تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-01-2019

کم علمی کا خوف…( 2)

جیسا کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا :دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں ؛ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان stimulusپہ اپنا ردّعمل دیتاہے۔ stimulusکیا ہے ؟ یہ ایک ایسی چیز ہے ‘ جو کہ انسان کو کچھ کرنے پہ‘ ردّعمل پہ اکساتی ہے ‘ مثلاً :میں ایک شخص کو قیمتی گاڑی میں بیٹھتا ہوا دیکھتا ہوں ۔یہ گاڑی stimulusہے ۔اسے دیکھ کر میرا دل کرتاہے کہ یہ گاڑی اس سے چھین لوں اور خود استعمال کروں۔ دوسرا responseعقل کا ہوتاہے ۔ وہ سمجھاتی ہے کہ یہ چیز میری نہیں ؛ اگر میں نے اس پر قبضہ کیا تو لڑائی ہوگی ۔ پولیس مجھے گرفتار کرے گی اور کچھ نہیں تو جس بندے کی یہ گاڑی ہے اور جو اس میں بیٹھ رہا ہے ‘ اس کے ساتھ ہاتھا پائی ہوگی ۔
stimulusکو respond کرنے میں جانور بھی ہم انسانوں جیسے‘ بلکہ انسانوں سے بھی زیادہ تیز ہیں ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک کتا دوسرے کتے کے منہ میں گوشت دیکھے اور اسے چھین لینے کی کوشش نہ کرے ۔ ہاں... البتہ کمزور جانور طاقتور جانور سے اسی طرح ڈرتا ہے ‘ جیسا کہ ہم انسان ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں ۔ 
انسان بھی اسی طرح دوسرے کے پاس قیمتی چیز دیکھ کر للچاتا اور اسے چھین لینے کی کوشش کرتاہے ۔لو گ بیوائوں کے پلاٹ ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مرکز میں اقتدار ختم ہونے کے بعد زرداری صاحب نے ذوالفقار مرزا سے ایک شوگر مل چھیننے کی کوشش کی تودونوں میں کیسی خوفناک جنگ ہوئی ؛ حالانکہ چند سال پہلے ایم کیو ایم کے خلاف ہنگامہ خیز لڑائی کا آغاز کرنے والے ذوالفقار مرزازرداری صاحب پہ اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار تھے ۔ اس دور میں ایم کیو ایم خوف اور دہشت کی علامت تھی اور اس کے خلاف ایک لفظ بولنا اپنی شامت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔
کچھ چیزوں کی سائنس انسان کو بالکل بھی سمجھ نہیں آتی اور وہ کنفیوژ ہو کر رہ جاتاہے ۔آپ کو پتا ہے کہ اللہ نے یہ کائنات 92عناصر سے بنائی ہے ۔ انہی 92عناصر سے دنیا کی ہر بے جان اور جاندار شے بنی ہے ‘ بشمول انسان ۔ خدا نے ہائیڈروجن‘ آکسیجن‘ نائٹروجن‘ کیلشیم ‘ فاسفورس اور کاربن سے 99فیصد انسانی جسم تخلیق کیا ہے ۔ جب کہ باقی جاندار بھی انہی عناصر سے بنے ہیں ۔ہر عنصر کی fixed خصوصیات ہیں اور وہ ان کے خلاف بالکل بھی نہیں جا سکتا ۔ جیسے؛ پیٹرول (ہائیڈروجن جمع کاربن)کو جیسے ہی تیلی لگے گی‘ اس نے فوراً جل اٹھنا ہے ۔ وہ نہ جلنے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ لوہے کو پانی لگے گا تو اس نے زنگ پکڑ لینا ہے ‘ بہرحال اس لوہے نے oxidizeہوجانا ہے ۔پانی اور آکسیجن کو نظر انداز کرنے کی کوئی آپشن لوہے کے پاس نہیں ہے ۔ اللہ نے انسان میں یہ خصوصی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ fixedخصوصیات والے عناصر سے بننے کے باوجود دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتاہے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے ‘ جس کی انسان کو بالکل بھی سمجھ نہیں آتی اور وہ کنفیوژ ہو جاتاہے ۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ وہ خدا کس لیول کا کیمیادان ہے ۔ کس طرح ان عناصر کو ایک دوسرے میں جوڑ کر اس نے انسان میں اپنے رجحان اور خواہش ‘ Tendencyاور Desireکے خلاف جانے کی صلاحیت پیدا کی ۔ 
