بجھا رہا ‘کئی دن چراغ بجھا رہا۔ آخر کو ڈاکٹر امجد ثاقب کام آئے۔ تاریکی اور بھی گہری ہو جاتی لیکن پھر وہ دن یاد آیا جب نہر کنارے ایک چھ منزلہ عمار ت تک گئے تھے۔ وہاں ایک چراغ روشن تھا۔ اس چراغ کی کہانی پھر کبھی۔ ع
روشنی ہے پسِ ظلمات عجیب
امید کی کوئی کرن دور دور تک نہیں تھی۔چترال کی برفانی بلندیوں سے لے کر کراچی کے روتے بسورتے ساحل تک ‘ امید کی کوئی کرن دور دور تک نہیں تھی۔
سینتیس برس ہو تے ہیں ایجنسی افغان پریس کے دفتر میں ایک باورچی کی ضرورت آن پڑی۔ مختار حسن مرحوم نے پشاور میں کسی دوست سے درخواست کی کہ ڈھنگ کا کوئی آدمی ڈھونڈ نکالیں۔ اگلے ہی دن بائیس تیئس برس کا لمباتڑنگا ایک نوجوان اڑھائی کمروں کے اس دفتر میں داخل ہو ا۔سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں واقع تھا۔شائستہ اطوار اور خوش کلام۔مگر کھاناپکانے کے لیے کہا گیا تو حیرت سے مختار حسن صاحب کو دیکھا اور کہا : یہ تو عورتوں کا کام ہے۔دفتر کی بہت سی ذمہ داریاں ایسی خوش دلی سے نبھائیں کہ آج بھی ان دنوں کی یادتمتماتی ہے۔
سینتیس برس پہلے کا وہ خوش چہرہ نوجوان اب ایک باریش بزرگ ہے۔ ایک ہفتہ پہلے فون کیا تو میں لاہور میں تھا۔عرض کیا کہ اسلام آباد پہنچ کر حاضری دوں گا ۔ اڑسٹھ برس کی عمر میں ہر بات کہاں یاد رہتی ہے۔ بھول گیا اور ایک بار نہیں تین بار۔آخر کو طے یہ پایا کہ جمعہ کی صبح جب اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوں گا تو وہ ہمراہ ہوں گے ۔
عبدالمجید تو یوں بھی درمیانے درجے کے زمیندار ہیں۔تین برس پہلے کے سیلاب نے چترال میں بڑے بڑوں کو زمیں بوس کردیا تھا۔ حیرت اور حسرت سے اہلِ چترال آسمان کو تکتے رہے۔ پشاور اور اسلام آباد سے کوئی نہ آیا۔ مکان ڈھے گئے ۔کہیں کہیں تو خیمے تک میسر نہ تھے۔ جو بے خانما ں تھے ان میں سے بعض اب تک بے خانماں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بہترین بھائی چارہ وہ ہے جو درماندہ نجیب کے ساتھ ہو۔اس بھلے آدمی کے ساتھ جو کبھی دست ِ سوال دراز نہیں کرتا۔ مدینہ منورہ کی مواخات کا روشن پہلو یہ بھی تھا ‘اور بھی سب کچھ تھا۔سبھی کچھ تھا مگر احساس ِ کمتری کے ماروں کو کہاں یاد۔ع
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
پاکستان میں موا خات کے جمال وکمال کو کوئی سمجھ سکا تو ڈاکٹر امجد ثاقب ۔ اللہ انہیں برکت دے‘اس میدان میں کئی عشرے انہوں نے سرکارـؐ کے نقوش ِ قدم تلاش کرتے بتا دیئے۔ تیس لاکھ خاندانوں یعنی ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں کو غیر سودی قرض فراہم کیا۔ بیس لاکھ خاندانوں کے تن ڈھانپے۔تین شاندار کالج اور تین سو سکول اور اس کے سوا بھی بہت کچھ ۔ یہ کہانی بعد میں۔
طلوع ِآفتاب سے قبل راولپنڈی سے شروع ہوتے پانچ گھنٹے کے سفر میں سیاست اور سماج کے خدوخال پہ گفتگو رہی۔ انہوں نے اپنا حال بیان کیا اور نہ میں پوچھنے کی ہمت جمع کرسکا۔ چلتے چلتے بس اتنا بتایا کہ کمروں کے دروازے نہیں بن پائے اور لکڑی کا نرخ پندرہ سو روپے فی فٹ کو جا پہنچا ہے۔
جذبات کی گھٹا امڈ کے آئے تو سوچنے سمجھنے کی استعداد کم ہو جاتی ہے۔سالِ گذشتہ کے مقابلے میں پاکستانیوں کی آمدن دو تہائی رہ گئی ۔ زرداری صاحب کے زمانے میں قومی بینکوںسے سرکار تین ارب روپے روزانہ قرض لیا کرتی ۔ میاں محمد نواز شریف کے دور میں پانچ ارب ۔اور اب نوبت پندرہ ارب روپے یومیہ تک آن پہنچی ہے۔
کپتان نے دعویٰ یہ کیا تھا کہ وہ ٹیکس وصولی کو آٹھ ہزار ارب روپے سالانہ تک لے جائے گا۔ رواں مالی سال کا گوشوارہ یہ کہتا ہے کہ چھتیس سوارب سے شاید نہ بڑھ پائیں۔ روپے کی قوّت ِ خریدایک تہائی کم ہوچکی ۔مطلب اس کا یہ ہے کہ اگلے برس دفاعی بجٹ کے لیے کم از کم دس فیصد زیادہ مختص کرنا ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قرضوں کی قسط اور سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پچھلے چند روز میں بازارِ حصص کا حال بہتر ہوا۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ وزیر ِ اطلاعات فواد چوہدری ہیں‘ سیاسی مشیر جناب نعیم الحق اور مباحثے کی میز پر برادرِ عزیز فیاض الحسن چوہان براجمان ۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ سینکڑوں ہزاروں کی منت سماجت بھی انہیں سمجھا نہیں سکتی۔ سمجھا نہیں سکتی کہ بے یقینی اور اتھل پتھل معیشت کے دروبام کو دیمک کی طرح چاٹ جایا کرتی ہے۔ جب عصرِ رواں کے قائداعظم خان عمران خان ہی نہیں سنتے تو کوئی اور کیوں سنے۔
نعیم الحق بضد ہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف کو جیل میں سڑنا چاہئے اور آصف علی زرداری کو بھی۔ کروڑوں پاکستانی بھی شاید یہی پسند کریں ۔ قوم اوروطن کے پیکر پربے شمار چرکے ان زعما نے لگائے ہیں۔عام آدمی کے قلب و دماغ میں آگ بھڑکے تو یہ قابلِ فہم ہے۔ سوچنے سمجھنے والوں کو مگر ادراک کرنا چاہیے۔ ادراک کرنا چاہیے کہ انتقام کی آگ بجھانے والے تمام زندگیاں اسی میںکھپا دیا کرتے ہیں۔ کبھی کسی ہٹلر ‘ کبھی کسی مسولینی ‘ کسی فرانکو‘ کسی بھٹو نے کوئی قوم تعمیر نہیںکی۔ کبھی کوئی معیشت تعمیر نہیں کی۔ عارضی طور پر ہی سہی فیلڈ مارشل ایوب خان ‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے فوجی آمر وں نے تو کچھ نہ کچھ کر دکھایا ‘ بھٹو نے نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو قائد ِ عوام تھے‘فخر ِایشیا بھی۔ آج کے سیاستدانوں سے سوگنا زیادہ پڑھے لکھے۔ اپنے عصر سے آشنا‘ کاروبارِ سیاست اور کارِ سرکار سے باخبر۔اس کے باوجود وہ ناکام رہے اس لیے کہ خوئے انتقام پہ قابو نہ پا سکے۔
وزیراعظم نے بجا فرمایا ‘ بھٹو ‘ ایوب خان اور میاں نواز شریف۔ ضیاء الحق کی گود میں پروان چڑھے۔ بجا کہ خیانت کے مرتکب ہوئے۔ بجا کہ سیاسی پارٹیوں کو انہوں نے خاندانی جاگیر بنا دیا۔ سوا ل دوسرا ہے ‘ پہلی ترجیح زخمی معیشت کا اندمال ہے یا ملزموں سے انتقام۔ زخمی کی زندگی بچانی ہے یا اسے موت کے حوالے کرکے فقط قصورواروں کا تعاقب کرنا ہے؟
تین چار دن اس سوال کی اذیّت میں بیت گئے '' ألیس منکم رجل رشید‘‘ کیا تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو بات کو سمجھ سکے۔ جو جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ تعصب اور وحشت کا قیدی نہ ہو۔ کیا اس پورے لشکر میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں۔ کوئی نہیں جو چیخ کر کہے : رک جائو۔ خدا کے لیے اب رک جائو۔
جو یہ بتا سکے کہ اسی فیصد پاکستانیوں کی آمدن اخراجات سے کم ہے ۔اڑھائی تین کروڑ بچے گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ع
گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاں دے ونجارے ہُو
ہیروں کے خریدار راستوں کی دھول میں بھٹک رہے ہیں۔زندگی کیکر کی شاخوں میں الجھی دھجیوں جیسی ہو گئی ۔
پندرہ سولہ کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیںملتا۔ ہسپتالوں کے برآمدے بھیڑ اور بدبو سے بھر جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کا عالم یہ ہوا کہ اعلیٰ ترین ڈگریاں رکھنے والے کوئی بدیسی زبان تو کیا‘ روانی سے ریختہ بھی پڑھ نہیں سکتے۔ اب کوئی پوچھے گا کہ یہ ''ریختہ ‘‘کس بلا کا نام ہے۔ بھائی لوگو‘ اردو زبان کو اسد اللہ خان غالب ریختہ کہا کرتے۔
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ہمارے عصر کے ایک عظیم دانشور ‘ممتاز شاعر‘ میرے عزیز دوست منصور آفاق احمد فراز کو میرؔ پرترجیح دینے لگے۔ اس پہ تو پھر کبھی‘ فی الحال میرؔ صاحب کا ایک شعر
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
بجھا رہا ‘کئی دن چراغ بجھا رہا۔ آخر کو ڈاکٹر امجد ثاقب کام آئے۔ تاریکی اور بھی گہری ہو جاتی لیکن پھر وہ دن یاد آیا جب نہر کنارے ایک چھ منزلہ عمار ت تک گئے تھے۔ وہاں ایک چراغ روشن تھا۔ اس چراغ کی کہانی پھر کبھی۔ ع
روشنی ہے پسِ ظلمات عجیب