظ ہونے اور دستیاب وسائل سے مستفید ہونے سے کہیں بڑھ کر خطرات کے بارے میں سوچنے اور متفکر رہنے میں ضائع ہوتا تھا۔ ابتدائی دور کے انسان کا مزاج ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ آج ہر منفی معاملہ اچھے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اخبارات منفی خبروں کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ مثبت رپورٹس زیادہ ہوں تو لوگوں کو اخبار پڑھنے میں ذرا بھی لطف محسوس نہیں ہوتا۔
دنیا میں بہت کچھ ہے جو بہتری کی طرف مائل ہے۔ بہت سے معاملات میں لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے بہتر مواقع مل رہے ہیں‘ مگر ہم ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے اور منفی پہلو اجاگر کرنے والی ہر بات کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں۔ ایسی کتابیں تیزی سے فروخت ہوتی ہیں ‘جن میں دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کی گئی ہو یا تیزی سے بگڑتے ہوئے معاملات کو ہولناک انداز سے بیان کیا گیا ہو۔
1981ء میں ہر 10 میں 9 چینی شدید افلاس کی لپیٹ میں تھے۔ آج معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ‘یعنی 10 میں صرف ایک چینی غربت کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ 1981ء میں دنیا کی صرف نصف آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی میسر تھی۔ آج دنیا بھر میں کم و بیش 91 فیصد انسان پینے کے صاف پانی تک رسائی کا ''اعزاز‘‘ پاچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ 25 برس کے دوران روزانہ کم و بیش 2 لاکھ 85 ہزار افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی پاتے گئے ہیں! یہ دونوں بہت بڑی حقیقتیں ہیں ‘مگر ہم انہیں ذرا بھی اہم گرداننے کو تیار نہیں۔
اگر اب بھی آپ مطمئن نہیں ہوئے تو ذرا سوچیے کہ عالمی تجارت کے بڑھتے ہوئے حجم نے دنیا میں فی کس آمدنی کو نمایاں حد تک بڑھایا ہے۔ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد 25 برس میں فی کس خام قومی پیداوار میں اضافہ اس سے قبل کے 25 ہزار برس کے دورانیے میں ہونے والے اضافے سے زیادہ ہے!
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے شدید افلاس کی سطح بھی 37 فیصد سے 9.6 فیصد کی سطح پر آچکی ہے۔ روئے زمین پر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ شدید افلاس کی شرح ''سنگل ڈِجٹ‘‘ تک آ گِری ہے۔
ایسی ہی اور بھی بہت سی خوش گوار حقیقتیں ہمارے اطراف بکھری ہیں‘ مگر ہم اُن پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمیں ایسی خبریں زیادہ پُرکشش دکھائی دیتی ہیں ‘جن سے کسی بھی معاملے کے بھیانک پہلو اجاگر ہوتے ہوں۔ دنیا بھر میں خانہ جنگیاں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ ہر معاشرے میں سرگرم رہے ہیں۔ اب بھی ہیں‘ مگر اب اُنہیں کوریج زیادہ ملتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کو جہادیوں سے خطرہ لاحق ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہادیوں نے بہت کم لوگ مارے ہیں۔ آج بھی یورپ میں کسی ''نارمل‘‘ قاتل کے ہاتھوں مارے جانے کا خطرہ کسی جہادی کے ہاتھوں مارے جانے کے خطرے سے 30 گنا ہے! یورپ میں قتل کی وارداتوں کی شرح حالیہ دو عشروں کے دوران ہی نصف کی سطح پر لائی جاسکی ہیں۔
کسی بھی گزرے ہوئے دور کے مقابلے میں آج کی دنیا زیادہ محفوظ اور خوش حال ہے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع اور وسائل آج کہیں زیادہ ہیں۔ زیادہ کمانے کے مواقع بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کوئی اس کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ کرۂ ارض کا حقیقی سُنہرا دور یہی ہے اور اس بات کا منتظر ہے ہم اس حقیقت سے محظوظ و مستفید ہوں۔