''میرے جسم کی کیلشیم ‘‘ کے عنوان سے میں کچھ خاص لکھنا چاہتا ہوں ۔اسے خصوصی توجہ سے پڑھیے گا۔خدا نے جب انسان کو اور دوسری جاندار چیزوں کو تخلیق کیا تو ان کے جسموں کو کاربن‘ ہائیڈروجن‘ نائٹروجن‘ کیلشیم ‘ فاسفورس ‘ آکسیجن اور کچھ دوسرے عناصر سے بنایا‘ پھر اس نے میرے جسم کی کچھ کیلشیم ‘ کچھ کاربن‘ کچھ نائٹروجن‘ کچھ ہائیڈروجن اور کچھ فاسفورس میرے جسم سے باہر رکھ دی ۔یہ میرا رزق ہے ۔اب جب بچہ پیدا ہوتاہے تو وہ اپنے ہی جسم کے یہ عناصر ‘ جو خدا نے اس کے جسم سے باہر رکھے ہیں ‘ انہیں کھانا پینا شروع کر دیتاہے ۔ جب وہ ان سب کو مکمل طور پر استعمال کر لیتاہے ‘تو پھر وہ مر جاتا ہے ۔ اسی طرح میں نے جتنے بھی گندم کے دانے استعمال کرنے ہیں اور آکسیجن کا جو جو ایٹم اپنے جسم کے اند ر لے کر جانا ہے ‘ وہ میرے لیے مختص ہے اور اسے کوئی بھی دوسرا استعمال نہیں کر سکتا اور جو چیز میری نہیں ہے ‘ وہ میں دنیا جہان کی دولت ہونے کے باوجود کسی طرح بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ مائیں روتی ہیں کہ ان کے بچّے کچھ کھاتے نہیں ۔ بچہ وہی کیلشیم کھائے گا‘ جو اس کے جسم کا حصہ ہوگی ۔ 
کیا مخلوقات کو اس طرح ڈیزائن کیا جا سکتا تھا کہ ان کی زندگی بھر کی ضروریات ان کے جسم میں ہی رکھ دی جاتیں۔ انسان جب ضرورت سے زیادہ کھاتا ہے تو اضافی خوراک چربی کی صورت میں جمع ہو جاتی ہے ۔ اب اگر ایک شخص نے اپنی پوری زندگی میں بارہ ٹن خوراک کھانی ہے توپیدائش کے وقت وہ بارہ ٹن ‘ اس کے چار کلو کے جسم کے ساتھ کیسے جوڑے جاتے ؟ یہی وجہ ہے کہ خدا نے ہمارے جسم کی کیلیشیم‘ ہائیڈروجن‘ ہائیٹروجن‘ کاربن‘ فوسفورس اور آکسیجن ہمارے جسم سے باہر رکھی ہیں ‘لیکن ہیں وہ میرے جسم ہی کا حصہ ۔ وہ جہاں بھی ہوں گی ‘ میں وہاں پہنچ کر انہیں کھا لوں گا؛ اگر وہ میرے جسم کی کیلشیم نہیں ہے ‘تو میں اسے کسی صورت بھی نہیں کھا سکوں گا۔ ڈاکٹر منع کر دیتے ہیں کہ آپ یہ نہیں کھا سکتے۔ اور اگر وہ میرے جسم کی چیز ہے‘ تو میں غربت کے باوجود ایک وقت میں پانچ پانچ روٹیاں کھاتا ہوا پایا جائوں گا ۔ 
گزشتہ کالم میں لکھا : خدا کو تو اس ایک ایک گندم کے دانے کا علم ہے ‘ جو کہ میں نے اپنی زندگی میں استعمال کرنا ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خوف میں ہوں ۔ سچ یہ ہے کہ کم علمی کا خوف انسان کو کھا گیا ہے ؛ اگر یہ کم علمی نہ ہوتی اور اگر انسان کو نظر آرہا ہوتا کہ اس نے کیا کھانا ہے ‘کیا اوڑھنا ہے ‘ اس کے جسم کی کیلشیم کون سی ہے اور کاربن کون سی تو پھر اس کا خوف بھی ختم ہو جاتا اور لالچ بھی ۔ کوئی صحافی حکومت کے دستر خوان پہ سجدہ ریز نہ ہوتا ۔
گزشتہ کالم میں ایک نکتہ اور عرض کیا تھا کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں بہت محنت سے کما رہا ہوں ؛حالانکہ گندم اور لوہے سمیت زندگی میں جتنی بھی چیزیں انسان استعمال کرتاہے ‘ وہ خدا نے زمین سے اگائیں یا زمین کے نیچے رکھ دیں‘ لیکن ہم پر حجاب ڈال دیے گئے ہیں‘ تاکہ ہمیں آزمایا جائے۔ ہم اپنی قیمتی گاڑیوں اور جائیدادوں پہ فخر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ انسان اس سیارے پر کچھ بھی تخلیق نہیں کر رہا ‘بلکہ وہ تواس میں پہلے سے موجود چیزوں کو استعمال کررہا ہے ؛حتیٰ کہ جس آگ پر ہم کھانا گرم کرتے ہیں ‘ اس کے لیے بھی اللہ نے زمین میں کوئلہ‘ گیس ‘ تیل اور ہوا میں آکسیجن رکھی ؛حتیٰ کہ وہ کرنسی نوٹ آپ استعمال کرتے ہیں ‘ وہ بھی درختوں کی چھال ‘بلکہ کپاس سے بنائے جاتے ہیں ‘ جو زمین ہی سے اُگتی ہے ۔
یہ بھی لکھا تھا کہ پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب پیسے existنہیں کرتے تو پھر کیا eixstکرتاہے ۔ جواب یہ تھا کہ صرف barterسسٹم existکرتا ہے ۔اس کے علاوہ یہ matterکرتاہے کہ انسان روزانہ کی بنیاد پر productivelyکام کر رہا ہو ۔دوسروں کو serviceدے رہا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved